ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
حوصلہ افزائی
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
اس کا مقالہ واپس کرتے ہوئے اس نے کہا۔۔
’’میں نے ایک ہفتہ تک اس کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ اچھی کاوش ہے۔ لیکن میں مجبور ہوں۔ یہ ہماری پالیسی کے خلاف ہے‘‘۔ اس نے مقالہ لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ چلتے ہوئے اس نے کہا۔ یہ معیار نہیں سمجھ سکا۔ وہ بولا۔ لکھتے رہئے اور دکھاتے رہئیے۔ جو بھی مقالہ معیار پر پورا اترا شائع کر دوں گا۔ یہ تو مجبوری تھی۔ ورنہ ہم ادیبوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ‘‘۔
کچھ دنوں کے بعد اسے کتابوں کی دوکان پر ایک نئی کتاب نظر آئی۔ دوکاندار نے کتاب دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’مصنف بڑا زیرک اور کہنہ مشق ہے۔ اس نے کتاب دیکھی۔ آہستہ سے بولا واقعی خوب تحقیق کی ہے کافی مواد ہے۔ کتاب کا مصنف وہی تھا جس نے مقالہ واپس کیا تھا اور مضامین بھی ان ہی نکات پر مشتمل تھے جو اس نے اپنے اس مقالہ میں اٹھائے تھے۔ جو اس نے واپس کر دیا تھا۔ اس نے کتاب خریدی اور دوکان سے اتر آیا۔ وہ سوچ رہا تھا۔
مقالہ اور کتاب میں بس فرق نام کا ہی تو ہے یہ کیا کم حوصلہ افزائی ہے۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی روح مصنف کے جسم میں داخل ہو گئی ہو،۔ اور وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی زندگی کو ترس رہا ہو۔‘‘
٭٭
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
فن
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
اس نے نیا نیا چارج لیا تھا۔ کاغذات کھنگالتے ہوئے ایک لفافہ اس کے ہاتھ لگا۔ اس نے لفافہ دیکھا۔ لیکن اس میں خط موجود تھا۔ اس نے خط نکالا۔ یہ کس افسانہ نگار کا خط تھا۔ اس نے پڑھنا شروع کر دیا لکھا تھا۔ ’’اگر میرا مختصر افسانہ معیار پر پورا اترتا تو ضرور شائع ہو جاتا۔ آپ کا طویل افسانہ جو اس ماہ کے شمارے میں چھپا ہے۔ وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دوستوں نے اسے بہت کیا ہے۔ مجھے تو بہت ہی اچھا لگا ہے۔ اختصار کو عمدگی سے وسعت دینا بڑے فن کی بات ہے۔ ایک اور مختصر افسانہ حاضر خدمت ہے شاید پھر کوئی اچھا سا افسانہ پڑھنے کو مل جائے۔ میں واقعی آپ کے فن کا قائل ہو گیا ہوں۔
اس نے خط کو الٹ پلٹ کر دیکھا، خط دو سال پرانا تھا لیکن وہ افسانہ؟!۔ اس کا تو عنوان بھی بدل گیا ہو گا۔ اس نے سوچا اور خط کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کی بہت بڑی مشکل آسان ہو گئی ہو۔۔!
٭٭٭