دعاء
یٰسین احمد
آج کی شب اجتماعی دعاء کا اہتمام کیا گیا تھا
جیسے ہی شام کا ملگجی دھندلکا رات کے اندھیرے میں مدغم ہوا، مختلف عورتیں ایک کے بعد ایک اس ہال میں جمع ہونے لگفی تھیں کو اطراف و اکناف کے گھروں میں رہتی تھیں۔ نہایت ہی خاموشی سے اپنے اپنے گھروں سے نکل کر چھپتی چھپاتی وہاں پہنچ رہی تھیں۔ انتہائ سیمی سہمی سی کسی بے روح جسم کی طرح، حالاں کہ وہ سب زندہ تھیں۔ لیکن حیات کی تازگی اور توانائ سے محروم ہو چکی تھیں۔ اپنی سسکتی روحوں پر غموں کا انبار لۓ بھیگی بھیگی پلکوں اور تھکے تھکے قدموں سے اس عمارت کے ایک چھوٹے سے ہال میں داخل ہو رہی تھیں جو شاید بم باری کی وجہ سے تباہ و تاراج ہو چکی تھی۔ لیکن ھال کا دم خم ابھی مکمل طور پر ٹوٹا نہیں تھا۔ البتّہ بارود اور دھوئیں کی بو کسی خبیث روح کی طرح چاروں طرف منڈلا رہی تھی۔
کبھی وہ عمارت کسی ذی حیثیت آدمی کی ملکیت تھی۔لیکن وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا۔ کچھ ہفتوں پہلے اچھا خاڈا گھر سے نکلا تھا لیکن اسٹریچر پر رکھ کر کچھ آدمی اسے گھر لاۓ تو اس کی شناخت مشکل ہو گئ تھی۔اس کی بیوی زندہ در گور ہو گئ تھی۔ اس نے مشکل سے زندگی کی پچّیس چھبّیس منزلیں طے کی تھیں لیکن اس دلدوز حادثے نے اس پر قبل از وقت بڑھاپا طاری کر دیا تھا اور وہ اپنی حقیقی عمر سے پندرہ بیس سال بڑی معلوم ہونے لگی تھی۔ لیکن پہاڑ جیسا دل لائ تھی اس لۓ اپنے سینے پر صبر کی سِل رکھ کر دوسروں کے غموں میں شریک ہوتی پھر رہی تھی۔ شاید اس طرح بھی زخم مندمل کۓ جاتے ہیں۔
اسی بیوہ نے اجتماعی دعاء کا اہتمام کیا تھا، وہ خود سب سے پہلے ہال میں داخل ہوئ تھی۔ اس کا قد دراز تھا اور جسم بھرا بھرا، چہرہ کتابی اور بال سیاہ گھنے۔ لیکن اس وقت اتنے خوبصورت بال الجھے الجھے اور بے ترتیب تھے۔ وہ جوان زلفوں کی چھاؤں میں دفینے ڈھونڈا کرتا تھا، ان زندہ نہیں رہا تو کس کے لۓ بناؤ سنگھار کرتی!!
در اصل قیامت صرف اس پر نہیں ٹوٹی تھی۔ سارا شہر جل رہا تھا۔ بستیاں جل رہی تھیں۔ہر دن عورتیں بیوہ ہو رہی تھیں۔ ماؤں کی گود اجڑ رہی تھی۔، ضعیف باپ اور جوان بہنیں بے یار و مددگار ہو رہی تھیں۔ یوں بھی وہ شہر بڑا بدنصیب تھا کہ روزِ اوّل ہی سے یہاں کی زمین خون میں نہاتی رہی تھی۔ اور آج بھی وہی ہو رہا تھا۔ انسانی لہو پانی کی طرح بہہ رہا تھا حالاں کہ یہاں کی زمین سیّال سونا اگلتی تھی۔ اور کسی گھر میں بھی دولت کی کمی نہیں تھی۔ لیکن بد نصیبی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی۔ ہر چہرہ پریشان اور ہر گھر میں آنسوؤں کی برکھا جاری تھی۔
یہ سب کچھ اس ابلیس کی وجہ سے ہو رہا تھا جو بدی کا محور تھا۔ جو زبردستی ان کے گھروں میں گھس آیا تھا۔ دہشت گردی کے نام پر ہر روز معصوم انسان کٹ رہے تھے۔ ظلم و زیادتی کا یہ سلسلہ مہینوں سے جاری تھا اور اس کے ختم ہونے کے کوئ آچار نظر نہیں آ رہے تھے۔
لیکن آج ایک ہلکی سی امّید کی کرن ابھر آئ تھی۔ کیوں کہ ان لوگوں نے سنا تھا کہ وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ظلم و ستم کا یہ باب ہمیشہ کے لۓ ختم ہو جاۓ اور اس کا دوبارہ جنم نہ ہو۔
اس اجتماعی دعاء کا مقصد یہی تھا کہ سب مل کر رب العزّت کی بارگاہ میں گڑگڑائیں اور اس کے خاتمے کے لۓ دعائیں کریں۔ اب ان کے لۓ دعاء ہی سب سے بڑا ہتھیار تھا۔’ہر ایک خاتون ساۓ کی طرح چل کر ہال میں داخل ہو رہی تھی۔ رات کی ابتدائ ساعتیں تھیں۔ باہر گہری تاریکی چاروں طرف چھانے لگی تھی۔ اور اندر ہال میں روشنی تھی۔ لیکن کم کم، اتنی کہ ایک دوسرے کے چہرے کو پہچان سکیں۔
اس بیوہ کے بعد جو دوسری خاتون ہال میں داخل ہوئ وہ بہت کم عمر تھی۔ اس کے مرجھاۓ ہوۓ چہرے سے شادابی غائب ہو چکی تھی۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں یاسیت نے مستقل ڈیرا جما لیا تھا۔ اس نے اپنے شوہر ہی نہیں سات آٹھ سال کے شیر خوار بچّے کو بھی ہمیشہ کے لۓ کھو دیا تھا۔ حالاں کہ اس شیر خوار کو نذرِ خاک کۓ تین ہفتے ہو چکے تھے لیکن اس کے وجود سے ممتا کی علامتیں جدا ہونے نہ پائیں تھیں۔ اب بھی ایک چادر میں اس چھپے ہوۓ اس کے جسم کا اوپری حصّہ گیلا ہو رہا تھا۔
ہال میں داخل ہوتے ہی عمارت کی مالکن کو دیکھ کر وہ بے ساختہ سسک پڑی۔ عمارت کی مالکن نے اس کے شفقت سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔’میں تمھارا غم سمجھتی ہوں۔ خدا تمھیں صبرِ جمیل عطا کرے ‘۔
’میرا بچّہ تو دودھ پیتا تھا‘۔ وہ سسکیوں کے درمیان بولی۔ ’اس کی قسمت کا دودھ۔۔۔‘ وہ خاموش ہو گئ اور اس نے اپنے جسم سے چادر ہٹا دی۔ جو منظر عمارت کی مالکن نے دیکھا وہ نا قابلِ بیان تھا۔ اس کے سارے جسم میں جھرجھری سی دوڑ گئ۔ اس نے فوراً جوان بیوہ کی چادر برابر کر دی۔
ہال میں داخل ہونے والی تیسری خاتون انتہائ ضعیف تھی۔ وہ بہت مشکل سے وہاں تک چلتی ہوئ آئ تھی کہ اس اجتماعی دعاء میں شریک ہو سکے۔ اس کے لۓ زندگی اب ایک بوجھ کے سوا کچھ نہ تھی۔ کیونکہ اس کا واحد سہارا چھینا جا چکا تھا۔ اور اب باقی زندگی کا ایک ایک پل گزارنا مشکل تھا۔ جتنی عورتیں وہاں آ رہی تھیں، وہ سب کی سب حالات کا شکار تھیں۔ ان کی المناک داستانیں کلیجہ چیر کر رکھ دیتی تھیں۔
آدھے گھنٹے کے اندر عمارت کا چھوٹا سا ہال کھچا کھچ بھر گیا۔ سب خاموش تھیں، غم زدہ تھیں اور خوف زدہ بھی کہ معلوم نہیں کب کس لمحے میں کوئ قیامت ان پر ٹوٹ پڑے۔
ایک عورت منے کہا۔ ’رات گہری ہونے سے پہلے ہمیں اپنی دعاء مکمل کر لینی چاہۓ تاکہ جلد سے جلد اپنے گھروں کو لوٹ جائیں‘۔
عمارت کی مالکن اٹھ کھڑی ہوئ۔
’ہاں میں بھی یہی چاہتی ہوں۔ اب کسی اور کا انتظار نہیں کرنا چاہۓ‘
اور پھر ایک لمحے کو وہ رکی اور بولی۔ ’یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ وہ ابلیس ہمارے ملک میں، ہمارے شہر میں اور ہمارے گھروں میں داخل ہو کر ہم پر ستم ڈھا رہا ہے۔ ہر دن ہمارا سہاگ اور ہماری اولاد موت کے گھاٹ اتر رہی ہے۔ ہمارے گھر جل رہے ہیں، آئیے ہم سب مل کر دعاء کریں کہ اس کا دوسرا جنم نہ ہو اور وہ ہمیشہ کے لۓ نِٹ جاۓ۔ دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ دعاؤں سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ ممکن ہے کہ ہماری بھی تقدیر بدل جاۓ۔‘
’بے شک بے شک۔۔۔۔‘ سب عورتوں نے دھیمی آواز میں ایک زبان ہو کر کہا اور اپنی اپنی جگہ سے اٹھنے لگیں۔ انھوں نے اپنے سروں پر چادروں کو پھیلایا اور دعا کے لۓ اپنے ہاتھ بلند کۓ۔
’اے معبود۔۔۔۔!ً‘
اچانک ان کی آواز حلق میں پھنس گئ۔ آگے وہ کچھ نہ کہ سکیں کیوں کہ عین اسی لمحے ایک زوردار آواز کے ساتھ ہال کا دروازہ کھلا تھا اور ایک نوجوان عورت بدحواسی کے عالم میں اندر داخل ہوئ۔ اس کی سانس پھول رہی تھی لگتا تھا کہ وہ بہت دور سے دوڑتی ہوئ آئ ہے۔ ہال میں کھڑی عورتوں کی اس کی طرف گھوم گئیں۔ اس عورت نے وہیں کھڑے کھڑے ہانپتی ہوئ آواز میں کہا۔ ’غضب ہو گیا۔۔۔۔ ابھی ابھی میں نے ٹی وی پر دیکھا ہے کہ وہ ابلیس ایک اور جنم لینے میں کامیاب ہو گیا ہے۔۔۔۔‘
اس ہانپتی ہوئ عورت کی آواز ان سب پر بموں کی طرح پھٹی اور دعا کے لۓ اٹھے ہوۓ ہاتھ اچانک یوں گر گۓ جیسے مفلوج ہو گۓ ہوں۔۔۔
***