بے یقینی ۔۔۔ ارشد نیاز

اور ہم سب چلانے لگے۔
’’ وہ آ گیا!وہ آ گیا!‘‘
اور ہم نے دیکھا:
وہ آسمان کی بلندیوں سے نیچے اُتر رہا تھا۔
ہم سب بہت خوش تھے کہ اب ہماری تقدیریں بدل جائیں گی،ہماری راتیں اُجلے سمندر میں ڈوب جائیں گی،روشنی روشنی کا ورد کرنا ہم چھوڑ دیں گے اور ہمیں ہماری مُرادوں کی دنیاؤں میں بھیج دیا جائے گا۔
ہم سب ایک دوسرے کو دیکھ کر مُسکرا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ اُتر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اس سے قبل ہماری زمین جھنجھوڑ دی گئی۔ہمارے اطراف میں پھیلے پہاڑ پھٹ کر آگ اُگلنے لگے اور آسمان سے آگ کی بارش ہونے لگی۔
ہم سب ایک ساتھ چیخ پڑے۔ہمارا بدن جلنے لگا اور ہم سب ایک اک کر کے موت کا نوالہ بننے لگے۔
’’نہیں ! ایسا نہیں ہو سکتا!‘‘
جو کچھ ہم بچے تھے ،بھاگنے لگے اور بھاگتے بھاگتے ٹھوکر لگی ہم گر گئے اور ہم سب کی آنکھیں ایک ساتھ جاگ اُٹھیں۔ہم سب ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے۔ایک ساتھ آسمان کی طرف دیکھے۔
وہ سچ مُچ آ رہا تھا جسے آسمان نے ہی لپک کر نگل لیا۔
’’چلو اچھا ہوا!نجات مل گئی۔‘‘
کسی نے کہا اور ہم سب خوشی سے چلا اُٹھے۔
’’نجات مل گئی !نجات مل گئی!‘‘
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے