ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
بے وقت کی راگنی
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
میں نے کہا۔ ’’آج میں سارا دن سچ بولوں گا‘‘۔
بیوی نے سمجھایا۔ ’’رہنے دیں ، جس قسم کا آپ سچ بولتے ہیں وہ آج کل کے زمانے کو سوٹ نہیں کرتا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اب تو میں نے تہہ کر لیا ہے اور تم جانتی ہو کہ میں کس قدر ضدی انسان ہوں ‘‘۔
’’آپ کی ضد گھر کی حد تک تو ٹھیک ہے۔ چل جاتی ہے۔ باہر کی بات اور ہے۔ میں نیک و بد آپ کو سمجھائے دیتی ہوں ‘‘۔
’’چلو چلینج ہی سہی، جو ہو گا دیکھا جائے گا‘‘۔
’’یہ کیسا چلینج ہے جو خود ہی خود کو دیا جا رہا ہے‘‘۔
میں نے بیوی کی ایک نہیں سنی اور کام چلا گیا۔ کام، لنچ، دوستی، سینما، گپ شپ، دن بھر ہر جگہ سچ بولتا رہا مگر شام کو جب گھر لوٹا تو میرے کپڑے کہیں کہیں سے مسخ ہو چکے تھے اور جسم پر بھی کچھ خراشیں آئی تھیں ‘‘۔
٭٭
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
لائیسنس یافتہ
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
’’عجیب بات ہے۔ ہم آپ پر جان دیتے ہیں اور آپ اُس پر فدا ہیں۔ جو کسی طرح بھی آپ کے ہاتھ نہیں آ سکتی‘‘۔ محفل میں بار بار مجھے اس کی طرف دیکھتے دیکھ کر وہ بولی۔
’’کیوں ، ایسی کیا بندش ہے؟!‘‘ میں نے سوال کیا۔
آپ شادی شدہ ہیں اور وہ طلاق یافتہ اور دو بچوں کی ماں ہے۔ ذرا اس کے نزدیک تو جا کر دیکھو، سب کی نظریں آپ دونوں کو چھید ڈالیں گی۔ جبکہ میں کسی کی بیوی ہوں ‘‘۔
’’کسی کی بیوی کے ساتھ ایسے ویسے تعلقات یہ تو اور بھی خطرناک معاملہ ہے‘‘۔
’’بالکل نہیں ‘‘۔ وہ بولی۔ ماتھے پر کسی کے نام کی بندیا کا لائیسنس مجھے کہیں بھی، کسی سے بھی، سر بازار بات کرنے کا حق عطا کرتا ہے‘‘۔
٭٭٭