غزلیں ۔ ۔ ۔ جلیل حیدر لاشاری

یہ کیسا شورِ بے ہنگم مچایا جا رہا ہے

درختوں سے پرندوں کو اُڑایا جا رہا ہے

حقیقت میں وہی منظر پرا نا ہے جسے اب

نیا کر کے فسانے میں دکھایا جا رہا ہے

 

تیری محفل میں جب سب فیصلے ہو ہی چکے ہیں

نجانے کیوں مجھے اب پھر بلایا جا رہا ہے ؟

 

ہوا تھا سر قلم جس کی بدولت پیش ر و کا

وہی اب کام مجھ سے بھی کرایا جا رہا ہے

 

لگا کر ٹانگیں مصنوعی پھر ان پستہ قدوں کو

مر ا   قد کس سلیقے سے گھٹایا جا رہا ہے

 

کھلونے ٹافیاں اور تتلیاں ہر سُو بچھا کر

مرے اندر کے بچے کو جگایا جا رہا ہے

 

زمانے کو جسے چھوڑے زمانے ہو گئے ہیں

سبق ہم کو وہی ازبر کرایا جا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

زمانے تجھ سے اب اتنا خفا نہیں ہوں مَیں

کہ پہلے جیسا وہ سرکش رہا نہیں ہوں مَیں

 

اگرچہ تیز بہت تیز جا رہا ہوں مَیں

کہاں ہے جانا مجھے جانتا نہیں ہوں مَیں

 

وہ مانتا ہے مہک ہے مری چہار طرف

مگر بضد ہے کہیں بھی کھِلا نہیں ہوں مَیں

 

نجانے کب یہ اُجالا، اندھیرا بن جائے

اسی لیے تو کبھی بھی بجھا نہیں ہوں مَیں

 

مَیں کیسے رکھوں زمانے سے راہ و رسم جلیلؔ

کہ اپنے آپ سے اب تک ملا نہیں ہو ں مَیں

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے