جتندر بلو نے ماہنامہ ’’شاعر‘‘ بمبئی دسمبر 2011کے شمارے میں مکتوبات کے کالم میں لکھا:
’’شاعر‘‘ کی دیرینہ روایت رہی ہے کہ وہ نت نئے تجربوں سے گزرتا،ادبی اصناف کو طاقت کے انجکشن فراہم کرتا رہتا ہے۔اس مرتبہ پرچے کی فعال ٹیم’’ افسانچہ نمبر‘‘ لے کر حاضر ہوئی ہے۔ اس دستاویز میں پینتیس نر اور مادہ افسانچہ نگاروں کی سوچ ،اپج ،تخلیقی فن اور چونکانے کا عمل افسانچوں کی صورت میں پھیلا ہوا ہے۔ کچھ یوں کہ دنیا تیزی سے بدل کر سمٹ گئی ہے۔ پھر سماجیات کا بھی اصول رہا ہے کہ معاشروں کے سمٹنے پر ہر بشر خود میں سمٹ کر ’’وقت‘‘ کے رحم و کرم پر سانس بھرتا ہے۔ صبح بیدار ہونے سے رات بستر میں جانے تک وہ وقت کی ’’ٹک ٹک‘‘ سے الگ نہیں ہو پاتا۔ جب کبھی اسے کچھ وقت ملتا ہے تو وہ مختصر ترین تخلیقات یا اخباری خبریں پڑھ کر اپنے ذوق جمال،شعور،نئی نئی معلومات ،سماجی اونچ نیچ اور دنیاوی حالات کو جاننے کے در پے رہتا ہے۔افسانچے کی روایت مرحوم منٹو سے شروع ہو کر جوگندر پال سے ہوتی ہوئی ن۔م۔ناگ کے قلم کو چوم کر رونق جمال اور صادقہ نواب سحر تک پہنچی ہے۔ یقیناً یہ صنف مزید جڑ پکڑ کر پھلے پھولے گی۔ چونکہ نئی نئی ٹیکنالوجیوں کے آ جانے پر دنیا موبائل فون میں سمٹ آئی ہے۔ لہٰذا افسانچوں کو پڑھتے ہوئے کسی سچائی کا ہلکا سا ، عنصر، اشارہ، عکس، پرتو یا زیادتی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے جمالیات ،فنی صلاحیتوں اور کرافٹ کا کہیں سرا غ نہیں ملتا۔امید ہے کہ افسانچہ نویس اس طرف متوجہ ہوں گے۔ کہ یہ صنف پچھلے ساٹھ برسوں سے اپنی آن بان شان کے ساتھ رائج ہے۔ مگر یہ پوپ کہانی(pop) کس مرض کی دوا ہے؟ بے رنگ،سپاٹ،بے سروپا،محض جملے بازی،مواد سے یکسر عاری۔ کہانیاں پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ وہ افسانہ نگار جو اب افسانہ لکھنے کے قابل نہیں رہے،وہ پوپ کہانیاں لکھ کر اپنے تخلیقی مینو پاز(menopause) (وہ عورت جو بچہ جننے کے قابل نہیں رہتی) کا ثبوت دے رہے ہیں۔عین ممکن ہے کہ وہ پوپ کہانیاں لکھنے کے بعد مام (mum) کہانیاں بھی لکھنا شروع کر دیں‘‘۔
‘‘شاعر‘‘ کے اسی شمارے میں کوثر صدیقی صاحب لکھتے ہیں:
’’افسانے کا مخفف ’’افسانچہ‘‘ ہے اور افسانچہ ’’ سمٹے تو دل عاشق‘‘ کی طرح افسانے کی روح ہے۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔چالیس سال سے تو میں بھی لکھ رہا ہوں لیکن آج کل نئی اصناف پر اپنے نام کا لیبل لگا کر ایجاد بندہ کے جنون کے تحت خود کو موجد قرار دینے میں اکثر قلم کار اپنی توانائی صرف کر رہے ہیں۔ انہی میں مجھے مقصود الہٰی شیخ بھی نظر آئے۔ ایک رائج صنف کو ’’پوپ‘‘ (یا پاپ) کا نام دے کر خود کو اس نئی صنف کا موجد قرار دینا مضحکہ خیز ہے۔ مقصود صاحب بزرگ اور معتبر قلم کار ہیں۔ انہیں اپنے مرتبے اور مقام کا لحاظ کرنا چاہئیے۔راقم الحروف نے آج سے چالیس سال پہلے درجنوں منی کہانیوں کے عنوان سے افسانچے لکھے جن کا کچھ انتخاب میرے افسانوی مجموعے’’ آگ (مطبوعہ 2002 ) میں شامل ہیں۔ چند نمونے آپ کے ملاحظے کے لئے منسلک کر رہا ہوں۔ آپ انہیں سامنے رکھ کر مقصود الہٰی شیخ صاحب کے مجموعے’’ پوپ کہانیاں‘‘سے تقابلی جائزہ فرمائیں۔ آپ کو محسوس ہو گا کہ پوپ کہانیوں کا (thought) اور فارمیٹ میری منی کہانیوں کی طرح ہے۔ہو سکتا ہے انہیں میری منی کہانیاں پڑھ کر اسی طرح کی منی کہانیاں کہہ کر ’’ پوپ کہانیاں‘‘ کے نام سے نئی صنف کے موجد بننے کا خیال آیا ہو۔بہر کیف انہوں نے میری کہانیاں نہیں پڑھی ہوں تب بھی ایک رائج صنف پر نئے نام کا لیبل لگانا کہاں تک جائز ہے۔اہل نقد و نظر اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ مقصود الہٰی شیخ صاحب سے مجھے پرخاش نہیں ہے۔ ایک حقیقت تھی جسے ظاہر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔‘‘
دو سال قبل جب جناب مقصود الہٰی شیخ نے پوپ کہانی کا ڈول ڈالا تو ادیبوں کا جو اول اول ردِ عمل مجھے پڑھنے کو ملا وہ میں نے درج کر دیا ہے۔ سنا ہے کہ ماہنامہ’’ گلبن ‘‘میں اس موضوع پر بہت سارے لوگوں نے اس کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا اور جب مقصود الہٰی شیخ کے جواب دینے کی باری آئی تو جریدے کے ایڈیٹرنے بحث کو بند کر دیا۔ شیخ نے احتجاج کیا لیکن اس کا کوئی خاطرخواہ اثر نہ ہوا۔ مجھے اس بحث سے کوئی خاص دلچسپی نہیں البتہ اتنا کہنا ضرور چاہوں گا کہ اپنے ہمعصروں سے بات کرتے وقت،لکھتے وقت احتیاط ،تحمل اور بردباری سے ہاتھ نہیں دھونا چاہئیے۔جناب ڈاکٹر صفات علوی نے بھی پوپ کہانی کی طویل ریسرچ کے بعد ایک سیر حاصل مضمون لکھا۔یہ مضمون انتہائی ژرف نگاہی سے لکھا ہے جو احتیاط ،بردباری اور علمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
عکاس انٹرنیشنل کے ایڈیٹر جناب ارشد خالد نے عکاس انٹرنیشنل ۸۱( افسانچے کا سفر صفحہ نمبر ۵) کے اداریے میں لکھا ہے ’’’’پوپ کہانی کی ایجاد کے نام سے ایک بچکانہ دعویٰ سامنے آیا ہے۔ ہمیں ایسے کسی مدعی سے کوئی غرض نہیں لیکن انہوں نے غیر ضروری اور بے جا اصرار کر کے ایک ایسا ماحول بنا دیا کہ اس موضوع پر بنیادی نوعیت کا مواد جمع کرنے کا موقع مل گیا۔‘‘
بچکانہ حرکت پر تو لوگ باگ یا تومسکرا کر یا ناک بھوں چڑھا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی حرکات کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ شیخ صاحب کی کوئی بچکانہ حرکت نہ تھی۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے۔ اور میں ان کے اس کام پرداد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ان کے اس قدم نے بہت سارے لکھنے والوں کو فکری سوالات کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ادیبوں نے باقاعدہ تحقیق کی راہ اپنائی اور مکالمے کو آگے بڑھانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ اور یہ ایک اچھی اور مثبت پیش رفت ہے۔ ماضی میں آزاد نظم اور نثری نظم کے حوالے سے اس کی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا گیا اور اب تک لکھا جا رہا ہے۔کیا اب آزاد اور نثری نظم نے ادب میں اپنا مقام متعین نہیں کرا لیا؟ پوپ کہانی کو بھی اسی انداز میں لینا چاہیے۔تا ہم ادیبوں کو اختلاف رائے کے وقت متانت اور سنجیدگی کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ وقت ہر چیز کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ اگر شیخ صاحب اپنا سا دعویٰ نہ کرتے تو پھر خلیل جبران،سعادت حسن منٹو ، جوگندر پال اور دیگر لکھنے والوں کا نام نئی نسل کے سامنے کیسے آتا؟
اصل سوال یہ نہیں کہ’ ’پوپ کہانی‘ ‘بطور صنف قبول ہوگی یا نہیں اور اس کا موجد کون ہے؟ موجودہ صورت حال میں اس کو شعریات ( ُPoetics) کی کسی پرانی یا نئی صنف کے مقابل لانا مناسب نہیں کہ شعریات کی اصناف ایک نہایت جکڑ بند (straitjacket) اصولوں پر کاربند ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ اس کی اصناف خالصتاً شاعر کی ذہنی پیداوار کا نتیجہ(product)ہونے کی وجہ سے تجریدی ہوتی ہیں جو نہ صرف خود شاعر بلکہ قاری کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی سوچ کے ساتھ اپنی تفسیر بدلتی رہتی ہیں۔ لیکن نثر ( فکشن ہو یا غیر فکشن) کی اصناف میں ایسی لچک نہیں ہوتی اور اس کے نتائج منطقی اصول کا لحاظ رکھتے ہیں اسی وجہ سے تجریدی کہانیاں یا کہانیاں ادب برائے ادب لکھنے کا تجربہ زیادہ کامیاب نہیں ہوا۔ وہ کہانیاں اور افسانے آج بھی کامیاب ہیں جو انسان کی زندگی اور اس سے جڑے ہوئے ماحول کو سامنے لاتے ہیں۔ جہاں تک کہانی اور افسانے کا فرق ہے وہ نہایت باریک و لطیف( tenuous) ہے۔ جو لوگ منی کہانیاں/ افسانچے لکھ رہے ہیں اور منٹو کو اس صنف کا موجد ٹھہراتے ہیں وہ بھی صحیح نہیں۔ خود منٹو نے ان کو کوئی مخصوص نام نہیں دیا۔ اگر غور کیا جائے تو یہ یہاں وہاں وقتی طور پر کسی معمولی یا غیر معمولی واقعہ کی یاد داشت یا نوٹ کے طور پر تحریر یں لگتی ہیں۔ لانگ شارٹ اسٹوری (Long short story) البتہ اپنی جگہ بطور صنف قابل قبول ہے۔
1947 میں سعادت حسن منٹو نے فسادات کے موضوع پر چھوٹے چھوٹے افسانچے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے عنوان سے لکھے تھے۔ اس اعتبار سے اولیت کا شرف منٹو کا حاصل ہے۔ لیکن وہ سب ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔ اور یہ روایت منٹو کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ ’’نئے چراغ‘‘ کے ذریعے مظفر حنفی نے اس روایت کو تشکیل نو عطا کی۔ ان افسانچوں کے ساتھ ان کے خالق کے نام کی جگہ ایک فرضی نام’’ ارسطو ثانی‘‘ دکھائی دیتا ہے۔ تحقیق و جستجو کے نتیجے میں انکشاف ہوا کہ ’’ ارسطو ثانی‘‘ پس پردہ ڈاکٹر مظفر حنفی اور حسن بشیرؔ تھے۔ در اصل یہ سلسلہ ’’نئے چراغ‘‘ کے ابتدائی شمارے جنوری 1959 ہی سے حسن بشیرؔ مرحوم نے جاری کیا تھا۔ پہلے شمارے میں ان کے تین افسانچے شامل ہیں دوسرے شمارے فروری 1959 میں کل چھ افسانچے ہیں۔ جن میں ’’ روشنی کے بعد‘‘ اور ’’ لوک لاج‘‘ مظفر حنفی کے تحریر کردہ ہیں۔ مارچ 1959 کے شمارے میں مظفر حنفی کے سات افسانچے شامل ہیں جن کے عنوانات ہیں’’ باقی کل،پاگل اور پولیس،اخلاقیات،پیمانے،اپنے،انسان اور برہمن اور کسوٹی‘‘۔ چوتھے شمارے مئی1959 میں مظفر حنفی کے چھ افسانچے’’ چھچھور،شریف آدمی، پڑوسی، گنتی داناؤں کی، بہت زیادہ عقل اور سلام اور داد‘‘ شامل ہیں۔
پانچویں ،چھٹے اور ساتویں شمارے میں حسن بشیرؔ مرحوم کے افسانچے ہیں۔البتہ آٹھویں شمارے (دسمبر1959) میں مظفر حنفی کے پانچ افسانچے’’ ساختہ بے ساختہ، بلا عنوان،دیا دھرم،دھکے اور خلوص کار‘‘ ملتے ہیں۔ اس کے بعد والے شماروں میں ’’ مشاہدات ارسطو‘‘ کا سلسلہ نہیں ملتا۔ مظفر حنفی کے تحریر کردہ یہ بیس مختصر ترین ’’افسانچے‘‘ اسی عنوان سے ان کے افسانوی مجموعے ’’ دیدہ ٗ حیراں‘‘ میں شامل ہیں۔
( ڈاکٹر مظفر حنفی، حیات ،شخصیت اور کارنامے۔۔از ڈاکٹر محبوب راہیؔ۔موڈرن پبلشنگ ہاؤس،9 گولا مارکیٹ،دریا گنج،دہلی …110002زیر اہتمام پریم گوپال متل 1987ء)
اب میں اپنے مضمون کی طرف آتا ہوں۔اس سال برمنگھم کی ایک معتبر ادیب ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی کہانیوں کا مجموعہ شائع ہوا اور محترمہ نے ایک نسخہ ہمیں بھی عطا کیا۔ اس افسانوی مجموعے کا عنوان ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘(پوپ کہانیاں) ہے۔سر ورق پر داستان گوئی کا شجرہ بنا ہوا ہے۔اس میں دکھایا گیا ہے کہ داستان گوئی ابتدا سے اب تک کن مراحل سے کس کس نام سے گزری اور موجودہ شکل کیا ہے۔ مجھے سرورق پسند آیا اور آرٹ ڈیزائنر کو داد دینے کو جی چاہا۔ پس ورق پر مصنفہ نے لکھا ہے :
"My main point about the pop story is that writers need to write for readers, which means keeping their fiction entertaining and readable. I like to read and approach literature first from the standpoint of a reader.”
یہ کتاب’’ بک ہوم، لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ اس کا انتساب مصنف نے اپنے شریک سفر جناب اسماعیل اعظم کے نام کیا ہے۔ کتاب کا پہلا مضمون ’’پوپ میوزک سے پوپ کہانی تک‘‘ ڈاکٹر صاحبہ نے خود لکھا ہے۔انہوں نے پوپ کہانی کے سلسلے میں اپنی ریسرچ کی روداد لکھی ہے اور یہ خاصے کی چیز ہے۔جب کہ دوسرا مضمون’’ پوپ کہانی اور رضیہ اسماعیل کی کہانیاں‘‘ اردو ادب کے ایک معتبر ادیب جناب حیدر قریشی نے لکھا ہے۔ حیدر قریشی ہر نتھو خیرے پر نہیں لکھتے۔ چیزوں کو سرسری نہیں لیتے۔ اور جب کسی ادب پارے یا شخصیت پر لکھتے ہیں تو بہت محنت سے لکھتے ہیں اور لکھتے وقت وہ دوستی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے بلکہ ادب کو ادب کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ میں ان کا مضمون پڑھتا رہا اور محظوظ ہوتا رہا۔
جناب حیدر قریشی نے پوپ کہانی کے حوالے سے چند سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا
’’(۱)پوپ کہانی کے بنیادی خد و خال کیا ہیں؟
(۲) جس طرح افسانچہ،افسانہ،ناولٹ اور ناول کی پہچان بالکل سامنے کی بات ہے اور قابلِ فہم ہے، اسی طرح کہانی کو افسانچہ یا افسانہ سے کس طرح الگ پہچانا جا سکتا ہے؟ کسی مابہ الامتیاز اور کسی تخصیص کے بغیر پوپ کہانی کو افسانچہ یا افسانے سے الگ کر کے کیونکر دیکھا جا سکتا ہے؟‘‘
جناب حیدر قریشی کے سوالات کا جواب نہ تو جناب شیخ صاحب،ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نا ہی دیگر پوپ کہانی لکھنے والوں نے دیا ہے۔ان باتوں یا سوالات سے قطع نظر ادیب کہانیاں،افسانے یا افسانچے لکھ کر انہیں ’’پوپ کہانی‘‘ کا عنوان دے کر شائع کرا رہے ہیں۔البتہ پوپ کہانی کی ہیئت اور تکنیک کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات ناقدین ادب کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔
کتاب کا تیسرا مضمون’’ خواندنی اور جاذبِ نظر کہانیاں‘‘ اردو ادب کے ایک محترم اور جانے پہچانے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا لکھا ہوا ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحبہ کے نصف بہتر جناب اسماعیل اعظم کے انگریزی پوپ کہانیوں کے دو ترجمے شامل ہیں۔ ڈاکٹر رضیہ نے پوپ کہانی کی تحقیق کے دوران امریکی مصنف کنگ وینکلس کی کہانیوں کو پڑھا اور ان کی دو کہانیوں کا ترجمہ جناب اسماعیل اعظم سے کرایا۔ اسماعیل اعظم صاحب نے مہارت اور خوبصورتی سے ترجمہ کیا۔ اور میں ان تراجم کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ تاہم ان کہانیوں نے مجھے ہر گز ہرگز متاثر نہیں کیا۔ان کہانیوں کو علامتی یا نیم علامتی کہا جا سکتا ہے۔ان سے بہتر کہانیاں تو پاکستان اور ہندوستان کے ادیبوں نے لکھی ہیں۔ نجانے ڈاکٹر رضیہ کی نظر ان پر کیوں نہیں پڑی۔ لیکن ایک بات صاف ظاہر ہے کہ امریکی ادیب تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک کے ادیبوں کو اظہار رائے کی آزادی کا بڑی شد و مد سے لیکچر دیتے اور پروپگنڈا کرتے ہیں۔ لیکن یہ غیر ملکی ادیب جب خود لکھتے ہیں تو ان کے پیش نظر ملکی مفادات سرفہرست ہوتے ہیں۔میرے نزدیک اچھا ادیب وہ ہے جو اپنے حصے کا سچ بلا خوف و خطر لکھے۔مجھے کنگ کی کہانی کے آخر میں لکھے نوٹ سے بہت مایوسی ہوئی۔ انہوں نے تاکیدی نوٹ لکھا ہے کہ:
’’ اس کہانی میں جس سوسائٹی کی منظر کشی کی گئی ہے۔ امریکی معاشرے سے اس کی کوئی مماثلت نہیں‘‘۔
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل برطانیہ کے اردو ادب میں ایک معتبر نام ہے۔انہوں نے شاعری سے ابتدا کی اور ان کے پانچ شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔جب لکھنے پر کمر بستہ ہوتی ہیں تو بہت محنت سے اور بہت اعتماد سے لکھتی ہیں۔انہیں لکھنے کی تحریک اور ترغیب ملے تو لکھتی ہیں۔ بیسویں صدی کے اختتام پر مکالماتی اور۔۔ غزلیں لکھنے کی مہم چلی تو محترمہ نے بھی طبع آزمائی کی اور ایک شعری مجموعہ منظر عام پر لے آئیں۔ اس کے بعد جناب حیدر قریشی نے ماہیے کی نشاطِ ثانیہ کا ڈول ڈالا اور اپنے ہمعصروں کو ماہیے لکھنے کی ترغیب دی۔ نا صرف ترغیب دی بلکہ ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ہند و پاکستان کے بہت سارے شاعروں نے ماہیے لکھے اور کئی مجموعے شائع ہوئے۔ ڈاکٹر رضیہ نے بھی بہت اچھے ماہیے لکھے۔ ان ماہیوں کا پسِ منظر مغرب تھا۔ان کی اس جدت کا اچھا تاثر تھا۔
گو ڈاکٹر رضیہ اس بات پر اصرار کرتی ہیں کہ انہوں نے جناب مقصود الہٰی شیخ سے متاثر ہو کر پوپ کہانیاں نہیں لکھیں۔ قطع نظر اس کے کہ شیخ صاحب پو پ کہانیوں کے موجد ہیں یا نہیں اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں کہ ان افسانچوں کو ’’پوپ کہانی‘‘ کا عنوان دے کر پوپ کہانی کا ڈول شیخ صاحب نے ہی ڈالا تھا۔ اب اس کو شعوری یا غیر شعوری طور پر ڈاکٹر صاحبہ نے آگے بڑھایا ہے۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر رضیہ نے ادب کو بطور فیشن لیا ہے۔کہ لوگ لکھ رہے ہیں اور اگر وہ لکھ سکتے ہیں تو میں ان سے بہتر لکھ سکتی ہوں۔ڈاکٹر صاحبہ نے اچھی مکالماتی غزلیں،خوبصورت ماہئیے اور اب عمدہ پوپ کہانیاں لکھی ہیں۔یہ کہانیاں قاری کو دعوتِ فکر دیتی ہیں۔سوچنے پر آمادہ کرتی ہیں۔
میری رائے اقلیتی رائے ہو سکتی ہے تاہم میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ محترمہ’’ فیشن ‘‘سے متاثر ہو کر نہ لکھیں۔ وہ اپنے عصری مسائل کے حوالے سے لکھیں۔تو بہت اچھا ہو گا۔ مصرعہ طرح پر غزل کہنے سے خراج تحسین تو پہلے اور اصل تخلیق کار کو ہی ملتا ہے۔
اب میں ڈاکٹر رضیہ کی کتاب کی طرف آتا ہوں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے اورپاکستان و ہندوستان کے اردو ادیبوں نے اپنی اپنی عملی استعداد اور استطاعت کے مطابق افسانے اور کہانی کی تعریف لکھی ہے۔ تاہم مجھے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی کہانی کی تعریف(definition)اچھی اور انوکھی لگی۔ ان کی کتاب کا عنوان ہے،: ‘‘کہانی بول پڑتی ہے‘‘ یعنی اگر بول پڑے تو کہانی۔۔۔ اور اگر نہ بولے اور اسے بلانا پڑے تو وہ اافسانہ۔ کیا خوبصورت موثر اور دلچسپ تشریح ہے۔ڈاکٹر رضیہ نے پوپ کہانیاں لکھنے سے پہلے خاصی تحقیق کی ہے۔ پوپ میوزک سے پوپ کہانی کا سرا جوڑنے کے لئے انہوں نے مشرقی موسیقی سے متعلق لٹریچر کا عمیق گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس سلسلے میں ان کی ریسرچ کافی دلچسپ ہے۔ اس کے بعد انہوں نے انگریزی اور امریکن لٹریچر میں پوپ کہانی سے متعلق ادب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا۔ جن ادیبوں کی کہانیاں انہوں نے پڑھی ان کے نام بھی گنوائے۔ اسی مضمون میں انہوں نے مغربی ادیبوں کے حوالے سے پوپ کہانی کی تعریف بھی۔ بیان کی۔
زیر نظر کتاب کی ساری کہانیاں میں نے پڑھی ہیں۔ موضوعات اچھوتے ہیں اور انہیں بڑے سلیقے سے کہانی میں سمویا گیا ہے۔ نجانے ڈاکٹر رضیہ کو پوپ کہانیاں لکھتے وقت کنگ وینکلس کا نوٹ کیوں یاد نہ آیا۔ ڈاکٹر رضیہ نے یہ کہانیاں اردو میں لکھی ہیں اردو ادب کے قارئین کے لئے لکھی ہیں۔ لیکن اکثر کہانیوں کے عنوانات انگلش میں ہیں اور مواد میں بھی انگریزی الفاظ کا بکثرت استعمال کیا گیا ہے۔ اندھا دھند استعمال کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔ڈاکٹر
رضیہ اسماعیل نے اپنی کتاب میں صفحہ نمبر ۳۲ پر لکھا ہے کہ
’’ عام اردو تحریر کے بر عکس کیا انگریزی الفاظ کے بکثرت استعمال سے پوپ کہانی کی الگ پہچان بنائی جا سکتی ہے یا نہیں؟( اس خیال کے پیش نظر میں نے اپنی لکھی ہوئی کہانیوں میں انگریزی الفاظ بکثرت استعمال کئے ہیں) مگر یہ معاملہ بحث طلب ہے کہ ایک عام قاری( جس کے لئے کہانی لکھی جا رہی ہے) اگر اس کا انگریزی زبان کا علم محدود ہے تو کیا وہ اس سے حظ اٹھا سکے گا؟‘‘ میرے خیال میں اردو ادب کے قارئین انگلش زدہ اردو میں لکھی گئی کہانیوں سے کچھ زیادہ حظ نہ اٹھا سکیں گے۔ڈاکٹر صاحبہ نے بعض حساس موضوعات پر جس جرات اور سلیقے سے کہانیاں لکھی ہیں وہ اردو ادب عالیہ کا حصہ بن سکتی تھیں اگر ان میں مزید محنت کی جاتی( زبان و بیان کے حوالے سے)۔لیکن شاید ڈاکٹر صاحبہ عجلت میں تھیں اور یہ بتانا چاہ رہی تھیں کہ وہ اپنے عمعصروں سے بہتر پوپ کہانی لکھ سکتی
ہیں اور اس کے خد و خال بھی متعین کر سکتی ہیں۔
ڈاکٹر رضیہ نے اپنے مضمون نے آخر میں لکھا ہے: ’’ زندگی ایک تجربہ گاہ ہے اور میرے خیال میں تجربے میں بہتری اور نکھار کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔‘‘ مجھے ان کی ان سطور سے مکمل طور پر اتفاق ہے۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ اب ڈاکٹر صاحبہ مزید پوپ کہانیاں نہیں لکھیں گی بلکہ ان کا اگلا پڑاؤ افسانوں کا ہے۔ وہ نکھار پر وقت صرف کرنے سے زیادہ تجربے کے میدان میں کام کرنا پسند کرتی ہیں۔ میں مستقبل قریب میں ان کے افسانوی مجموعہ کو منظر عام پر آتے دیکھ رہا ہوں۔
٭٭٭