سوال یقیناً ایک ہی ہے مگر بار بار پوچھا گیا ہے۔
اس سوال کا جواب یقیناً ایک نہیں ہے۔
پوپ کہانی ہے۔
آناً فاناً ترنم ریز، اشک بھرے یا کسی گمبھیر لمحہ پر گرفت!۔
نئی رت کا گجر۔۔۔۔۔۔
تارا ٹوٹنے کا سماں !۔
پوپ کہانی کیا ہے ؟
حساسیت کا پرتو!۔
تتلی یا جگنو کا مٹھی میں آ جانا
دست پشت پر بھڑ کے کاٹنے کی تکلیف کا بیان !۔
پوپ کہانی کیا ہے ؟؟
تتر بتر سماج پر زد لگاتا ، شاں (شائیں ) کرتا،گزرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے سامنے معلق اور تھرتھراتا،۔
کوئی سا لمحاتی منظر
مگر دل و دماغ میں گڑ جانے والا دیرپا عکس!!!۔
جاگ جاگ گاتا، جگاتا۔
کبھی ہنساتا، کبھی رلاتا پل۔
سوچو تو عمل کا، قلم کا رخ بدلنا لازم ہے۔
ورنہ اعلیٰ مرتبت شخصیتوں کی طرح غربت و افلاس کی کلفتوں پر بے حس ہو کر،۔
کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے،۔
کہو اللہ ہو
اور کچھ نہ لکھو۔
تخلیقیت ایک قدرتی عمل ہے۔
قلم سے نطق و سماعت کا ناتا ہے۔
میرے نزدیک یہ عمل لگے بندھے قواعد کا پابند نہیں ہے۔
یہ دریا اپنا راستہ خود طے کرتا ہے۔
کہیں کٹاؤ
کہیں بہاؤ
آبشار کی صورت
جھاگ اڑاتا
پہاڑوں سے نشیب کی جانب رواں !۔
کہ
وقت رکتا نہیں
تخلیق کار تھمتا نہیں !۔
شاید
کچھ موضوعات کی نشاندہی کرنے سےغبار چھٹ جائے۔
فرقہ واریت کی سونامی کے خلاف
خوابیدہ یا نیم خوابیدہ یا ہڑبڑا کر جاگ اٹھتا قلمی احتجاج
طبقاتی اونچ نیچ کے خلاف آواز
بھوک افلاس
یعنی
سستی عصمت مہنگی روٹی سے کراہت دلاتا
ٹوٹتی اقدار
سماجی، سیاسی مسائل کی نشاندہی کرتی عبارت
آج کی حقیقت!۔
پوپ کہانی میں اختصار یا طوالت کا سوال نہیں ہے۔ ایک کہانی چار سطر کی تو کوئی چار صفحوں پر پھیلی ہوئی۔ متعدد قلمکار اس صنف میں لکھ رہے ہیں۔ کیسے کسیے گمبھیر مسئال ہیں جن کے حوالے سے پوپ لکھنے والے پھاؤڑا چلانے کے بجائے ہلکی سی چٹکی میں حساسیت نہ جگا دیتے ہوں ؟
سادگی سے بات قاری تک پہنچا دی جاتی ہے۔
تالاب میں چھوٹی سی کنکری سے پیدا ہونے والا چھوٹا سا دائرہ بڑھتے بڑھتے کناروں تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ مشاہدہ حقیقت ہے یا نہیں ؟ کچھ لوگ اداس ہو سکتے ہیں ،۔
جنگل اداس نہیں ہے۔
پوپ کہانی لکھی جا رہی ہے اور اب روکے نہیں رکے گی !!۔
آخر میں گذارش کروں گا اس نو زائیدہ صنف سے صرف نظر نہ کیجیے۔ اسے پڑھئیے، رائے دیجئے اور خود بھی پوپ کہانی لکھئیے۔ یہ اردو زبان کی خدمت ہو گی۔ نئی تبدیلیاں زبان کی آبیاری کرتی ہیں اسے زندہ رکھتی ہیں۔
٭٭٭