سنّاٹا ۔۔۔ ابرار مُجیب

یہ روز کا معمول تھا۔
صبح جب وہ گھر سے نکلتا تو کمرے کی کھڑکی بند ہوتی اور بستر پر ناہموار سانسوں کا زیر و بم۔ وہ ربر سول کے جوتے پہن کر باہر نکلتا ، قدموں کی چاپ ناہموار سانسوں کا حصہ معلوم ہوتی اور وہ ہوا کے جھونکے کی طرح باہر نکل اتا۔
یہ روز کا معمول تھا۔
واپسی کا وقت طے تھا، دو منٹ ادھر یا دو منٹ ادھر۔۔۔۔۔۔ آدھی رات۔۔۔۔ دروازہ یوں ہی کھلا ہوتا۔ ربر سول کے جوتوں کی مدھم چاپ ، آدھی رات کے سناٹے میں بہت واضح ہوتی۔ بستر پر ناہموار سانسوں کی بجائے ایک حسین مسکراہٹ بکھری ہوتی۔
آج معمول سے پہلے وہ گھر لوٹ آیا۔ اور جھونک میں دروازہ سے ٹکرا گیا۔ دروازہ بند تھا۔ اس کا جسم بالکل ساکت ہو گیا۔۔ ربر سول کے جوتے اس کے پیروں میں کسمسائے لیکن کوئی آواز نہیں ابھری۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے