ایک لمحہ ۔۔۔ عودیہ علی

اس دنیا میں سب سے زیادہ بری مجھے اپنے گھر میں کام کرنے والی ماسی لگتی ہے۔ حالانکہ جب وہ پہلے دن آئی تھی تو اس نے کہا تھا "بی بی جی مجھ سے جتنا مرضی کام کروانا مگر نماز پڑہنے کے لیئے چھٹی ضرور دیا کرنا” اور میں نے خوشی خوشی ہاں کر دی۔مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ کام کاج کے دوران اس قدر گندگی کا مظاہرہ کرے گی۔ برتن دھونے لگتی تو برتنوں کے ساتھ ساتھ اپنی قمیض کا اگلا سارا حصہ گیلا کر لیتی فرش دھونے لگتی تو پھرتو بس کچھ نہ پوچھو یوں خود کو گیلا کر دیتی گویا فرش نہیں دھویا خود نہائی ہے۔ مگر جیسے ہی اذان ہوتی ہر کام چھوڑ کے نہا کے کپڑے بدل کے میرے کسی کمرے میں نماز کے لیئے جا کھڑی ہوتی۔مجھے اس سے شدید کراہیت محسوس ہوتی میں خود بہت نازک و نفیس مزاج ہوں کوئی بھی موسم ہو دن میں دو مرتبہ باتھ لینا اور موسم کی مناسبت سے دو مرتبہ ہی کپڑے بدلنا میری عادت ہے۔میرا ڈیڑھ سال کا بیٹا ہے عدن اسے بھی میں نے اپنی طرح ڈھالا ہوا ہے۔مگر اب لگتا تھا اس ماسی نے میری تربیت کا بیڑا غرق کر دینا تھا۔میں اکثر غصے میں ماسی کو ڈانٹتی مگر وہ ہنس کے سر جھکا لیتی۔
عدن میرا اکلوتا بیٹا ہے۔میری شادی کو دو سال بیت گئے ہیں۔میرے شوہر امجد شادی کے چھ ماہ بعد جرمنی چلے گئے۔ڈیڑھ سال ہونے کو آئے ان کے فون آتے ہیں پیسے آتے ہیں مگر وہ خود نہیں آتے جب بھی کہتی خود نہ مجھے بلا بھیجو مگر ان کا ایک ہی کہنا ہے ابھی تو نوکری پکی نہیں ہوئی تھوڑا صبر کرو مگر شاید وہ کچھ نہیں جانتے۔۔میں نے اپنے بیٹے کو قریبی مانٹیسوری میں داخل کرا دیا ہے خود ہی لینے اور چھوڑنے جاتی ہوں۔
کچھ دن ہوئے میرے سیل فون پہ کوی اجنبی نمبر بجتا مگر ایک یا دو بار کے بجنے کے بعد بند ہو جاتا۔میں نے بھی غور نہیں کیا۔مگر جوں جوں دن گزرتے گئے اس نمبر کی گھنٹیوں میں اضافہ ہوتا گیا آخر ایک دن تنگ آ کے میں نے فون ریسیو کر لیا۔دوسری طرف کوئی مرد تھا۔ "پلیز فون بند نہ کیجیے گا”کیوں ؟”میں نے سخت لہجے میں پوچھا۔دوسری جانب سے کوی جواب نیں آیا اور میں نے فون بند کر دیا۔اس ک بعد کچھ دن تک فون نہیں آیا اور میں بے دھیانی میں اس اجنبی کال کی منتظر رہی۔پھر اک دن کال آئی اس بار میرا لہجہ درشت نہیں تھا۔آہستہ آہستہ ہم دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے اس نے بتایا کے اس کا نام ارسلان ہے وہ ایک نجی کمپنی میں اچھی جگہ پر پوسٹ ہے۔اب ہم اکثر ایک دوسے سے باتیں کرتے اپنے مسایل اک دوسرے سے شیر کرتے۔اب مجھے امجد کے فون کا انتظار نہیں رہتا تھا کبھی فون آ بھی جائے تو میں سر درد کا بہانہ کر کے فون بند کر دیتی۔
مائیکہ دور تھا سسرال میں کوئی تھا نہیں اس لیئے اکثر عدن کا ہاتھ تھامے ارسلان سے ملنے کسی پارک میں چلی جاتی عدن پارک میں خوش رہتا تھا۔
اب مجھے ماسی کے گندہ رہنے کی عادت سے بھی نفرت نہیں رہی تھی۔ایک دن وہ کپڑے دھو رہی تھی اور حسبِ معمول خود کو گندے پانی سے گیلا کیا ہوا تھا میں نے ہنستے ہوے کہا ماسی کبھی تو گھن کھا لیا کرو گندے پانی سے وہ میری طرف دیکھ کے حسبِ معمول ہنستے ہوئے بولی بی بی جی میلے تن کا کیا ہے میلا ہو جائے تو دھل جاتا ہے بس رب کسی کا من میلا نہ کرے اس اک لمحے میں مجھے ایسے لگا جیسے اس نے اپنے میلے کپڑے اتار کے میرے منہ پہ دے مارے ہوں۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے