تشکیک ۔۔۔ نور العین ساحرہ

” تمہارے مان لینے یا نہ ماننے سے حقیقت بدل تو نہیں جائے گی علینہ۔ میں تو صرف اسی کو اشرف المخلوقات سمجھتی ہوں جو اپنے ہر قدم میں تشکیک کا پہلو مدِّ نظر رکھے اور پوری پوری ذمّہ داری کے ساتھ اپنے ہر عمل کی بہترین توجیح پیش کر سکے۔ افسوس۔۔۔۔۔! صد افسوس دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہو رہا، کیا ایلیٹ کلاس اور کیا مزدور طبقہ سب کے سب کٹھ پتلیاں ہیں۔ اسی لئے میں انسان کے مستقبل سے بہت مایوس ہو چکی ہوں۔ صرف دوسروں کی بات نہیں کرتی۔ مجھ سمیت سب ہی اپنی پوری زندگی خواہ وہ ملکی، سیاسی، ثقافتی یا نجی سطح پر کیوں نہ ہو ، کچھ بھی سوچ سمجھ کر اپنی مرضی سے نہیں کرتے بلکہ سسٹم نے ہمیں کنٹرول کر کے محض ربوٹ بنا رکھا ہے۔ ہم لوگ صبح سے شام تک ڈمیز کی طرح بند آنکھوں اور بند دماغوں کے ساتھ مخصوص دائروں میں گھومتے اور خود کو بنے بنائے طے شدہ سماجی سانچوں میں ڈھالتے رہتے ہیں ”
سبین بولتے بولتے سانس لینے کو رکی تو علینہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے سختی سے روکتے ہو ئے کہا۔ "بس بھی کر دو اب سبین۔ عاجز ہوں میں تمھاری ان بے تکی باتوں سے۔ مجھے کیا ان پڑھ جاہل سمجھتی ہو جو تمھاری ان غیر منطقی دلیلوں سے قائل ہو جاؤں گی۔ اتنے سالوں سے مجھے سمجھانے کی ناکام کوشش کر کر کے ہاری نہیں تم ابھی تک؟ خیر آج آخری بار غور سے سن لو ، میں نہ پہلے قائل ہوئی تھی،نہ ہوئی ہوں نہ کبھی ہونے والی ہوں۔ پھر کیوں اپنا دماغ اور میرا وقت ضائع کرتی رہتی ہو۔ ویسے اب تو مجھے بھی یقین ہو گیا ہے کہ تم واقعی ڈمی ہی ہو لیکن میں تو اشرف المخلوقات ہوں بھئی۔ تمھاری طرح کسی دائرے وائرے یا سانچے وانچے میں سے ڈھل کر نہیں نکلی بلکہ ہر کام بہت احتیاط سے دیکھ بھال کر اپنی مرضی اور عقلمندی سے کرتی ہوں۔ اب یہی مثال لو، غور سے دیکھو میں نے کس قدر سوچ سمجھ کر کبابوں کے دونوں طرف کوکنگ آئل اسپرے کیا ہے اور یہ دیکھو کتنی سمجھداری سے چائے میں دو چمچے بھر کر چینی اور پتی ڈال کر دم دیا ہے۔ جتنی دیر میں یہ دونوں چیزیں تیار ہوں گی میں بہت ذمہ داری سے فریج کھولوں گی اور ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پی لوں گی۔ کہو، تو تمھارے سر میں بھی ڈال دوں تھوڑا سا، افاقہ ہو گا تمھیں "۔ علینہ نے سبین کا مذاق اڑاتے ہوئے مڑ کر فریج کو کھولا۔
سالوں سے مخصوص جگہ پڑی رہنے والی اپنی پانی کی بوتل اٹھائی اور منہ سے لگا کر غٹاغٹ پینے لگی۔ اگلے ہی لمحے ایک خوفناک چیخ کے ساتھ وہی پانی فوارے کی شکل میں اس کے منہ سے باہر نکلا اور فرش پر دور تک پھیل گیا۔ وہ لڑکھڑا سی گئی اور حیرت سے چیختی ہوئی ہاتھ میں پکڑی بوتل کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ جس پر صاف اور واضح لفظوں میں سرکہ لکھا ہوا تھا اور وہ سائز میں بھی اس کی پانی والی بوتل کی نسبت تھوڑی سی چھوٹی اور کچھ موٹی بھی لگ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ خفگی سے چیخی۔ ” کس احمق نے سرکے والی بوتل کو پانی کی جگہ پہ رکھ دیا۔ میں نے غور ہی نہیں کیا اور اٹھا کر روٹین میں پی لیا۔ اب اگر میری موت واقع ہو جائے تو کون اس کا ذمہ دار ہو گا؟ ”
"تم اور تمھاری اشرف المخلوقیت "۔ سبین کی آنکھوں میں شرارت اور ذہانت کے جگنو سے چمکے۔
"ویسے تھوڑا سا سرکہ پینے سے تو تم نہیں مرو گی، ہاں مگر ناشتے کا کچھ کہ نہیں سکتی کیونکہ رات کو سونے سے پہلے میں نے پانی والی بوتل کو سرکے والی بوتل سے ایسے ہی بدل دیا تھا جیسے چینی والے ڈبے کو نمک سے اور کوکنگ آئل اسپرے کو اسی سے ملتے جلتے رنگ اور سائز والی کیڑے مار اسپرے سے”
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے