تھپڑ ۔۔۔ سدرہ سحر عمران

ہاجرہ سا منے والے ڈپا رٹمنٹل اسٹو ر سے کا سمیٹکس کا کچھ سامان لینے گئی تھی۔ اسے اندر گئے پیتیس منٹ سے زا ئد وقت گزر چکا تھا اور ابھی تک واپسی کے آ ثار دکھا ئی نہ دے رہے تھے۔وہ اس کی بے حد لا ڈلی بیٹی نہ ہوتی تو وہ اب تک اسے چھوڑ کر جا چکا ہو تا لیکن وہ ایسی ہی تھی۔ بہت مشکل پسند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آ سانی سے کوئی چیز اسے پسند ہی نہ آ تی تھی۔ لپ اسٹک یا نیل پا لش لینی ہوتی تو دسیوں شیڈز نکلو ا کے چیک کرتی اور سیلز مینز کو اچھی طرح زچ کر کے کچھ پسند کر تی تھی۔ تھی بھی تو اسی کا پر تو۔۔اسے بھی بہت مشکل سے کوئی چیز پسند آ تی تھی۔اور جو آ جا تی اسے ہر قیمت پہ حاصل کر کے رہتا۔
انتظا ر کی کوفت سے تنگ آ کر وہ اسے رنگ کرنے کا ارادہ کر رہا تھا جب ہا جرہ کا میسج ا گیا۔۔
”اونلی فا ئیو منٹس پا پا۔۔۔۔۔۔۔آ ئی ایم جسٹ کمنگ ”
”اوکے ”اس نے جوابی میسج ٹائپ کیا ور ہی سامنے فٹ پا تھ پہ وبا کی طرح پھیلے ہوئے گدا گر ٹولے کو دیکھنے لگا۔ جو سڑک کے کنارے کھڑی ہر قیمتی گاڑی کا شیشہ بجا بجا کر اپنی عسرت کی کہانی سنا رہے تھے۔،معاً اس کی نظر فٹ پاتھ کے پاس کھڑی ایک چودہ پندرہ سالہ میلی کچیلی سی لڑ کی پر نظر پڑی۔ جو جھک کر مرسڈیز کا شیشہ بجا کر کچھ ما نگ رہی تھی۔ دھوپ میں اس کی سنہری رنگت سونے کی طرح دمک رہی تھی۔اور ستواں ناک میں سستا سا لونگ بے حد قیمتی لگ رہا تھا۔ وہ دم بخود اسے دیکھے گیا۔ بہت عرصے بعد اسے کسی چہرے میں بے پناہ کشش محسوس ہو ئی تھی۔
لڑکی اس کی گہری نظروں کا ارتکاز محسوس کر چکی تھی۔ اور مرسڈیز والے نے کچھ نوٹ اسے تھما دئیے تھے۔وہ نوٹ مٹھی میں جکڑ کر اس کی کا ر کے پاس آ ئی۔
”صاب جی۔۔۔۔۔۔۔کچھ مدد کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کی قسم صبح سے کچھ نئی کھا یا۔۔۔” وہ اپنا گندمی ہا تھ اس کے سامنے کر تے ہوئے گڑ گرا نے لگی۔
”کیا کھا ؤ گی ” وہ ٹرانس کی کیفیت میں تھا۔
”کچھ بھی کھلا دو صاب۔” وہ عاجزی سے بولی۔
”نام کیا ہے تمہارا۔”وہ بہت غور سے اس کا سراپا جانچ رہا تھا۔
”ہا جرہ صاب جی ”
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے