چبوترہ۔۔۔ افتخار حیدر

ریحانہ نے کلو دودھ کا شاپر لیا اور دکان دار کی گرم نظروں سے بچانے کے لئے اپنے ڈھکے ہوئے سینے کو مزید ڈھانپتی ہوئی چبوترے سے نیچے اتر آئی۔ ابھی گھر تک جاتے ہوئے بہت سی نظروں کے آگے بند باندھنا تھا۔ اور عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنی زینت کو چھپائے ہر نا محرم سے۔۔ عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے خدوخال عیاں نہ ہونے دے غیر محرم پر بالغ عورت پر لازم ہے کہ وہ گھر سے باہر مت نکلے بغیر کسی خاص مقصد کے (لیکن صبح صبح دودھ لینے اس نے دل میں سوچا ) اسے اپنے ابا کے وعظ کے جملے یاد آتے جا رہے تھے ،جو محلے کی مسجد کے پیش امام اور خطیب منبر تھے وہ اکثر جمعہ کے خطبہ میں اور اس سے بھی زیادہ اس کے کانوں میں بچپن سے یہ اخلاقیات ڈالتے آ رہے تھے مذہبی گھرانے کی لڑکی کتنی خوش قسمت ہوتی ہے کہ اسے ہوش سنبھالتے ہی زمانے کی اونچ نیچ سے پہلی ترجیح کے طور پر آگاہ کیا جاتا ہے ،اس نے پاس سے گزرتی ہوئی کالج جاتی لڑکیوں کی ایک بے پروا ٹولی کو دیکھتے ہوئے سوچا جو قہقہے لگاتے ٹھٹھول کرتے ہوئے جا رہی تھیں اور مختلف تراش خراش کے ایسے ملبوس میں تھیں جس میں چھپایا کم اور دکھایا زیادہ جاتا ہے ،کسی کے سر سے آدھا دوپٹہ کھلا ہوا ہے تو کسی کے سر کی بجائے گلے میں ڈلا ہوا ہے اور کسی کے گلے میں بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور گلے۔۔۔۔استغفر اللہ ربی من کل ذنب ، ایک با حیا لڑکی کو چاہیئے کہ وہ راستے میں نظریں جھکا کے چلے۔جہنم کا ایندھن سب سے زیادہ وہ عورتیں بنیں گی جو اپنی عصمت و عفت کے بارے میں دنیا میں لا پروا رہی ہوں گی۔۔ اس نے بے حیاؤں کے ریوڑ کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے سوچا۔۔ جیرے ماشکی کا بیٹا جو صبح ہی صبح گدھا گاڑی پہ محلے کے گھروں میں پانی کے کین فراہم کرتا تھا ،ریحانہ کو دیکھتے ہی اپنی گدھی پہ غرایا ہو تیری ٹانگوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دم نہیں رہا کیا کیسے صبح صبح پھیل کے چلتی ہے سالی کسی نواب زادی کی طرح۔اور عین اسی وقت دودھ والے کی بائیک کا کراس پڑا تو ماشکی کے لونڈے کا تخلیقی ذہن ایک اور جملہ تخلیق کر گیا۔ ” قسمت تو چوہدریوں کی ہے جو روز تمھارا تازہ دودھ پیتے ہیں ،اس نے دودھ والے کو مخاطب کر کے ،ریحانہ کے سینے کو تاک کر جملہ پھینکا۔ وہ سرخ انگارہ زمین میں گڑی ڈھکے ہوئے سینے کو مزید ڈھانکتے اور اچھی طرح اوڑھی ہوئی چادر کو درست کرتے تیز قدم اٹھانے لگی ” خاندان کا ماحول اور ماں باپ کی تربیت کا فقدان ایسے ہی ظاہر ہوتا ہے اس نے دل ہی دل میں سوچا ” جب تک معاشرے سے بے حیائی اور بد نظری ختم نئیں ہو جاتی ،جب تک انسان شہوت کا اسیر ہے ذلت اور رسوائی سے نہیں نکل سکتا اس کی شکل سے نحوست نہیں جا سکتی ،اسے اپنے باپ کا یہ جملہ یاد آتے ہی دکاندار اور جیرے ماشکی کے بیٹے کی منحوس شکلیں اور بھی کریہہ لگنے لگیں۔ اپنی گلی سے پہلی گلی میں پہلوان کا چبوترہ پڑتا تھا جہاں سارا دن پہلوان کے پٹھوں کی محفل جمی رہتی اور محلے کی عورتیں یا تو ادھر سے گزرنے سے گریز کرتیں یا پھر با امر مجبوری سرعت سے نظر جھکائے گزر جاتیں۔ اس وقت چبوترے پہ پہلوان کے تین چار شاگرد جانگئے پہنے جسم پر تیل کی مالش اور مٹی سے لت پت بیٹھے تھے جیسے ابھی کسرت کر کے آئے ہوں۔ سامنے سے ماسٹر جی تیار ہوکے سکول کے لئے نکلے تو پہلوان کے شاگردوں نے ادب سے انھیں سلام کیا۔ ماسٹر نے خوش دلی سے ایک نظر ریحانہ کو دیکھتے ہوئے چبوترے کی طرف منہ کر کے ایک آنکھ سے ریحانہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ” صرف ورزش ای نئیں تازہ دودھ بھی پیا کرو پہلوانو ں۔ ایک قہقہہ بلند ہوا اور ان میں سے ایک شوخی سے با آواز بلند دور جاتے ماسٹر کو پکار کر بولا ” پورے محلے میں سوائے مولوی صاحب کے کس کے ہاں تازہ دودھ آتا ہے استاد جی ” نا محرم عورتوں پر آوازے کسنا خون کی نجابت اور شرافت پر سوالیہ نشان ہے۔اسے پھر اپنے ابا مولانا عبد الصمد یاد آ گئے اور وہ اسی سوچ میں پتہ بھی نئیں چلا کب اپنی گلی میں داخل ہو گئی ، دور سے اس کے گھر کے باہر چبوترے پہ اس کے والد۔ گرامی اور ان کے پڑوسی ریٹائرڈ پروفیسر زبیر عباسی حسب۔ معمول اخبار پڑھ رہے تھے اور ساتھ کے ساتھ حالات۔ حاضرہ پہ تبصرہ فرماتے جا رہے تھے۔وہ جس سمت سے آ رہی تھی اس طرف اس کے ابا کی پشت اور پروفیسر صاحب جو کہ قریب کی نظر کا چشمہ لگائے ہوئے تھے ان کا منہ تھا۔ پروفیسر صاحب نے ایک نظر دور سے آتی ہوئی موٹی تازی لڑکی کو دیکھا اور بلند آواز سے پکارے ” مولانا یہ خبر پڑھی ؟؟؟ دودھ اور گوشت کے نرخ پھر بڑھ گئے ہیں ” ریحانہ بالکل باپ کے عین پیچھے پہنچ چکی تھی جب انھوں نے سامنے سے آتی یونیورسٹی کی لڑکیوں کی جسم تولتے ہوئے ارد گرد سے خود کو محفوظ پا کر قدرے بلند آواز میں فرمایا ” اجی پروفیسر صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دودھ اور گوشت کو تو اب غریب صرف دیکھ کر ہی گزارہ کیا کریں گے ” لال انگارہ ہوتی لڑکیوں کے جھنڈ میں سے چار پانچ نے بیک وقت اپنے سینے پہ ڈلا دوپٹہ درست کیا تو پانچ سات نے قمیض کا پچھلی سائڈ کا دامن ہاتھ سے ٹٹول کر سیدھا ہونے کی تسلی کی
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے