کیک — اصغر وجاہت (ہندی سے )

کیک

اصغر وجاہت

(ہندی سے )

اُنہوں نے میز پر ایک زوردار گھُونسا مارا اور میز بہُت دیر تک ہِلتی رہی۔ میں کہتا ہُوں جب تک ایٹ اے ٹائیم پانچ سو لوگوں کو گولی سے نہیں اُڑا دِیا جائے گا، حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اَپنی خاصی سپیکِنگ پاور برباد کر کے وہ ہانپنے لگے۔ پھِر اُنہوں  نے اَپنا اُوپری ہونٹ نِچلے ہونٹ سے دباکر مُجھے گھُورنا شُرُوع کِیا۔ وہ یقیناً سمجھ گۓ تھے کہ میں مُسکرا رہا ہُوں۔ پھِر اُنہوں نے گھُورنا بند کر دِیا اور اَپنی پلیٹ پر پِل پڑے۔

روز ہی رات کو سیاست پر بات ہوتی ہے۔ دِن کے دو بجے سے رات آٹھ بجے تک پرُوف ریڈِنگ کا گھٹِیا کام کرتے کرتے وہ کافی کھِسِیا اُٹھتے ہیں۔

میں نے کہا، ‘اُن پانچ سو لوگوں میں آپ اَپنے کو بھی جوڑ رہے ہیں؟’

‘اَپنے کو کیوں جوڑوں؟ کیا میں کُرُوک پالِٹیشِین ہُوں یا سمگلر ہُوں یا کروڑوں کی چوربازاری کرتا ہُوں؟’ وہ پھِر مُجھے گھُورنے لگے تو میں ہنس دِیا۔ وہ اَپنی پلیٹ کی سمت دیکھنے لگے۔

‘آپ لوگ تو کِسی بھی چیز کو سیرِیسلی نہیں لیتے ہیں۔’

کھانے کے بعد اُنہوں نے جُھوٹی پلیٹیں اُٹھائیں اور کِچن میں چلے گۓ۔ کُرسی پر بیٹھے ہی بیٹھے مِسیز ڈِسُوزا نے کہا، ‘ڈیوِڈ، میرے لِۓ پانی لیتے آنا۔’

ڈیوِڈ جگ بھرکر پانی لے آۓ۔ مِسیز ڈِسُوزا کو ایک گِلاس دینے کے بعد  بولے ، ‘پی لیجِئے مِسٹر، پی لیجِئے۔’

میرے اِنکار کرنے پر جلے کٹے طریقے سے چمکے ، ‘تھینکس ٹُو گاڈ! یہاں دِن بھر پانی تو مِل جاتا ہے۔ اَگر اِندرپُری میں رہتے تو پتا چل جاتا۔ خیر، آپ نہیں پیتے تو میں ہی پِئے لیتا ہُوں،’ کہہ کر وہ تین گِلاس پانی پی گۓ۔

کھانے کے بعد اِسی میز پر ڈیوِڈ صاحب کام شُرُوع کر دیتے ہیں۔ آج بھی وہ پرُوف کا پُلِندا کھول کر بیٹھ گۓ۔ اُنہوں نے میز صاف کی۔ میز کے پاۓ کی جگہ  اِینٹوں کو ہاتھ سے ٹھیک کِیا، تاکہ میز ہِل نہ سکے۔ پھِر ٹُوٹی کُرسی پر بیٹھے بیٹھے اَچانک اَکڑ گۓ اور ناک کا چشمہ اِس طرح فِٹ کِیا جیسے بندُوق میں گولِیاں بھر لی ہوں۔ ہونٹ خاص طرح سے دبا لِۓ۔ پرُوف مسودّے سے مِلانے لگے۔ گولِیاں چلنے لگیں۔ اِسی طرح ڈیوِڈ صاحب رات بارہ بجے تک پرُوف دیکھتے رہتے ہیں۔ اِسی بیچ سے کم سے کم پچاس بار چشمہ اُتارتے اور لگاتے ہیں۔ بندوق میں کُچھ خرابی ہیں۔ پانچ سال پہلے آنکھیں ٹیسٹ کروایی تھیں اور چشمہ خریدا تھا۔ اَب آنکھیں زیادہ کمزور ہو چُکی ہیں، مگر چشمے کا نمبر نہیں بڑھ پایا ہے۔ ہر مہینے کی پندرہ تاریخ کو وہ اَگلے مہینے آنکھیں ٹیسٹ کرواکر نیا چشمہ خریدنے کی بات کرتے ہیں۔ بندوق کی قیمت بہُت بڑھ چُکی ہے۔ پرُوف دیکھنے کے بیچ پانی پئیں گے تو وہ ‘باسو کی جے ` کا نارا لگائیں گے۔ ‘باسو` اُنکا باس ہے جِس سے اُنہیں کئی درجن شِکایتیں بھی ہیں۔ ایسی شِکایتیں بیشتر چھوٹا کام کرنے والوں کو ہوتی ہیں۔

‘بڑا جان لیوا کام ہے صاحب۔’ وہ دو ایک بار سر اُٹھا کر مُجھ سے کہتے ہیں۔ میں ‘ہُوں ہاں` میں جواب دے کر بات آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ لیکِن وہ چُپ نہیں ہوتے۔ چشمہ اُتار کر آنکھوں کی رگڑائی کرتے ہیں، ‘بڑی ہائی لیوِل بنگلِنگ ہوتی ہے۔ اَب تو چھوٹے موٹے کرپشن کیس پر کوئی چونکتا تک نہیں۔ پُوری مشینری سڑگل چُکی ہے۔ یہ آدمی نہیں، کُتّے ہیں کُتّے۔۔۔۔ میں بھی آزادی سے پہلے گاندھی کا سٹانچ سپورٹر تھا اور سمجھتا تھا کہ نان وائیلینس اِز د بیسٹ پالِسی۔ لٹکا دو پانچ سو آدمِیوں کو سُولی پر۔ اَرے ، اِن سالوں کا پبلِک ٹرایل ہونا چاہِئے ، پبلِک ٹرایل!’

‘پبلِک ٹرایل کون کرے  گا، ڈیوِڈ صاحب،’ میں جھلاّ جاتا ہُوں۔ اِتنی دیر سے لگاتار بکواس کر رہے ہیں۔

وہ دونوں ہاتھوں سے اَپنا سِر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

‘ماسیج میں اَگر لیفٹ فورسیز۔۔۔’، وہ دھیرے دھیرے بہُت دیر تک بڑبڑاتے رہتے ہیں۔

میں جاسُوسی ناول کے ہیرو کو ایک بار پھِر گولِیوں کی بوچھار سے بچا دیتا ہُوں۔

وہ کہتے ہیں، ‘آپ، بھی کیا دو ڈھائی سو رُوپۓ کے لِئے گھٹِیا ناول لِکھا کرتے ہیں!’ میں مُسکراکر اُنکے پرُوف کے پُلِندے کی طرف دیکھتا ہُوں اور وہ چُپ ہو جاتے ہیں۔ گمبھیر ہو جاتے ہیں۔

‘میں سوچتا ہُوں بردر، کیا ہم تُم اِسی طرح پرُوف پڑھتے اور جاسُوسی ناول لِکھتے رہیں گے ؟ سوچو تو یار! دُنِیا کِتنی بڑی ہے۔ یہ ہمیں معلُوم ہے کہ کِتنی اَچّھی طرح سے زِندگی گُزاری جا سکتی ہے۔ کِتنا آرام اور سُکھ ہے ، کِتنی بیُوٹی ہے۔۔۔۔’

‘پریشانی تو میرے لِئے ہے ، ڈیوِڈ صاحب۔ آپ تو بہُت سے کام کر سکتے ہیں۔ مُرغی  خانہ کھول سکتے ہیں۔ بیکری لگا سکتے ہیں۔۔۔۔’

وہ آنکھیں بند کر کے شک بھری ہنسی ہنسنے لگتے ہیں۔ اور کمرے کی ہر ٹھوس چیز سے ٹکرا کر اُنکی ہنسی اُنکے مُونہہ میں واپس چلی جاتی ہے۔

اَکثر کھانے کے بعد وہ ایسی ہی بات چھیڑ دیتے ہیں۔ کام میں من نہیں لگتا اور وقت بوجھ لگنے لگتا ہے۔ جی میں آتا ہے کہ لوہے کی بڑی سی راڈ لے کر کِسی فیشنیبُل کالونی میں نِکل جاؤں۔ ڈیوِڈ صاحب تو ساتھ چلنے پر تیّار ہو جائیں گے۔ وہ پھِر بولنے لگتے ہیں اور اُنکے پسندیدہ الفاظ  ‘بِچ`، ‘کرُوک`، ‘نان سینس`، ‘بنگلِنگ`، ‘پبلِک ٹرایل`، ‘ایکسپلائیٹیشن`، ‘کلاس سٹرگل` وغیرہ بار بار سُنایی پڑتے ہیں۔ بیچ بیچ میں وہ ہِندوُستانی گالِیاں فرّاٹے سے بولتے ہیں۔

‘اَب کیا ہو سکتا ہے ! پچّیس سال تک پرُوف ریڈری کے بعد اَب اور کیا کر سکتا ہُوں۔ سن 1948 میں دِلّی آیا تھا۔ اَرے ساب، ڈِفینس کالونی کی زمین تین رُوپۓ گز میرے سامنے بِکی ہے ، جِس کا دام آج چار سو رُوپۓ ہے۔ نِظامُ الدّین سے اوکھلا تک جنگل تھا جنگل۔ کوئی شریف آدمی رہنے کو تیّار ہی نہیں ہوتا تھا۔ اَگر اُس وقت اُتنا پیسا نہیں تھا اور آج۔۔۔۔ سینِیر کیمبرِج میں تیرے ساتھ پڑھتا تھا۔ اَب اَگر آپ آج اُسے دیکھ لیں تو مان ہی نہیں سکتے کہ میں اُسکا کلاس فیلو اور دوست تھا۔ گورا چِٹّا رنگ، اے کلاس صحت، ایک جیپ، ایمبیسیڈر اور ایک ٹریکٹر ہے اُسکے پاس۔ مِرزاپور کے پاس فارمِنگ کرواتا ہے۔ اُس زمانے میں دس رُوپۓ بیگھا زمین خریدی تھی اُسنے۔ مُجھ سے بہُت کہا تھا کہ تُم بھی لے لو ڈیوِڈ بھائی، چار-پانچ سو بیگھا۔ بِالکُل اُسی کے فارم کے سامنے پانچ سو بیگھے کا پلاٹ تھا۔ اے -کلاس فرٹائیل زمین۔ لیکِن اُس زمانے میں مَیں کُچھ اور تھا۔’ وہ کھِسِیانی ہنسی ہنسے ، ‘آج اُسکی آمدنی تین لاکھ رُوپۓ سال ہے۔ اَپنی ڈیّری، اَپنا مُرغی خانہ- ٹھاٹھ ہیں، سب ٹھاٹھ۔’ ڈیوِڈ صاحب خوش ہو گۓ جیسے وہ سب اُنہیں کا ہو۔ پرُوف کے پُلِندے کو اُٹھا کر ایک کونے میں رکھتے ہوۓ بولے ، ‘میری تو قِسمت میں اِس شاندار کمرے میں مِسیز ڈِسُوزا کا کِراۓ دار ہونا لِکھا تھا۔’

مِسیز ڈِسُوزا کو پچاس رُوپۓ دو، کمرا مِل جاۓ گا۔ پچّیس رُوپۓ اور دو تو صبح ناشتہ مِل جاۓ گا اور تیس رُوپۓ دو رات کا کھانا، جِسے مِسیز ڈِسُوزا اَنگریزی کھانا کہتی ہیں، مِل جاۓ گا۔ مِسیز ڈِسُوزا کے کمرے سے لگی تصویروں کو، جو بیشتر اُنکی جوانی کے دِنوں کی ہیں، کِراۓ دار ہٹا نہیں سکتا۔ کِسی تصویر میں وہ موم بتّی کے سامنے بیٹھی کِتاب پڑھ رہی ہیں، تو کِسی میں اَپنے بال گود میں رکھے خلا میں دیکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کُچھ لوگوں کا تعارف اَنگریز اَفسر کے رُوپ میں کرواتی ہیں، پر دیکھنے میں وہ سب ہِندُستانی لگتے ہیں۔ ایک تصویر مِسیز ڈِسُوزا کی لڑکی کی بھی ہے ، جو ڈیوِڈ صاحب کی میز پر رکھا رہتا ہے۔ لڑکی اصل میں کنٹاپ ہے۔ چھِنال پنا اُس کے چہرے سے ایسا ٹپکتا ہے کہ اَگر سامنے کوئی برتن رکھ دے تو دِن میں دسِیوں بار خالی کرنا پڑے۔کُچھ پڑوس والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اِسی تصویر کو دیکھ دیکھ کر ڈیوِڈ صاحب نے شادی کرنے اور بچّا پیدا کرنے کی صلاحیت سے ہاتھ دھو لِۓ ہیں۔ مِسیز ڈِسُوزا دیسی عِیسائیّوں کی کئی لڑکِیاں اُنکے لِئے کھوج چُکی ہیں۔ مگر سب بیکار۔ وہ تو ڈھائی سو وولٹیج ہی کے کرنٹ سے جل بھُن کر راکھ ہو چُکے تھے اور ایک دِن تنگ آکر مِسیز ڈِسُوزا نے محلّے میں اُن کی نامردی کا اعلان کر دِیا اور اُنکے سامنے کپڑے بدلنے لگیں۔

صبح کا دُوسرا نام ہوتا ہے۔ جلدی جلدی بِنا دُودھ کی چاۓ کے کُچھ کپ۔ رات کے دھوۓ کپڑوں پر اُلٹا سیدھا پریس۔ جُوتے پر پالِش۔ اور دِن بھر پرُوف کریکٹ کرتے رہنے کے لِئے آنکھوں کی مساج۔ پرُوف کے پُلِندے۔ کریکٹ کِۓ ہوۓ اور پریس سے آۓ ہوۓ۔ پھِر کریکٹ کِۓ ہوۓ پھِر آۓ ہوۓ۔ دھم! سالا زور سے گالی دے مارتا ہے ، ‘دیکھ لو بابُو، جلدی دے دو۔ بڑا صاحب کالم دیکھنا مانگتا ہے۔’ پُوری زِندگی گھٹِیا قِسم کے کاغذ پر چھپا پرُوف ہو گئی ہے ، جِسے ہم لگاتار کریکٹ کر رہے ہیں۔

گھر سے باہر نِکل کر جلدی جلدی بس سٹاپ کی طرف دوڑنا، جیسے کِسی کو پکڑنا ہو، ہم دونوں ایک ہی نمبر کی بس پکڑتے ہیں۔ راستیں میں ڈیوِڈ صاحب مُجھ سے روز ایک سی باتیں کرتے ہیں، ‘ہری سبزِیوں سے کیا فایدہ ہے ، کِس سبزی میں کِتنا سٹارچ ہوتا ہے۔ اَنڈے اور مُرغے کھاتے رہو تو اَسّی سال کی عُمر میں بھی لڑکا پیدا کر سکتے ہو۔` بکری اور بھینس کے گوشت کا باریک امتیاز اُنہیں اَچّھی طرح معلُوم ہے۔ اَنگریزی کھانے کے بارے میں اُن کی جانکاری اَتھاہ ہے۔ کیک میں کِتنا میدا ہونا چاہِئے۔ کِتنے اَنڈے ڈالے جائیں۔ میوا اور جیلی کو کیسے مِلایا جاۓ۔ دُودھ کِتنا پھینٹا جاۓ۔ کیک کی سِکائی کے بارے میں اُن کے اَلگ ہی خیالات ہیں۔ کریم لگانے اور کیک کو سجانے کے اُنکے پاس سیکڑوں فارمُولے ہیں جِنہیں اَب ہِندُستان میں کوئی نہیں جانتا۔ کبھی کبھی کہتے ، ‘اے سالے دھوتی باندھنے والے ، کھانا کھانا کیا جانیں! ڈھیر ساری سبزی لے لی، تیل میں ڈالی اور کھا گۓ بس، کھانا پکانا اور کھانا مُسلمان جانتے ہیں یا اَنگریز۔ اَنگریز تو چلے گۓ، سالے مُسلمانوں کے پاس اَب بھینسے کا گوشت کھا کھاکر عقل موٹی کرنے کے سِوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ بھینسے کا گوشت کھاّو، بھینسے کی طرح عقل موٹی ہو جاۓ گی اور پھِر بھینسے کی طرح ہی کولہُو میں پِلے رہو۔ رات گھر آ کر بیوی پر بھینسے کی طرح پِل پڑو۔`

آج پھِر گھُوم پھِر کر وہ اَپنے ٹاپک پر آ گۓ۔

‘ناشتہ تو ہیوی ہونا ہی چاہِئے۔’

میں نے حامی بھری۔ اِس بات سے کوئی اُلُّو کا پٹّھا ہی اِنکار کر سکتا ہے۔

‘ہیوی اور اینرجیٹِک؟’ چلتے چلتے وہ اَچانک رُک گۓ۔ ایک نۓ بنتے ہوۓ مکان کو دیکھ کر بولے ، ‘کِسی بلیک مارکِٹِیر کا معلُوم ہوتا ہے۔ پھِر اُنہوں نے اَکڑ کر جیب سے چشمہ نِکالا، آنکھوں پر فِٹ کر کے مکان کی اور دیکھا۔ فایر ہوا زوردار دھماکے کے ساتھ، اور سارا مکان اَڑ اَڑ دھڑام کر کے گِر گیا۔’

‘بس، ایک گِلاس دُودھ، چار ٹوسٹ اور مکّھن، پورِج اور دو اَنڈے۔’ اُنہوں نے ایک لمبی سانس کھینچی، جیسے غبّارے میں سے ہوا نِکل گیی ہو۔

‘نہیں، میں آپ سے ایگری نہیں کرتا، فرُوٹ جُوس بہُت ضرُوری ہے۔ بِنا۔۔۔۔’

‘فرُوٹ جُوس؟’ وہ بولے ؟ ‘نہیں اَگر دُودھ ہو تو اُسکی ضرُورت نہیں ہے۔’

‘پراٹھے اور اَنڈے کا ناشتا کیسا رہۓ گا؟’

‘ویری گُڈ، لیکِن پرانٹھے ہلکے اور نرم ہوں۔’

‘اور اَگر ناشتے میں کیک ہو؟’ وہ سپاٹ اور پھیکی ہنسی ہنسے۔

کئی سال ہوۓ۔ میرے دِلّی آنے کے آس پاس۔ ڈیوِڈ صاحب نے اَپنی برتھ ڈے پر کیک بنوایا تھا۔ پہلے پُورا بجٹ تیّار کر لِیا گیا تھا۔ سب خرچ جوڑ کر کُل ستّر رُوپۓ ہوتے تھے۔ پہلی تاریخ کو ڈیوِڈ صاحب میدا، شکّر اور میوا لینے کھاری باولی گۓ تھے۔ سارا سامان گھر میں پھِر سے تولا گیا تھا۔ پھِر اَچّھے بیکر کا پتا لگایا گیا تھا۔ ڈیوِڈ صاحب کے کئی دوستوں نے درِیاگنج کے ایک بیکر کی تعریف کی تو وہ اُس سے ایک دِن بات کرنے گۓ بِالکُل اُسی طرح جیسے دو دیشوں کے پردھان منتری گمبھیر سمسیاّوں پر بات چیت کرتے ہیں۔ ڈیوِڈ صاحب نے اُسکے سامنے ایک ایسا سوال رکھ دِیا کِیا وہ لاجواب ہو گیا، ‘اَگر تُم نے سارا سامان کیک میں نہ ڈالا اور کُچھ بچا لِیا تو مُجھے کیسے پتا چلے گا؟` اِس مسئلے کا حل بھی اُنہوں نے خود کھوج لِیا۔ کوئی ایسا آدمی مِلے جو بیکر کے پاس اُس وقت تک بیٹھا رہے ، جب تک کہ کیک بن کر تیّار نہ ہو جاۓ۔ ڈیوِڈ صاحب کو مِسیز ڈِسُوزا نے اِس کام کے لِئے اَپنے آپ کو کئی بار ‘آفر` کِیا۔ مگر اصل میں ڈیوِڈ صاحب کو مِسیز ڈِسُوزا پر بھی اعتبار نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے بیکر اور مِسیز ڈِسُوزا مِل کر ڈیوِڈ صاحب کو چوٹ دے دیں۔ جب پُوری دِلّی میں ‘معتبر` آدمی نہیں مِلا تو ڈیوِڈ صاحب نے ایک دِن کی چھُٹّی لی۔ میں نے اِس کام میں کوئی دلچسپی نہیں دِکھائ تھی، اِسلِئے اُن دِنوں مُجھ سے ناراض تھے اور پیٹھ پیچھے اُنہوں نے مِسیز ڈِسُوزا سے کئی بار کہا کہ جانتا ہی نہیں ‘کیک` کیا ہوتا ہے۔ میں جانتا تھا کہ ‘کیک` بن جانے کے بعد کِسی بھی رات کو کھانے کے بعد مُرغی  خانہ کھولنے والی بات کر کے ڈیوِڈ صاحب کو خوش کِیا جا سکتا ہے یا اُنکے دوست کے بارے میں بات کر کے اُنہیں جوش میں لایا جا سکتا ہے ، جِسکا مِرزاپوُر کے پاس بڑا فارم ہے اور وہ وہاں کیسے رہتا ہے۔

کیک برتھ ڈے سے ایک دِن پہلے آ گیا تھا۔ اَب اُسے رکھنے کا سوال تھا۔ مِسیز ڈِسُوزا کے گھر میں چُوہے ضرُورت سے زیادہ ہیں۔ اِس آڑے وقت میں میں نے اُنکی مدد کی۔ اَپنے ٹین کے بکس میں سے کپڑے نِکال کر تولِۓ میں لپیٹ کر میز پر رکھ دِۓ اور بکس میں کیک رکھ دِیا گیا۔ میرا بکس پُورے ایک مہینے گھِرا رہا۔

ہم سب کو اُس کیک کے بارے میں بات چیت کر لینا بہُت اَچّھا لگتا ہے۔ ڈیوِڈ صاحب تو اُسے اَپنا سب سے بڑا ‘ایچیومینٹ` مانتے ہیں۔ اور میں اَپنے بکس کو خالی کر دینا کوئی چھوٹا سا کارنامہ نہیں سمجھتا۔ اُسکے بعد سے لے کر اَب تک کیک بنوانے کے کئی پروگرام بن چُکے ہیں۔ اَب ڈیوِڈ صاحب کی شرط یہ ہوتی ہے کہ سب ‘شیّر` کریں۔ زیادہ مُوڈ میں آتے ہیں تو آدھا خرچ اُٹھانے پر تیّار ہو جاتے ہیں۔

اُنہیں کے مطابق، بچپن سے اُنہیں دو چیزیں پسند رہی ہیں جولی اور کیک۔ جولی کی شادی کِسی کیپٹن سے ہو گی،  تو وہ دھیرے دھیرے اُسے بھُولتے گۓ۔ پر کیک اَب بھی پسند ہے۔ کیک کے ساتھ کون شادی کر سکتا ہے ؟ لیکِن کھاری باولی کے کئی چکّر لگانے پر اُنہوں نے محسُوس کِیا کہ کیک کی بھی شادی ہو سکتی ہے۔ پھِر بھی پسند کرنا بند نہ کر سکے۔

دفتر سے لوٹ کر آیا تو سارا بدن اِس طرح درد کر رہا تھا، جیسے بُری طرح سے مارا گیا ہو۔ باہری دروازہ کھولنے کے لئے مِسیز ڈِسُوزا آئیں۔ وہ شاید کِچن میں اَپنے کھٹولے پر سو رہی تھیں۔ اَندر آنگن میں اُنکے پوشیدہ لباس سُوکھ رہے تھے۔ ‘ پوشیدہ لباس ` لفظ سوچ کر ہنسی آئی۔ کوئی حصۂ جسم پوشیدہ ہی کہاں رہ گیا ہے ! ڈی۔ٹی۔سی۔ کی بسوں میں چڑھتے اُترتے پوشیدہ اعضاء کے جغرافئے کا اچّھا خاصا علم  ہو گیا ہے۔ اُنکی گرماہٹ، چِکنائی، کھُدرے پن، گندے پن اور لُبھاونے پن کے بارے میں اَچّھی معلومات ہے۔ ‘آج جلدی چلے آۓ۔` مِسیز ڈِسُوزا ‘ پوشیدہ لباس ` اُتارنے لگیں، ‘چاۓ پیوگے ؟` میں نے اَبھی تک نہیں پی ہے۔`

‘ہاں، ضرور۔’ سوچا اَگر سالی نے پی لی ہوتی تو کبھی نہ پُوچھتی۔

کمرے کے اَندر چلا آیا۔ پتّھر کی چھت کے نیچے کھانے کی میز ہے۔ جِسکے ایک پاۓ کی جگہ اِینٹیں لگی ہیں۔ دُوسرے پایوں کو ٹین کی پٹِّیوں سے جکڑ کر کیلیں ٹھونک دی گیی ہیں۔ رسّی، ٹین، لوہا، تار اور اِینٹوں کے سہارے کھڑی میز پہلی نظر میں زمانۂ قدیم کی مشین سی لگتی ہے۔ میز کے اوپر مِسیز ڈِسُوزا کی سِلائی مشین رکھی ہے۔ کھانا کھاتے سمے مشین کو اُٹھا کر میز کے نیچے رکھ دِیا جاتا ہے۔ کھانے کے بعد مشین پھِر میز پر آ جاتی ہے۔ رات میں ڈیوِڈ صاحب اِسی میز پر بیٹھ کر پرُوف دیکھتے ہیں۔ کئی گِلاس پانی پیتے ہیں اور ایک بجتے بجتے اُٹھتے ہیں تو کمرا اَکیلا ہو جاتا ہے۔ میں کمرے میں رکھی سِلائی مشین یا میز کی طرح کمرے کا ایک حِصّہ بن جاتا ہُوں۔

‘اے لو ! ٹی، گرین لیبُل ہے !’ مِسیز ڈِسُوزا نے چاۓ کی پیالی تھما دی۔ وہ کھانوں کے نام اَنگریزی میں لیتی ہے۔ روٹی کو بریڈ کہتی ہے ، دال کو پتا نہیں کیوں اُنہوں نے سُوپ کہنا شُرُوع کر دِیا ہے۔ ترکاری کو ‘بایلڈ ویجِٹیبُلس` کہتی ہیں۔ کریلوں کو ‘ہاٹڈِش` کہتی ہیں۔ مِسیز ڈِسُوزا تھوڑی بہُت گوراشاہی اَنگریزی بھی بول لیتی ہیں، جِس سے محلّے کے لوگ کافی متاثّر ہوتے ہیں۔ میں نے ٹی تاج محل لے لی۔ مِسیز ڈِسُوزا آج کے زمانے کا مقابلہ پہلے زمانے سے کرنے لگیں۔ اُنہیں چالیس سال تک پُرانے دام یاد ہیں۔ اِسکے بعد اَپنے مکان کی چرچا اُنکا پسندیدہ موضوع ہے ، جِس کا سیدھا مطلب ہم لوگوں پر رعب ڈالنا ہوتا ہے۔ ویسے رعب ڈالتے وقت یہ بھُول جایا کرتی ہیں کہ دونوں کمرے کِراۓ پر اُٹھا دینے کے بعد وہ خود کِچن میں سوتی ہیں۔ میں اُنکی بکواس سے تنگ آ کر باتھ رُوم میں چلا گیا۔ اَگر ڈیوِڈ صاحب ہوتے تو مزا آتا۔ مِسیز ڈِسُوزا مُنہ کھولکر اور آنکھیں پھاڑ کر مُرغی پالن کی باریکِیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتیں۔ ‘ یاد نہیں، صِرف دو ہزار رُوپۓ سے کام شُرُوع کرے کوئی۔ چار سو مُرغیوں سے شاندار کام چالُو ہو سکتا ہے۔ چار سو اَنڈے روز کا مطلب ہے کم سے کم سو رُوپۓ روز۔ ایک مہینے میں تین ہزار رُوپۓ اور ایک سال میں چھتّیس ہزار رُوپۓ۔ میں تو آنٹی، لائیف میں کبھی نہ کبھی ضرُور کرُوں گا کاروبار۔ فایدہ۔۔۔؟ میں کہتا ہُوں چار سال میں لکھ پتی۔ پھِر اَنڈے ، مُرغی خانے کا آرام اَلگ۔ روز ایک مُرغی  کاٹِیے سالے کو۔ بیس اَنڈوں کی پُڈِنگ بنائیئے۔ تب یہ مکان آپ چھوڑ دیجِۓ گا، آنٹی۔ یہ بھی کوئی آدمِیوں کے رہنے لایق مکان ہے۔ پھِر تو مہارانی باغ یا بسنت وِہار میں کوٹھی بنوائیے گا۔ ایک گاڑی لے لیجۓ گا۔`

تب تھوڑی دیر کے لِئے وہ دونوں ‘بسنت وِہار` پہُنچ جایا کرتے۔ بڑی سی کوٹھی کے پھاٹک کی داہِنی طرف پیتل کی چمچماتی ہوئی پلیٹ پر ایرِک ڈیوِڈ اور مِسیز جے۔ ڈِسُوزا کے حروف اِس طرح چمکتے جیسے چھوٹا موٹا سُورج۔

میں لوٹ کر آیا تو ڈیوِڈ صاحب آ چُکے تھے۔ کپڑے بدل کر آنگن میں بیٹھے وہ باسُ کو تھوک میں گالِیاں دے رہے تھے ، ‘یہ سالا باسُ اِس لایق ہے کہ اِس کا ‘پبلِک ٹرایل` کِیا جاۓ۔’ اُن کی آنکھوں میں نفرت اور اُکتاہٹ تھی۔ چشمہ تھوڑا نیچے کھسک گیا تھا۔ اُنہوں نے اَپنی گردن اَکڑاکر چشمہ چیہرے پر فِٹ کِیا۔ میں نے تِلک برِج کے سامنے ایک پیڑ کی بڑی سی ڈال پر رسّے کے سہارے باسُ کی لاش کو جھُولتے ہوۓ دیخا۔ لہریں مارتی بھیڑ-اَتھاہ بھیڑ۔ اور کُچھ ہی کشن بعد ڈیوِڈ صاحب کو ایک ننہیں سے مُرغی خانے میں بند پایا۔ چاروں اور جالِیاں لگی ہوئی ہیں۔ اور اُسکے اَندر دو سو مُرغی وں کے ساتھ ڈیوِڈ صاحب دانا چُگ رہے ہیں۔ گردن ڈالکر پانی پی رہے ہیں اور اَنڈے دے رہے ہیں۔ اَنڈوں کے ایک ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔ مُرغی خانے کی جالِیوں سے باہر ‘بسنت وِہار` صاف دِکھائی پڑ رہا ہے۔

میں نے کہا، ‘آپ کیوں پریشان ہیں ڈیوِڈ صاحب؟ چھوڑِئے سالی نوکری کو۔ ایک مُرغی خانہ کھول لیجِئے۔ پھِر بسنت وِہار میں مکان۔’

‘نہیں-نہیں، میں بسنت وِہار میں مکان نہیں بنوا سکتا۔ وہاں تو باسُ کا مکان بن رہا ہے۔ بھائی صاحب، یہ تو دعویٰ ہے کہ اِس دیش میں بغیر چار سو بیسی کِۓ کوئی آدمی کی طرح نہیں رہ سکتا۔ آدمِیوں کی طرح رہنے کے لِئے آپکو بلیک مارکیٹِنگ کرنی پڑے گی لوگوں کو ایکسپلایٹ کرنا پڑۓ گا۔۔۔اَب آپ سوچِئے ، میں کِسی سالے سے کم کام کرتا ہُوں۔ روز آٹھ گھنٹے ڈیُوٹی اور دو گھنٹے بس کے اِنتظار میں۔۔۔۔’

‘تُم بہُت گالی بکتے ہو،’ مِسیز ڈِسُوزا بولیں۔

‘پھِر کیا کرُوں آنٹی؟ گالی نہ بکُوں تو کیا اِیشُو سے پرارتھنا کرُوں، جِسنے کم سے کم میرے ساتھ بڑا ‘جوک` کِیا ہے ؟’

‘چھوڑِئے یار ڈیوِڈ صاحب۔ کُچھ اور بات کیجِئے۔ کہیں پرُوف کا کام زیادہ تو نہیں مِلا۔’

‘ٹھیک ہے ، چھوڑِئے۔ دِلّی میں اَبھی تین سال ہوۓ ہیں نا! کُچھ جوانی بھی ہے۔ اَبھی شاید آپنے دِلّی کی چمک دمک بھی نہیں دیکھی؟ کیا ہمارا کُچھ بھی حصّہ نہیں ہے اُسمیں؟ کناٹ پلیس میں بہتے ہوۓ پیسے کو دیکھا ہے کبھی؟’ وہ ہاتھ چلا چلا کر پیسے کے بہاؤ کے بارے میں بتانے لگے ، ‘لاکھوں کروڑوں رُوپۓ لوگ اُڑا رہے ہیں۔ عورتوں کے جِسموں پر سے بہتا پیسہ۔ کاروں کی شکل میں تیرتا ہوا۔’ وہ جوش میں آ گۓ، اور اُنہوں نے جیب سے چشمہ نِکالا، گردن اَکڑائ اور چشمہ آنکھوں پر فِٹ کر لِیا۔

مُجھے اُکتاہٹ ہونے لگی۔ طبیعت گھبرانے لگی، جیسے اومس ایک دم بیٹھ گیی ہو۔ سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی۔ لوہے کا سلاخوں دار کمرا مُرغی خانہ لگنے لگا جِسمیں سخت بدبُو بھر گئی ہو۔ مِسیز ڈِسُوزا کئی بار پیشگوئی کر چُکی ہیں کہ ڈیوِڈ صاحب ایک دِن ہم لوگوں کو اریسٹ کروائیں گے اور ڈیوِڈ صاحب کہتے ہیں کہ میں اُس دِن کا ‘ویلکم` کرُوں گا۔

غصّے میں لگاتار ہونٹ دباۓ رہنے کے سب اُن کا نِچلا ہونٹ کافی موٹا ہو گیا ہے۔ چہرے پر تین لکیریں پڑ جاتی ہیں۔ بچپن میں سُنا کرتے تھے کہ ماتھے پر تین لکیریں پڑنے والا راجا ہوتا ہے۔

کُچھ ہی دیر میں وہ کافی شانت ہو چُکے تھے۔ کھانے کی میز پر اُنہوں نے ‘باسُ کی جے ` نعرہ لگایا اور دو گِلاس پانی پی گۓ۔ مِسیز ڈِسُوزا کی ‘ہاٹڈِش`، ‘سُوپ` اور ‘بریڈ` تیّار تھی۔

‘کریلے کی سبزی پکانا بھی آرٹ ہے ، صاب!’ ڈیوِڈ صاحب نے زور زور سے مُونہہ چلایا۔

‘تین ڈِش کے برابر ایک ڈِش ہے۔’ مِسیز ڈِسُوزا نے احسان لادا۔

ڈیوِڈ اُنکی بات اَن سُنی کرتے ہوۓ بولے ، ‘کریلے کھانے کا مزا تو سیتاپوُر میں آتا تھا آنٹی۔ کوٹھی کے پیچھے کِچن گارڈن میں ڈیڈی طرح طرح کی سبزی بواتے تھے۔ ڈھیر ساری پیاز کے ساتھ اِن کریلوں میں اَگر قیمہ بھرکر پکایا جاۓ تو کیا کہنا!’

ہم لوگ سمجھ گۓ کہ اَب ڈیوِڈ صاحب بچپن کے قِصّے سُنائیں گے۔ اِن قصّوں کے بیچ نصیبن گورنیس کا ذِکر بھی آۓ گا جو صرف ایک روُپیہ مہینہ تنخواہ پاکر بھی کِتنی خوش رہا کرتی تھی۔ اور جِسکا خاص کام ڈیوِڈ بابا کی دیکھ بھال تھا۔ وہ ان  کو دیپک بابا ہی کہتی رہی۔ اِسی سِلسِلے میں اُس پِکنِک پارٹی کا ذِکر آۓ گا جِس میں ڈیوِڈ بابا نے جمُنا کے سلوپ پر گاڑی چڑھا دی تھی۔ تجُربے کار ڈرائیور اِسمٰعیل خاں کو پسینا چھُوٹ آیا تھا۔ خاں کو ڈانٹ کر گاڑی سے اُتار دِیا تھا۔ سب لڑکے اور لڑکِیاں اُتر گۓ۔ اَنگریز لڑکے کی ہِمّت چھُوٹ گیی تھی۔ مگر جالی نے اُترنے سے اِنکار کر دِیا تھا۔ ڈیوِڈ بابا نے گاڑی سٹارٹ کی۔ دو مِنٹ سوچا۔ گِیر بدل کر ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈالا اور گاڑی ایک فرّاٹے کے ساتھ اوپر چڑھ گی۔ اِسمٰعیل خاں نے اوپر آ کر ڈیوِڈ بابا کے ہاتھ چُوم لِۓ تھے۔ وہ بڑے بڑے اَنگریز اَفسروں کو گاڑی چلاتے دیکھ چُکا تھا مگر ڈیوِڈ بابا نے کمال ہی کر دِیا تھا۔ جالی نے ڈیوِڈ بابا کو اُسی دِن ‘کِس` دینے کا پرامِس کِیا تھا۔

اِن باتوں کو سُناتے وقت ڈیوِڈ صاحب کی بِٹرنیس غائب ہو جاتی ہے۔ وہ ڈیوِڈ صاحب نہیں، دیپک بابا لگتے ہیں۔ ہلکی-سی دھُول اُڑتی ہے اور سیتاپور کی سِوِل لائینس پر بنی بڑی سی کوٹھی کے پھاٹک میں 1930 کی فورڈ مُڑ جاتی ہے۔ پھاٹک کے ایک کھمبے پر صاف حروف میں لِکھا ہوا ہے پیٹر جے۔ ڈیوِڈ، ڈِپٹی کلیکٹر۔ کوٹھی کی چھت کھپریلوں کی بنی ہوئی ہے۔ کوٹھی کے چاروں اور کئی بیگھے کا کمپاؤنڈ۔ پیچھے آم اور سنترے کا باغ۔ داہِنی طرف ٹینِس کورٹ کی بائیں طرف بڑا-سا کِچن گارڈن، کوٹھی کے اُونچے برامدے میں باوردی چپراسی اُونگھتا ہوا دِکھائی پڑے گا۔ اَندر ہال میں وِکٹورِین فرنیچر اور چھت پر لٹکتا ہوا فانوس۔ مِسٹر پیٹر جے۔ڈیوِڈ ڈِپٹی کلیکٹر اَپنے وِلایتی جُوتوں کی ٹھوکروں سے اُسکے کالے بدن پر نیلے رنگ کے پھل اُگا دیتے ہیں۔ بابا لوگ ٹائی باندھ کر کھانے کی میز پر بیٹھ کر چِکن سُوپ پیتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد آئیس کریم کھاتے ہیں اور ممّی ڈیڈی کو گُڈنائیٹ کہہ کر اَپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ ساڑھے نو بجے کے آس-پاس 1930 کی فورڈ گاڑی پھِر سٹارٹ ہوتی ہے۔ اَب وہ یا تو کلب چلی جاتی ہے یا کِسی دیشی رئیس کی کوٹھی کے اَندر گھُس کر آدھی رات کو ڈگمگاتی ہوئی لوٹتی ہے۔

مِسیز ڈِسُوزا کے مکان کی چھت کے اوپر سے دِلّی کی روشنِیاں دِکھائی پڑتی ہیں۔ سیکڑوں جنگلی جانوروں کی آنکھیں رات میں چمک اُٹھتی ہے۔ پانی پینے کے لِئے نیچے آتا ہُوں تو ڈیوِڈ صاحب پرُوف پڑھ رہے ہیں۔ مُجھے دیکھ کر مُسکراتے ہیں، قلم بند کر دیتے ہیں اور بیٹھنے کے لِئے کہتے ہیں۔ آنکھوں میں نیند بھری ہوئی ہے۔ وہ مُجھے دھیرے -دھیرے سمجھاتے ہیں۔ اُنکے اِس سمجھانے سے میں تنگ آ گیا ہُوں۔ شُرُوع شُرُوع میں تو میں اُن کو اُلُّو کا پٹّھا سمجھتا تھا، مگر بعد میں پتہ نہیں کیوں اُن کی باتیں میرے اوپر اَثر کرنے لگیں۔ ‘بھاگ جاؤ اِس شہر سے۔ جِتنی جلدی ہو سکے ، بھاگ جاؤ۔ میں بھی تُمہاری طرح کالج سے نِکل کر سیدھے اِس شہر میں آ گیا تھا راجدھانی جیتنے۔ لیکِن دیکھ رہے ہو، کُچھ نہیں ہے اِس شہر میں، کُچھ نہیں۔ میری بات چھوڑ دو۔ میں کہاں چلا جاؤں! یہ شہر میرے اَندر گھُس چُکا ہے۔’

 ‘لیکِن کب تک کُچھ نہیں ہو گا، ڈیوِڈ صاحب؟’

‘اُس وقت تک، جب تک تُمہارے پاس دینے کے لِئے کُچھ نہیں ہے۔ اور میں جانتا ہُوں، تُمہارے پاس وہ سب کُچھ نہیں ہے جو لوگوں کو دِیا جا سکتا ہے۔’

میں لوٹ کر اوپر آ جاتا ہُوں۔ میرے پاس کیا ہے دینے کے لِئے ؟ اُونچی کُرسِیاں، کاک ٹیل پارٹِیاں، لمبے -چوڑے لان، اَنگریزی میں سلام، سُوٹ اور ٹائیاں، لڑکِیاں، موٹریں، شاپِنگ! تب یہ لوگ، جو تنگ گلِیاروں میں مُجھ سے وعدے کرتے ہیں، مُسکُراتے ہیں، کون ہیں؟ اِسکے بارے میں پھِر سوچنا پڑے گا۔ اور کافی دیر تک پھِر میں سوچنے کی ہمّت جُٹاتا ہُوں۔ مگر وہ پیچھے ہٹتا جاتا ہے۔ میں اُسکی باہیں پکڑکر آگے گھسیٹتا ہُوں۔ ایک بِگڑے ہوۓ خچّر کی طرح وہ اَپنی رسّی تُڑا کر بھاگ نِکلتا ہے۔

میں پھِر پانی کے لِئے نیچے اُترتا ہُوں۔ اَپنی میز پر سر رکھے وہ سو رہے ہیں۔ پرُوف کا پُلِندا سامنے پڑا ہے۔ میں اُس کا کندھا پکڑکر لگا دیتا ہُوں۔ ‘اَب سو جائیے۔ کل آپ کو سائیٹ دیکھنے جانا ہے۔` اُنکے چہرے پر مُسکراہٹ آتی ہے۔ کل وہ مُرغی خانہ کھولنے کی سائیٹ دیکھنے جا رہے ہیں۔ اِسّے پہلے بھی ہم لوگ کئی سائیٹ دیکھ چُکے ہیں۔ ڈیوِڈ صاحب اُٹھ کر پانی پیتے ہیں۔ پھِر اَپنے پلنگ پر اِس طرح گِر پڑتے ہیں جیسے راجدھانی کے پیروں پر پڑ گۓ ہوں۔ میں پھِر اوپر آ کر لیٹ جاتا ہُوں۔ ‘میں نے کالج میں اِتنا پڑھا ہی کیوں؟ اِتنا اور اُتنا کی بات نہیں ہے ، مُجھے کالیج میں پڑھنا ہی نہیں چاہِئے تھا اور اَب دو سال تک ڈھائی سو رُوپۓ کی نوکری کرتے ہوۓ کیا کِیا جا سکتا ہے ؟ کیوں مُسکرایا اور کیوں شانت رہا؟ دو سال سے دوپہر کا کھانا گول کرتے رہنے کے پیچھے کیا تھا؟` نیچے سے بھینس کے گوبر کرنے کی آواز آتی ہے۔ ایک مانوس بو پھیل جاتی ہے۔ اُس نیم مانوس قصبے کی بو، جِسے میں اَپنا گھر سمجھتا ہُوں، جہاں مُجھے بہُت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔ اُس چھوٹے سے سٹیشن پر اگرِ میں اُترُوں تو گاڑی چلی جانے کے بعد کئی لوگ مُجھے گھُور کر دیکھیں گے۔ اور اِکّا دُکّا اِکّے والے بھی مُجھ سے بات کرتے ڈریں گے۔ اُنکا ڈر دُور کرنے کے لِئے مُجھے اَپنا تعارف دینا پڑۓ گا۔ یعنی اَپنے باپ کا تعارف کرانا پڑۓ گا۔ تب اُن کے چہرے پر مُسکراہٹ آئے گی اور وہ مُجھے اِکّے پر بیٹھنے کے لِئے کہیں گے۔ دس مِنٹ اِکّا چلتا رہے گا تو ساری بستی ختم ہو جائے گی۔ اُس پار کھیت ہیں جِن کا سیدھا مطلب ہے اُس پر غریبی ہے۔ وہ غریبی کے عادی ہیں۔ پُولِس اُن کے لِئے سب سے بڑی قوّت ہے اور اَپنی ہر ہوشِیاری میں وہ کافی مُورکھ ہیں۔۔۔اوپر آسمان میں پالم کی اور جانے والے ہوائی جہاز کی مسلسل آواز سُنائی پڑتی ہے۔ نیچے سڑک پار بالُو والے ٹرک گُزر رہے ہیں۔ لدی ہوئی بالُو کے اوپر مزدُور سو رہے ہیں، جو کبھی کبھی کِسان بن جانے کا سپنا دیکھ لیتے ہیں، اَپنے گاؤں کی بات کرتے ہیں، اَپنے کھیتوں کی بات کرتے ہیں، جو کبھی اُن کے تھے۔ ٹرک تیزی سے چلتا ہوا اوکھلا موڑ سے متھُرا روڈ پر مُڑ جاۓ گا۔ فرینڈس کالونی اور آشرم ہوتا ہوا ‘راج دُوت` ہوٹل کے سامنے سے گُزرے گا جہاں رات بھر کیبرے اور ریستراں کے اشتہارات نِیون لائٹ میں جلتے بُجھتے رہتے ہیں۔ اُسی کے سامنے فٹ پاتھ پر بہُت سے دُبلے -پتلے ، کالے اور سُوکھے آدمی سوتے ہوۓ مِلیں گے ، جِن کی نیند ٹرک کی کرخت آواز سے بھی نہیں کھُلتی۔ اوپر تیز بلب کی روشنی میں اُن کے عضو عضو بِکھرے دِکھائی پڑتے ہیں۔ میں اَکثر حیران رہتا ہُوں کہ وہ اِس چوڑے فٹ پاتھ پر چھت کیوں نہیں ڈال لیتے۔ اُسکے چاروں اور، کچّی ہی سہی، دیوار تو اُٹھائی جا سکتی ہے۔ اِن سب باتوں پر سرسری نِگاہ ڈالی جاۓ، جیسی کہ ہماری عادت ہے ، تو اِن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بیوقُوفی اور جذباتیت سے بھری باتیں۔ مگر یدِ کوئی اوپر سے کیڑے کی طرح فٹ پاتھ پر ٹپک پڑے تو اُس کی سمجھ میں سب کُچھ آ جاۓ گا۔

دِن اِس طرح گُزرتے ہیں جیسے کوئی لنگڑا آدمی چلتا ہے۔ اَب اِس مہانگری میں اَپنے بہُت عام اور لاچار ہونے کا احساس وہ سب کُچھ کروا لیتا ہے۔ اور ہتک، جو اِس مہانگر میں لوگ تفریحاً کر دیتے ہیں، اَب اُتنے بُرے نہیں لگتے ، جِتنے پہلے لگتے تھے۔ آفس میں افسر کی میز پر تِواری کا سُوَر کی طرح گندا مُونہہ، جو ایک ہی وقت میں پکّا سوشلسٹ بھی ہے اور پرو اَمریکن بھی۔ اُسکی تنگ بُشرٹ میں سے جھانکتا ہوا حرام کی کمائی کا پلا تندُرُست جِسم اور اُس کا سوشلسٹ قلم جو ہر دُوسری سطر محض اِس لِئے کاٹ دیتا ہے کہ وہ دُوسرے کی لِکھی ہوئی ہے۔ اُسکا رعب داب، گمبھیر ہنسی، سازش بھری مُسکراہٹ اور اُس کی میز کے سامنے اُس کی  سلطنت میں بیٹھے ہوۓ چار جاندار، جو قلم گھِسنے کے عَلاوہ اور کُچھ نہیں جانتے۔ اُن لوگوں کے چیہرے کے ٹائپ رائیٹروں کی کھڑکھڑاہٹ۔ اِن سب چیزوں کو مُٹّھی میں دباکر ‘کرش` کر دینے کو جی چاہتا ہے۔ بھُوک بھی کمبخت لگتی ہے تو اِس جیسے پورے شہر کا کھانا کھاکر ہی ختم ہو گی۔ شُروع میں پیٹ گڑگڑاتا ہے۔ یدِ ڈیوِڈ صاحب ہوتے تو بات یہیں پہ جھٹک لیتے ، ‘جی، نہیں، بھُوک جب زور سے لگتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے بِلِّیاں لڑ رہی ہوں۔ پھِر پیٹ میں ہلکا-سا درد شُروع ہوتا ہے جو شُروع میں میٹھا لگتا ہے۔ پھِر درد تیز ہو جاتا ہے۔ اُس سمے یدِ آپ تین چار گِلاس پانی پی لیں تو پیٹ کُچھ دیر کے لِئے شانت ہو جاۓ گا اور آپ دو-ایک گھنٹا کوئی بھی کام کر سکتے ہیں۔ اِتنا سب کُچھ کہنے کے بعد وہ یقیناً صلاح دیں گے کہ اِس مہانگری میں بھُوکوں مرنے سے اَچّھا ہے کہ میں لوٹ جاؤں۔ لیکِن یہاں سے نِکل کر وہاں جانے کا مطلب ہے ایک غریبی اور بھُک مری سے نِکل کر دُوسری بھُک مری میں پھنس جانا۔ اِسی طرح کی بہُت ساری باتیں ایک ساتھ دِماغ میں کبڈّی کھیلتی رہتی ہیں۔ تنگ آ کر ایسے موقعے پر ڈیوِڈ صاحب سے پُوچھتا ہُوں، ‘گریٹر کیلاش کی مارکیٹ چل رہے ہیں؟’ وہ مُسکراتے ہیں اور کہتے ہیں، ‘اَچّھا، تیّار ہو جاؤں۔’ میں جانتا ہُوں اُن کے تیّار ہونے میں کافی وقت لگے گا۔ اِس لِئے میں بڑے پیار سے جُوتے پالِش کرتا ہُوں۔ ایک میلا کپڑا لیکر جُوتے کی گھِسائی کرتا ہُوں۔ جُوتے میں اَپنی شکل دیکھ سکتا ہُوں۔ ٹِپ ٹاپ ہو کر ڈیوِڈ صاحب سے پُوچھتا ہُوں، ‘تیّار ہیں؟’

بس سٹاپ کی طرف جاتے ہوۓ ایک دُوسرے کے جُوتے دیکھ کر ہم دونوں کی ہمّت بڑھتی ہے۔ ایک عجیب طرح کا حوصلہ آ جاتا ہے۔

گریٹر کیلاش کی مارکِٹ کی ہر دُوکان کا نام ہمیں زبانی یاد ہے۔ بس سے اُترکر ہم پیشاب خانے میں جاکر اَپنے بال ٹھیک کرتے ہیں۔ وہ میری اور دیکھتے ہیں۔ میں فرنیچر کی اور دیکھتا ہُوں۔ دو جوڑا چمچماتے جُوتے برامدے میں گھُومتے ہیں۔ میں فرنیچر کی دُوکان کے سامنے رُک جاتا ہُوں۔ تھوڑی دیر تک دیکھتا رہتا ہُوں۔ ڈیوِڈ صاحب اَندر چلنے کے لِئے کہتے ہیں اور میں سارا حوصلہ بٹور کر اَندر گھُس جاتا ہُوں۔ یہاں کے لوگ بڑے مہذّب ہیں۔ ایک جملے میں دو بار ‘سر` بولتے ہیں۔ چمکدار جُوتے دُوکان کے اَندر ٹہلتے ہیں۔ ڈیوِڈ صاحب یہاں کمال کی اَنگریزی بولتے ہیں کندھے اُچکا کر اور آنکھیں نِکال کر۔ چیزوں کو اِس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ کافی گھٹِیا ہوں۔ میں ایسے موقعوں پر اُن سے متاثّر ہو کر اُنہیں کی طرح بِہیو کرنے کی کوشِش کرتا ہُوں۔

کنفیکشنری کی دُوکان کے سامنے وہ بہُت دیر تک رُکتے ہیں۔ شووِنڈو میں سب کُچھ سجا ہوا ہے۔ پہلی بار میں بھرم ہو سکتا ہے کہ سارا سامان دِکھاوٹی ہے ، مِٹّی کا، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

‘جلدی چلِئے۔ سالا دیکھ کر مُسکرا رہا ہے۔’

‘کون؟’ ڈیوِڈ صاحب پُوچھتے ہیں، میں آنکھ سے دُوکان کے اَندر اِشارہ کرتا ہُوں اور وہ اَچانک دُوکان کے اَندر گھُس جاتے ہیں۔ میں ہِچکِچاہٹ سے برامدے میں آگے بڑھ جاتا ہُوں۔ ‘پکڑے گۓ بیٹا! بڑے لاٹ صاحب کی اولاد بنے پھِرتے ہیں۔ اُنکی جیب میں دس پیسے کا بس کا ٹِکٹ اور کُل ساٹھ پیسے نِکلتے ہیں۔‘ سارے لوگ ہنس رہے ہیں۔ ڈیوِڈ صاحب نے چمچماتا جُوتا اُتارکر ہاتھ میں پکڑا اور دُوکان میں بھاگے۔` میں ہمّت کر کے دُوکان کے اَندر جاتا ہُوں۔ ڈیوِڈ صاحب دُوکاندار سے بہُت فرّاٹے دار اَنگریزی بول رہے ہیں اور وہ بیچارا گھبرا رہا ہے۔ میں خوش ہوتا ہُوں۔ ‘لے سالے ، کر دِیا نہ ڈیوِڈ صاحب نے ڈنڈا! بڑا مُسکرا رہے تھے۔` ڈیوِڈ صاحب اَنگریزی میں اُسّے ایسا کیک مانگ رہے ہیں جِسکا نام اُسکے باپ، دادا، پردادا نے بھی کبھی نہ سُنا ہو گا۔

باہر نِکل کر ڈیوِڈ صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دِیا۔

روز کی طرح کھانے کی میز پر یہاں سے وہاں تک وِلایتی کھانے سجے ہوۓ ہیں۔ مِسیز ڈِسُوزا کا مُوڑ کُچھ آف ہے۔ سب صرف اِتنا ہے کہ میں اِس مہینے کی پہلی تاریخ کو پیسہ نہیں دے پایا ہُوں۔ ایک آدھ دِن مونہہ پھولا رہے گا۔ پھِر وہ مہنگائی کے قصّے سُنانے لگیں گی۔ چیزوں کی بڑھتی قیمتیں سُنتے ہم لوگ تنگ ہو جائیں گے۔

بات کرنے کے لِئے کُچھ ضروری تھا اور چُپ ٹُوٹتی نہیں لگ رہی تھی، تو مِسیز ڈِسُوزا نے پُوچھا، ‘آج تُم ڈِفینس کالونی جانے والے تھے ؟’

‘نہیں جا سکتا،’ ڈیوِڈ صاحب نے مُونہہ اُٹھا کر کہا۔

‘اَب تُمہارا سامان کیسے آۓ گا؟’ مِسیز ڈِسُوزا بڑبڑائیں، ‘بیچاری کیتھی نے کِتنی مُحبّت سے بھیجا ہے۔’

‘محبّت سے بھِجوایا ہے آنٹی؟’ ڈیوِڈ صاحب چونکے ، ‘آنٹی، اُسکا ہسبینڈ دو ہزار رُوپۓ کماتا ہے۔ کیتھی ایک دِن بازار گئ ہو گی۔ سوا سو رُوپۓ کی ایک گھڑی اور دو قمیضیں خرید لی ہوں گی۔ اور ڈینُو کے ہاتھ دِلّی بھِجوا دیں۔ اِسمیں مُحبّت کہاں سے آ گیّ؟’

‘مگر تُم اُنہیں جاکر لے تو جاؤ۔’

‘ڈینُو اُس سامان کو یہاں لا سکتا ہے۔’

ڈینُو کا ڈِفینس کالونی میں اَپنا مکان ہے۔ کار ہے۔ ڈیوِڈ صاحب کا بچپن کا دوست ہے۔ وہ اُس شِکار پارٹی میں بھی تھا، جِسمیں ہاتھی پر بیٹھ کر ڈیوِڈ صاحب نے پلائینگ شاٹ میں چار ہتھنیاں گِرا دی تھیں۔

‘ڈِفینس کالونی سے یہاں آنا دُور پڑۓ گا۔ اور وہ بِزی آدمی ہے۔’

‘میں بِزی پرُوف ریڈر نہیں ہُوں؟’ وہ ہنسے ، ‘اور وہ تو اَپنے کام سے آ سکتا ہے ، جبکہ مُجھے دو بسیں بدلنی پڑیں گی۔’ وہ دال چاول اِس طرح کھا رہے تھے ، جیسے ‘کیک` کی یاد میں اسے کیک سمجھ رہے ہوں۔

‘جیسی تُمہاری مرضی۔’

کھانا ختم ہونے پر کُچھ دیر کے لِئے محفل جم گئ۔ مِسیز ڈِسُوزا پتہ نہیں کہاں سے اُس بڑے زمین دار کا ذِکر لے بیٹھیں جو جوانی کے دِنوں میں اُن پر دِل و جان سے عاشِق تھا، اور اُن کے ریٹائر ہونے کے بعد بھی ایک دِن پتہ لگاتا ہوا دِلّی کے اُن کے گھر آیا تھا۔ وہ پہلا دِن تھا جب اِس مکان کے سامنے سیکینڈ-ہینڈ ایمبیسڈر کھڑی ہوئی تھی اور ڈیوِڈ صاحب کو کِچن میں سونا پڑا تھا۔ اُس زمین دار کا ذِکر ڈیوِڈ صاحب کو بڑا بھاتا ہے۔ میں تو فوراً اُس زمیندار کی جگہ اَپنے آپ کو ‘فِٹ` کر کے صورتِ حال کا پُورا مزا اُٹھانے لگتا ہُوں۔

کُچھ دیر بعد اِدھر اُدھر گھُوم گھام کر بات پھِر کھانوں پر آ گیّ۔ ڈیوِڈ صاحب سینوئیاں پکانے کی ترکیب بتانے لگے۔ پھِر سب نے اَپنے اَپنے پسندیدہ کھانوں کے بارے میں بات کی۔ سب سے زیادہ ڈیوِڈ صاحب بولے۔

کھانے کی بات ختم ہوئی تو میں نے دھیرے سے کہا، ‘یار ڈیوِڈ صاحب، اِس گاؤں میں کوئی لڑکی ایسی نظر پڑ جاتی ہے کہ پاؤں کانپنے لگتے ہیں۔’

‘کیسی تھی، مُجھے بتاؤ؟ چھِدُّو کی بہُو ہو گی یا۔۔۔۔’

‘بس ڈیوِڈ، تُم لڑکِیوں کی بات نہ کِیا کرو۔ میں نے کِتنی خوبصُورت لڑکی سے تُمہارا ‘اِنگیج مینٹ` طے کِیا تھا۔’

‘کیا خوب صورتی کی بات کرتی ہیں آنٹی! اَگر جالی کو آپ نے دیکھا ہوتا۔۔۔۔’

‘جالی؟ خیر، اُسکو تو میں نے نہیں دیکھا۔ تُم نے اَگر میری لڑکی کو دیکھا ہوتا۔’ اُنکی آنکھیں ڈبڈبا آئیں، ‘مگر وہ ہج۔۔۔’ کُچھ دیر بعد بولیں، ‘اَگر اَب وہ ہوتی تو یہ دِن نہ دیکھنا پڑتا۔ میں اُسکی شادی کِسی مِلِٹری اَفسر سے کر دیتی۔ اُس سے تو کوئی بھی شادی کر سکتا تھا۔’

کُچھ ٹھہر کر ڈیوِڈ صاحب سے بولی، ‘تُم شادی کیوں نہیں کر لیتے ڈیوِڈ؟’

‘میں شادی کیسے کر لُوں آنٹی؟ دو سو پچہتّر رُوپۓ اِکّیس پیسے سے ایک پیٹ نہیں بھرتا۔ ایک اور لڑکی کی جان لینے سے کیا فائدہ۔ میری زندگی تو گُزر ہی جائے گی۔ مگر میں یہ نہیں چاہتا کہ اَپنے پیچھے ایک غریب عورت اور دو تین پرُوف ریڈر چھوڑ کر مر جاؤں جو دِن رات مشینوں کی کان پھاڑ دینے والی آواز میں بیٹھ کر آنکھیں پھوڑا کریں۔’ وہ کُچھ رُکے ، ‘یہی بات میں اِن سے کہتا ہُوں۔’ اُنہوں نے میری طرف اشارہ کِیا، ‘اِس آدمی کے پاس گاؤں میں تھوڑی-سی زمین ہے جہاں گیہُوں اور دھان کی فصل ہوتی ہے۔ اِسکو چاہِئے کہ اَپنے کھیت کے پاس ایک کچّا گھر بنا لے۔ اُسکے سامنے ایک چھپّر ڈال لے ، بس، اُس پر لوکی کی بیل چڑھانی پڑے گی۔ دیہات میں آرام سے ایک بھینس پالی جا سکتی ہے۔ کُچھ دِنوں بعد مُرغی  خانہ کھول سکتے ہیں۔ کھانے اور رہنے کی فکر نہیں رہ جائے گی۔ ٹھاٹھ سے کام کرے اور کھائیں۔’

‘اُسکے بعد آپ وہاں آئیے گا تو ‘کیک` بنایا جاۓ گا۔ بہُت سے اَنڈے مِلا کر’

میں نے مذاق کِیا۔

دیپک بابا ہنسنے لگے۔ بِالکُل بچّوں کی-سی معصُوم ہنسی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے