کھوٹا سکّہ ۔۔۔ ادریس آزاد

آنکھیں اتنی زرد، گویا کسی لاش نے کھول رکھی ہوں۔ اس کی ناک بھی موت سے پہلے ہی ٹیڑھی ہو چکی تھی جس پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ کپڑے جیسے کسی نے ان پر تیل ، گھی، مٹی اور کچلے ہوئے ٹماٹروں کا لیپ کر دیا ہو۔ آس پاس کے مسافروں نے ناکیں ڈھانپ لی۔ اس کے ہاتھ میں مکئی کا ابلا ہو ابھٹہ ،جس پر نمک اور مرچ چھڑکے ہوئے تھے۔ بھٹے کے کچھ دانے اس کے پھٹے ہوئے کالے کالے ہونٹوں پر پیلے پیلے موتیوں کی طرح چپک گئے اور نمک مرچ اس کی باچھوں سے لے کر کانوں تک آرٹس بنانے لگے۔ وہ سرتاپا غلاظت کا ڈھیر تھا۔ مسافروں نے ٹانگیں سکیڑ لیں۔
اس کے پیروں میں ٹوٹے ہوئے سلیپر پھسل کر ایڑھیوں کے نیچے سے باہر کو نکل گئے۔ گریبان کے بٹن نہیں تھے۔ اور اس کا پھنسیوں سے بھرا سینہ مکھیوں کو مسلسل دعوت طعام دے رہا تھا۔ پیلی آنکھوں میں گندگی بھری تھی۔وہ دورویہ سیٹوں کے درمیان فرش پر بیٹھ گیا۔
وہ کالا تھا بلکہ میلا تھا اور اس لیے کالا تھا۔ بکھری اور الجھی داڑھی اور مونچھیں بھی مکئی کے پیلے پیلے دانوں سے بھر گئیں۔ اچانک پف والے نوجوان نے اسے پیچھے سے ٹھڈا مارا:۔
"اوئے منحوس! اتر !۔۔۔۔۔ارے کوئی بلاؤ کنڈیکٹر کو۔۔۔۔۔اس بد بخت کو نیچے اتارو!”
کنڈیکٹر نے سن لیا۔ کنڈیکٹر فولڈنگ سیٹوں پر بیٹھے مسافروں کو پھلانگتا دور سے ہی عورتوں کی پرواہ کیے بغیر مغلظات کا طوفان بکنا شروع ہو گیا:۔
"اوئے کتی کے بچے!۔۔۔۔ حرامزادے!۔۔۔بھین کے تخم!۔۔۔تو کیسے چڑھ گیا اِس ماں میں ؟”
"قریب آ کر اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور مجہول شخص پر تھپڑوں کی برسات کر دی”
ایک سواری بولی،
"بس کرو!۔۔۔۔مر جائے گا اور مُدّا تم پر پڑے گا۔ دیکھتے نہیں چلتی پھرتی تین سو دو ہے؟”
کنڈیکٹر یکدم رُک گیا۔گاڑی موٹر وے پر آ تھی۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ڈرائیور سے کہتا کہ گاڑی روکو تو وہ ویسی ہی گالیاں کنڈیکٹر کو دیتا جیسی وہ اُسے دے رہا تھا۔ وہ یکلخت بولا،
"اوئے! کرایہ نکال!” تیری بھین کی، تیری ماں کی، چارسوپچاس روپے نکال! نہیں تو جان نکال لوں گا”
مجہول شخص نے پہلی بار زبان کھولی:۔ "جان نکال لو جی بھائی صاحب!! کرایہ تو نہیں ہے۔ کرایہ لو گے تو مجھے سیٹ بھی دینی پڑے گی۔اپنی سواریوں سے پوچھ لو پہلے!”
اس سے پہلے کہ وہ گاڑی روکتا۔ اچانک ایک صاف ستھری موٹی سی خاتون کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ کسی نے موٹر وے ایمرجنسی 130 پر کال کر دی۔
کچھ مسافر اُٹھ کر اُن کی سیٹ کے پاس آ گئے۔ کسی نے کہا۔۔اے۔سی کے آگے سے ہٹو۔
خاتون کا شوہر تیزی سے بیگ کھولنے لگا۔ وہ ساتھ ساتھ کہتا جا رہا تھا۔ کوئی انجکشن لگا لے گا میری مسز کو؟ میں نہیں لگا سکتا۔ ہارٹ پیشنٹ ہوں۔ انہیں انسولین چاہیے” خاتون اب بالکل بے ہوش ہو چکی تھی۔ پیلی زرد۔ جیسے مر گئی ہو۔ سب یہی سمجھے تھے کہ وہ مر گئی ہے۔ اب تک موٹر وے ایمر جنسی کو نظر آ جانا چاہیے تھا۔
کئی آوازیں ایک ساتھ لپکیں :۔
"گاڑی روکو! گاڑی روکو! جلدی !”
گاڑی اچانک رُک گئی۔ مریضہ کے لیے نہیں۔ موٹر وے ایمرجنسی کے لیے۔ کیونکہ 130 کی ایمبولینس سڑک کے بیچوں بیچ اُلٹی پڑی تھی۔ لوگوں کے منہ سے زور دار آواز میں کلمہ طیبہ بلند ہوا۔لا الہ الا اللہ۔سب کو مریضہ یکسر بھول گئی۔وہ صرف ا اپنے شوہر کو یاد تھی۔معاً کسی نے اُس کے شوہر کے ہاتھ سے سرنج اور انجکشن چھین لیا۔ اُس نے چونک کر دیکھا انجکشن چھیننے والا وہی پوڈری تھا۔مریضہ کا شوہر پاگلوں کی طرح اُس پر جھپٹا لیکن پھر اُسے سرنج بھرتے دیکھ کر یکلخت رُک گیا۔ اسے سب پتہ چل گیا تھا کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔
جب سے ہیروئین مہنگی ہوئی تھی، پرانے پوڈریوں نے ہیروئن کے انجکشن لینے شروع کر دیے تھے اور یہ بات زیادہ تر شہری جانتے تھے۔ "اُس نے بغیر کسی تردد کے پہلی ہی کوشش میں مرتی ہوئی خاتون کو انٹروینس انجکشن لگا دیا۔ سب لوگ اُس خوفناک ایکسیڈنٹ کی طرف متوجہ تھے۔ صرف دو چار لوگوں نے محض ایک دو لمحے کے لیے اُن کی طرف دیکھا اور وہ بھی خاموش رہے۔ کسی کے منہ سے بے اختیار نکلا،
"واہ خدا کی شان!۔۔۔۔۔ کھوٹا سکہ کام آ گیا”
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے