کرتوت ۔۔۔ منیر احمد فردوس

رشید نے پورا محلہ سر پر اٹھا رکھا تھا۔شور شرابہ سن کر بہت سارے محلے دار اس کے اردگرد جمع ہو گئے تھے جو اپنے پڑوسی شوکت کی بیٹھک کو دھڑا دھڑ پیٹے جا رہا تھا۔
"باہر نکلو لوفر انسان! میں کافی دنوں سے موقع کی تلاش میں تھا۔آج تیرا بچ نہیں ہے۔ نکل باہر۔” شدید گرمی کے باعث وہ پسینے میں نہایا ہوا تھا اور چیخ و پکار نے اس کے چہرے کو اور بھی بگاڑ دیا تھا۔سب لوگ حیران تھے کہ ماجرا کیا ہے ؟
"حاجی صاحب! آپ ہی کچھ بتائیں کہ ہم شریف لوگ اب کہاں جائیں ؟ شوکت کے چھوکرے سلیم کے لچھن سے پورا محلہ واقف ہے پھر بھی سارے خاموش ہیں مگر میں اب چپ نہیں رہوں گا۔” رشید نے دھاڑتے ہوئے سفید ریش حاجی اکرم سے کہا جو ابھی ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر آ رہے تھے۔
"میں کہتا ہوں کہ شرافت سے باہر نکل آ مردود انسان۔۔۔ مجھے پتہ ہے کہ اندر تم کیا گل کھلا رہے ہو اور آج میں تمہارا پول کھول کے رہوں گا۔ جلدی سے دروازہ کھول دو۔” وہ بیٹھک کا دروازہ پیٹتے ہوئے دھاڑا۔ غصے کی شدت سے اس کے ہونٹوں سے جھاگ نکل آیا تھا اور آنکھیں لال ہو گئی تھیں۔
"ہوا کیا ہے رشید صاحب؟ کچھ تو بتائیں ؟” حاجی اکرم نے تسبیح جیب میں رکھتے ہوئے تجسس سے پوچھا۔سبھی محلے دار بھی تجسس میں ڈوبے بار بارپسینہ پونچھتے رشید کو دیکھ رہے تھے۔
"حاجی صاحب! خدا کے لئے اتنے انجان مت بنیں۔ آپ بھی سلیم کے کرتوتوں سے خوب واقف ہیں۔ محلے کے کافی لوگوں نے کئی مرتبہ اس کی بیٹھک میں عورتوں کو آتے جاتے دیکھا ہے۔ابھی کی بات بتاتا ہوں کہ میں ایک ضروری کام سے دکان سے گھر کو آ رہا تھا کہ دور سے ہی میں نے اس کی بیٹھک میں ایک عورت کو داخل ہوتے دیکھا ہے۔ خدا کی قسم! آج میں اسے سب کے سامنے ننگا کر کے رہوں گا۔ یہ شریفوں کا محلہ ہے اور یہاں یہ لچر بازیاں نہیں چلیں گی۔” رشید نے ناگواری سے حاجی اکرم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی بات سن کر حاجی صاحب خاموش ہو گئے تھے۔
سارا محلہ جانتا تھا کہ رشید بہت تند مزاج تھا اور لڑائی جھگڑا اس کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ اس کے سامنے والے پڑوسی شوکت نے اس کی کریانے کی دکان کے ساتھ اپنی کریانے کی دکان کیا کھولی تھی کہ اس نے شوکت کو اپنا پکا پکا دشمن بنا لیا تھا اور ان سے لڑائی جھگڑے کا کوئی موقع ہا تھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔حاجی صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اور بھی بگڑ گیا۔دو تین محلے داروں نے جب اس کا ساتھ دیا تو وہ اور بھی شیر ہو گیا۔
"حاجی صاحب۔۔۔ محلے کے سب لوگ جانتے ہیں کہ اس بدمعاش نے پیدا ہوتے ہی اپنی ماں کی جان لے لی تھی اور میری ہی ماں نے اسے سگے بیٹوں کی طرح پالا پوسا ہے۔ ہمارے ہی گھر میں یہ چھوٹا بڑا ہوا ہے مگر افسوس کہ اس نے ہمیں شرمندہ کر دیا، یہ ذلیل انسان اب سارے محلے کے لئے ایک وبا ہے۔ کیا ہوا جو میری کوئی اولاد نہیں مگر محلے کی دوسری بچیاں بھی تو میری بیٹیاں ہیں اور آج میں یہ فحاشی کا اڈہ ختم کر کے رہوں گا۔” رشید کی زبان مسلسل چل رہی تھی اور لوگوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا دی تھی۔
وہ مسلسل دروازہ پیٹ رہا تھا مگر اندر بیٹھک میں مکمل سکوت طاری تھا۔دروازہ پیٹنے میں چند اور لوگ بھی شامل ہو گئے تھے جو غیض و غضب کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے دستکوں کا طوفان دروازہ اڑا لے جائے گا۔
"مجھے پتہ ہے کہ تم اندر ہو، اگر تم شرافت سے باہر نہ آئے تو میں پولیس کو لے آؤں گا۔ پھر اپنی عزت بچاتے رہنا۔ بھلائی اسی میں ہے کہ دروازہ کھول دو۔”
رشید نے ایک بار پھر دروازہ پیٹتے ہوئے حلق پھاڑ کر کہا۔ دو تین اور لوگوں نے بھی اس کی پیروی میں دروازے پردھڑا دھڑ ہاتھ مار دیئے۔
چند لمحوں کے لئے سب خاموش ہو گئے اور دروازے پر ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔اچانک اندر معمولی سی کھٹ پٹ ہوئی تو سب کے کان کھڑے ہو گئے۔ لگتا تھا پولیس والی دھمکی کام کر گئی تھی۔ کسی کے قدموں کی چاپ دروازے تک آتی سنائی دی اور پھر لمحہ بھر کے لئے خاموشی چھا گئی۔ قدرے توقف کے بعد کنڈی کھولنے کی آواز ابھری۔ کنڈی کھلتے ہی رشید زوردار جھٹکے سے دروازہ کھول کر بے دھڑک اندر داخل ہو گیا۔اس کے ساتھ دو تین لوگ اور بھی گھس گئے۔مگر جیسے ہی وہ اندر پہنچے تو ایک دم سب کے سب بت بن کر رہ گئے اور زمین نے ان کے پاؤں جکڑ لئے۔ سلیم دروازے کے ساتھ سر جھکائے کھڑا تھا اور بیٹھک کے وسط میں رکھی چارپائی پر نحیف و نزار ایک بوڑھی عورت بے سدھ پڑی تھی ،جسے ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ رشید کی بیوی اس کے سرہانے نم آنکھوں کے ساتھ چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس منظر نے رشید کے منہ پر زوردار تھپڑ جڑ دیئے تھے اور وہ شرمندگی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا تھا۔ وہ بڑھیا کوئی غیر نہیں ،اس کی اپنی ماں تھی، جسے وہ کچھ دن پہلے ہی شہر کے ایک بڑے ٹرسٹ سنٹر میں چھوڑ آیا تھا۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے