مسرت ۔۔۔ ارشد علی

ماہ جون کی شدید گرم دوپہر اور بس والے کا دھرنا، سواریوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکا تھا۔ اور اب وہ ڈرائیور سے تو تکار کی بجائے لڑائی پر آمادہ دکھائی دیتے تھے۔ مگر اس کا یہی موقف تھا کہ اتنی کم سواریوں کے ساتھ آگے نہیں جا سکتا آخر تنگ آ کر ڈرائیور نے حسب سابق آہستگی سے بس کو چند فٹ آگے بڑھایا اور پھر روک دیا۔ لوگ جو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب یہ منزل کی جانب روانہ ہو چکے گا ان کے شکرانے کہ الفاظ مکمل ادائیگی سے پہلے ہی دانتوں تلے کچلے گے۔۔
بس کے اندر ہی نہیں بس سے باہر بھی ہر زی روح گرمی کی شدت سے متاثر دکھائی دیتا تھا۔ انسان ، چرند پرند، جانور یا تو کسی سایہ دار جگہ کی آڈ لیے تھے یا کسی سایہ دار جگہ کی تلاش میں تیز تیز بڑھتے دکھائی دیتے تھے۔ ایسے میں اگر کہیں رش تھا تو وہ لیمن سوڈے والے کی ریڑھی پر۔۔ کہ ہر آتا جاتا پیاس کی شدت کو ٹھنڈا کرنے کو وہاں ضرور رکتا تھا ، ریڑھی پر دو بچے سرعت سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے ایک جو بڑا اور دس بارہ سال کی عمر کا تھا ٹھکا ٹھک بوتلیں کھولے جاتا اور نقدی وصول کرتا، دوسرا جو کہ تین چار سال کے قریب ہو گا ، اتنی ہی تیزی سے گلاس اکھٹے کرتا اور انہیں دھو کر دوبارہ ٹوکری میں سجا دیتا اچانک اسے نامعلوم کیا سوجھی کہ وہ گرمی کی شدت، گاہکوں کا رش، ان دھلے گلاسوں کی تعداد، نائک کے اشارے، بوتلوں کی ٹھکا ٹھک ہر چیز سے صرف نظر کرتے ہوئے ان دھلے گلاس میں گھولے ہوئے سرف کے پانی میں نلکی ڈال کر بلبلے بنانے لگا۔۔۔۔۔۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے