عثمان غازی

___________________________
آخری الفاظ
___________________________

اور یہ اس کے آخری الفاظ تھے
’’میں جو کہوں گاسچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا‘‘

___________________________
وہ مرنا نہیں چاہتا تھا
___________________________

جو بہت اچھے ہوتے ہیں ، وہ جلدی مر جاتے ہیں ، وہ جانتا تھا، اسی لیے تو وہ برا تھا۔
لوگ اچھا بننا چاہتے ہیں ، وہ برا بننا چاہتا تھا کیونکہ وہ زندہ رہنے کا خواہش مند تھا۔
اسی کشمکش میں اس کی ملاقات موت کے فرشتے سے ہو گئی۔
خوفناک ملک الموت
ہیبت ناک ملک الموت
کہنے لگا کہ تیری روح قبض کروں گا
اس کوتو تاؤ آ گیا
وہ تو برا تھا، اس کی اتنی جلدی روح کیسے قبض ہو سکتی تھی، وہ موت کے فرشتے سے الجھ پڑا۔
موت کا فرشتہ فاؤل کر رہا، یہ اصول کے خلاف تھا، جلدی صرف اچھے لوگ مرتے ہیں۔
طویل مباحثہ ہوا، خوب دلیل بازی ہوئی
سن مورے ، تیری جیب میں چھٹانک بھر بادام کی پڑیا ہے نا!
موت کے فرشتے کی اس بات پروہ اچھلا، تم روح قبض کرنے آئے ہو یا بادام کھانے ، یہ بادام میری ماں کے ہیں ،یہ تمہیں نہیں مل سکتے۔
موت کے فرشتے نے یہ کہتے ہوئے اس کی روح کو بالوں سے پکڑ کر کھینچ لیا
ماں کے چھٹانک بھر باداموں کی قربانی تو دے نہیں سکتا، چلا ہے برا بننے۔۔
قصوں میں لکھا ہے کہ جب روح اس کے گلے میں اٹکی، اس کے بدن نے جھٹکا کھایا، آنکھیں فق ہونے سے چند ثانئے پہلے اس کے منہ سے کھڑکھڑاتی ہوئی آواز نکلی
اوہ۔۔مشٹیک ہو گئی۔
٭٭٭

___________________________
لاش۔۔ کراچی کی
___________________________

اس کو قبر میں بند ہوئے آج تیسراروزتھا۔۔۔ کوئی فرشتہ نہیں آیا، وہ سوال و جواب کا بے چینی سے منتظر تھا
طرح طرح کے اندیشے اس کے ذہن میں نمو پا رہے تھے!
اس سے قبر میں پوچھ گچھ کیوں نہیں ہو رہی۔۔۔ کیا سوال جواب کے فرشتے ہڑتال پر ہیں۔
اچانک ایک خیال نے اس کو جکڑ لیا۔۔۔ فرشتوں کا نہ آنا اس کے زندہ ہونے کی دلیل تو نہیں ہے۔۔ نہیں ایسانہیں ہو سکتا، وہ مر چکا ہے، اس نے اپنے خیال کو جھٹلایا۔
اور کتنا انتظار کرائیں گے، اس نے فرشتوں کی جانب سے ممکنہ طور پر کئے جانے والے سوالوں کے جواب کو ایک دفعہ پھر رٹتے ہوئے سوچا۔
کہیں وہ اپنی موت کے معین وقت سے پہلے تو نہیں مرگیا، اس کی روح نہیں تھی مگر روح فرساخیال اس کو اب بھی آتے تھے۔
اس نے اپنی موت کے بارے میں پھر سوچناشروع کر دیا، وہ کتے کی موت مارا گیا تھا، اس کے قاتل انجان تھے، وہ کراچی کی ایک گرم دوپہر میں ٹھنڈی موت مرا تھا۔
فرشتوں کے تین سوالوں کے جواب تو اس کے پاس تھے مگر کیا فرشتوں کے پاس بھی اس کے سوالوں کے جواب ہوں گے۔
جب اس کا جرم نہیں تھا تو وہ کیوں مارا گیا، ہو گا اس سوال کا جواب فرشتوں کے پاس۔
کیا کراچی کا شہری ہونے کا جرم گرم دوپہروں کی ٹھنڈی اموات ہیں ، ہو گا اس سوال کا جواب فرشتوں کے پاس؟
فرشتے مجھ سے کیاسوال کریں گے، وہ تین روز پرانی لاش ہنسنے لگی، اس کے پاس تو خود سوالوں کا انبار تھا۔
٭٭٭

One thought on “عثمان غازی

  • افسوس ہمارے لکھاریوں کے ذہنوں میں بھی ، تلخ زبدگی کے سوال و جواب، موت کے بعد، زیرِزمین دفن ہو جانے کے بعد، فرشتوں ، آسمانوں سے ہی ہیں ، زندہ زندگی کو ایسا سخت و پُر مصائب بنا دینے والے مہیب ، زمین کے اوپر رہتے ہوئے ، زندہ کرداروں کی کہانی کے کوئی سوال و جواب نہیں ۔

Kawish Abbasi کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے