غیر ارادی طور پر میری انگلیوں کی گرفت پین پر اتنی سخت ہو گئی تھی کہ اب باقاعدہ ان میں درد محسوس ہو رہا تھا۔کردار اتنا پیچیدہ تھا کہ میں اس کی شخصیت میں الجھ گیا تھا۔ بات کچھ عجیب سی ہے لیکن سچ ہے کبھی کبھی لکھتے ہوئے کوئی کردار مجھ پر اسقدر حاوی ہو جاتا ہے کہ میں پھر میں نہیں رہتا وہ بن جاتا ہوں اور بعض اوقات تو یہ تبدیلی کئی دنوں تک برقرار رہتی ہے۔
بیوی نے تیسری بار آ کر کھانے کا پوچھا۔ میں نے کھوئی کھوئی سوچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔ بمشکل اس کی بات کو سمجھا۔ اور کہانی پر ارتکاز ٹوٹنے کی وجہ سے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔ اس سے پہلے کہ کچھ کہتا وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔
ایک بار پھر آنکھ مچولی شروع ہو گئی۔ تخیل کے آسمان میں الفاظ ستاروں کے مانند روشن تھے۔ میں کسی بچے کی طرح دوڑتے ہوئے انہیں پکڑنے کی کوشش کرتا تو معلوم ہوتا وہ اتنے قریب نہیں جتنا نظر آتے ہیں۔ ہر بار کی ناکام کوشش مجھے مزید تڑپا دے تھی لیکن الفاظ کی میٹھی میٹھی سی لذت انگیز روشنی سے دل دوبارہ مچل جاتا۔ میں تھکن سے چور ذہن کو سمیٹ کر دوبارہ نئے جذبے کے ساتھ اٹھتا اور الفاظ کا تعاقب شروع ہو جاتا۔
بہت قریب تھا کہ میری ضد سے تھک کر الفاظ ہار مان جاتے اور میں فاتح ٹھرتا لیکن ایک بار پھر مداخلت ہوئی۔ اب کی بار یہ میری ڈھائی سالہ بیٹی تھی۔ اسنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بوتل سے پانی میرے لکھے ہوئے صفحات پر انڈیلا۔ اور مجھ سے بری طرح چمٹ گئی۔ میں نے آگ بگولہ ہو کر چیختے ہوئے بیوی کو پکارا۔ وہ دوڑتے ہوئے آئی۔ میرے چیخنے سے سہم کر روتی ہوئی بچی کو اٹھا کر اسے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی۔
میرا پارہ آسمان پر چڑھ چکا تھا ۔
تم جانتی ہو نا جس وقت میں لکھ رہا ہوتا ہوں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتا۔
کتنا مشکل ہوتا ہے کسی کردار کو سمجھنا اور اسے اچھی طرح سمجھ کر لکھنا۔ کردار کو اسطرح پیش کرنا کہ لوگ اسے اپنے اس پاس محسوس کرسکیں۔ لیکن تم کیا جانو اس بات کو۔ خیر میں بھی۔ یہ باتیں کس سے کہہ رہا ہوں جو عورت سارا دن بچوں میں سر کھپاتی ہو کسی کردار کی زندگی کے احساس کو کیا سمجھے گی۔
میری بیوی نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا۔ اس کی آواز کپکپائی۔ ہاں میں کسی فرضی کردار کی زندگی کے احساس کو نہیں سمجھ سکتی۔ لیکن آپ کو بھی تو سمجھنا چاہئے زندہ کرداروں کے احساسات کو۔ آپ جس معصوم بچی پر اتنا زور سے چلائے ہیں۔ آپ جانتے ہیں وہ کیا چاہتی تھی ؟ وہ آپ کے فرضی کرداروں کی زندگی کے احساس سے بے خبر صرف اپنی محبت کے احساس سے مجبور ہو کر آپ کے پاس آنا چاہتی تھی۔ میں نے اسے سلانے کی بہت کوشش کی لیکن یہ ضد کرتی رہی میں نے بابا کے پاس سونا ہے۔
٭٭٭