ابن عاصی

ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
صدیوں سے لگی بھوک
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________

خوبصورت نین نقش والی عورت کو اوطاق کے اندر آتے دیکھ کر وڈیرے نے ایک بھرپور نظر اس پر ڈالی اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا
بابا !کیا بات ہے؟کیا چاہیے؟
عورت نے اس کی نظروں کی گرمی کو اپنے بدن پر رینگتے ہوئے محسوس کرتے ہوئے کہا
،وڈیرہ سائیں !تھر سے آئی ہوں ،بھوک لگی ہے
وڈیرے نے مونچھ کے ایک بال کو اپنے دانتوں میں چباتے ہوئے اسے سر سے پاؤں تک گھورا اور کہا
،بابا ! بھوک تو مجھے بھی بہت لگی ہوئی ہے۔
٭٭
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
صدیوں سے گم اک سوال کی کتھا (افسانچہ)
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________

غیر ملکی مبصرین کی ٹیم دشوار گزار راستوں سے ہوتی ہوئی اس قبائلی علاقے میں پہنچی تھی جو بارہ افراد پر مشتمل یہ ٹیم اس ترقی پذیر ملک میں چند روز بعد ہونے والے الیکشن کی مانیٹرنگ کے لئے آئی تھی۔ ٹیم کا اس قبائلی علاقے سے باہر ہی چند خواتین سے سامنا ہو گیا۔ٹیم کی ایک خاتون ممبر آگے بڑھی اور ان سے پوچھا۔
’’آپ الیکشن میں ووٹ کس پارٹی کو دیں گی؟‘‘
قبائلی خواتین چپ رہیں تو خاتون مبصر نے اپنا سوال پھر دہرا دیا،تھوڑی دیر خاموشی کے بعد ایک ادھیڑ عمر عورت نے کہا۔ ’’یہاں جرگے نے ایک فیصلے کے بعد اعلان کیا ہے کہ خواتین اپنے ووٹ نہیں ڈالیں گی۔۔!!!‘‘
غیر ملکی مبصرین نے حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھراسی خاتون مبصر نے کہا۔
’’جرگے نے آپ کے مردوں پر ووٹ ڈالنے کی پابندی کیوں نہیں لگائی؟‘‘
ان مبصرین کو اپنے سوال کا جواب نہیں ملا۔۔۔۔۔۔۔۔اور تلاش کرنے والوں کو وہ مبصرین۔۔!!!
٭٭

ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
خوف کے سائے
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________

وہ رشین افسانہ نگار مجھے ایک عالمی ادبی کانفرنس میں ملی تھی،چھوٹتے ہی پوچھنے لگی
،تم اب تک کتنے افسانچے لکھ چکے ہو۔۔۔؟
تیس پینتیس تو ہو چکے ہیں شائد۔۔۔ ! میں نے جواب دیا
ویری گڈ۔۔ویری گڈ۔۔! اس نے مسکراتے ہوئے تحسین آمیز انداز میں کہا۔۔۔۔،آج کل میں کوئی نیا افسانچہ لکھا ہے۔۔؟
ہاں۔۔رات ہی ایک لکھا ہے۔۔!میں نے کہا۔۔۔،اور شائد وہ میرا آخری افسانچہ ہو۔۔!
آخری۔۔۔؟اس نے چونکتے ہوئے کہا۔۔۔،کیوں۔۔۔؟کیا اس کے بعد تم افسانچے نہیں لکھا کرو گے۔۔۔؟اور ویسے یہ کس موضوع پر۔۔۔؟
طالبان کے خلاف لکھا ہے۔۔۔!میں نے کہا
اچھا خدا حافظ۔۔۔۔۔ ! اس نے خوفزدہ سی ہو کر کہا اور تیزی سے انسانوں کی بھیڑ میں گم ہو گئی۔۔۔!!!!
٭٭

ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
تقسیم
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________

تینوں فریق مسجد کی ملکیت کا دعوی کر رہے تھے علاقے کے بڑوں نے بہت سمجھایا لیکن کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا جب بات کسی کنارے لگتی نظر نہ آئی تو بڑوں نے فیصلہ کیا کہ مسجد کے تین حصے کر دئیے جائیں مسجد کو تین گلیاں لگتی تھیں برابر برابر جگہ تینوں فریقوں کو دے کر درمیان میں دیواریں کھڑی کر کے دروازے لگا دئیے گئے اور پھر مسجد کے سامان کی تقسیم شروع ہو گئی
ٹوپیاں ، قرآن پاک کے نسخے ‘سپارے ‘ رحلیں اور جائے نمازوں کے ساتھ ساتھ مردے نہلانے والے تخت اور میت لے جانے والی چارپائیاں تک بانٹ لی گئیں حتیٰ کہ لوٹے تک آدھے آدھے کر لیے گئے۔
سب کچھ تقسیم ہو چکا تو ایک سفید داڑھی والے بابے نے پوچھا۔۔
کچھ بانٹنے سے رہ تو نہیں گیا؟
رہ گیا ہے۔۔۔۔اک طرف سے آواز آئی۔
کیا۔۔؟سب نے آواز والے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔کیا رہ گیا ہے؟
رب۔۔۔!اس نے کہا! رب تقسیم ہونے سے رہ گیا ہے
اس کی یہ بات سن کے سب کو پتہ نہیں کیوں اک چپ سی لگ گئی تھی۔
٭٭٭

ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
پھر آدم کا کیا ہوا؟
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________

جب سمندر کے پانی نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو ہر طرف بھاگ دوڑ شروع ہو گئی سب جاندار اپنی اپنی جانیں بچانے کے لئے کوئی اونچی اور محفوظ جگہ ڈھونڈ رہے تھے کہ اچانک ایک اعلان ہونے لگ گیا کہ ہر جاندار میں سے ایک جوڑا فلاں پہاڑ پر موجود کشتی میں پہنچ جائے سب ادھر کو دوڑ پڑے اور کشتی دیکھتے ہی جلدی سے اس میں بیٹھ گئے۔ کشتی چلنے لگی تو ایک عورت اور مرد بھی وہاں آن پہنچے دونوں کشتی میں بیٹھنے لگے تو کشتی والوں نے یہ کہ کر روک دیا کہ اس میں کوئی انسان نہیں بیٹھ سکتا۔
مرد نے حیران ہو کر کہا
کیوں۔۔؟حضرت نوح کی کشتی میں توانسان بھی بیٹھے تھے؟
روکنے والے نے کہا
یہاں نہ کوئی نوح ہے اور نہ ہی یہ ان کی کشتی ہے اس لئے تم دونوں نہیں بیٹھ سکتے۔
اگر ہم انسان نہ بیٹھے تو انسانوں کی نسل آگے کیسے چلے گیََ۔۔۔؟انسان تو پھر دنیا سے ختم ہو جا ئیں گے۔۔۔؟
دوسرا روکنے والا تھوڑا سا مسکرایا اور بولا
اسی لئے تو تمہیں کشتی میں بٹھایا نہیں جا رہا ہے۔
٭٭
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
چھ ارب انسانوں کے لئے ایک چھوٹی سی کہانی
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________

کسی جنگل میں چیونٹیاں ایک لمبی لائن میں جا رہی تھیں کہ اچانک سب سے پچھلی چیونٹی نے گردن آگے نکالی اور سب سے اگلی چیونٹی کو مخاطب کر کے کہنے لگی
لیڈرو!ذرا دھیان سے۔۔۔۔ہمیں کسی اندھے کنویں میں نہ پھینک دینا
سب سے اگلی چیونٹی تھوڑا سا مسکرائی اور پیچھے منہ کر کے بولی
تمہارے جیسی قوم پیچھے پوچھ گچھ کے لئے موجود ہو تو کوئی کنویں میں کیسے گر سکتا ہے؟
٭٭

ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
نامعلوم افراد کی معلوم کہانی
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________

مقامی تھانے کے ایس ایچ او نے چوک میں چاروں طرف بکھری ہوئی لاشوں کا معائنہ کرنے کے بعد وہاں جمع لوگوں پر ایک نظر دوڑائی اور ذرا اونچی آواز میں پوچھ : ’’تم میں سے کوئی اس واقعے کا عینی شاہد ہے۔۔؟‘‘
اگلی لائن میں کھڑا ایک بزرگ صورت شخص آگے بڑھا اور بولا: ’’ہاں میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے‘‘۔
ایس ایچ او نے اس کو سر سے پاؤں تک گھورتے ہوئے طنزیہ سے انداز میں کہا:
’’بزرگو! آپ گواہی دینا پسند فرمائیں گے۔۔؟‘‘
بزرگ صورت شخص نے نہایت اعتماد سے جواب دیا۔’’ہاں۔۔۔ میں گواہی دوں گا‘‘
ایس ایچ او اس کا اعتماد اور لب و لہجہ دیکھ کر سنبھل کر بولا۔
’’جن موٹر سائیکل سواروں نے یہ گھناؤنی واردات کی ہے،کیا آپ ان کو پہچان سکتے ہیں۔۔۔؟‘‘
بزرگ نے کہا۔’’پہچاننے کی کیا بات کرتے ہیں آپ۔۔؟میں تو سڑسٹھ سالوں سے ان کو جانتا ہوں ‘‘
ایس ایچ او نے جلدی سے کہا۔’’کون تھے وہ۔۔۔؟‘‘
بزرگ صورت شخص نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔
’’وہ نامعلوم افراد تھے‘‘۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے