پوپ کہانی۔۔۔ امین صدر الدین بھیانی

ناشتے کی میز پر بیٹھتے ہوئے بیریسڑ جمیل احمد پاشا نے ایک ہاتھ سے بٹر سلائس اور دوسرے ہاتھ سے صبح کا تازہ اخبار اٹھایا لیکن اخبار کے صفحہ اول پر چھپی ایک خبر کی سرخی اور اس کے ساتھ لگی تصویر دیکھ کر سلائس اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
یہ اسی نوجوان کی تصویر تھی جو کل صبح اس کے دفتر آ کر صرف اسی سے ملنے کی ضد کرتا رہا اور اپنی ضد پر اڑا رہا اور بلا آخر تھک ہار کے اسے چیمبر میں آنے کی اجازت دے دی گئی۔
کمرے میں داخل ہونے والا وہ ستائس اٹھائس سالہ نوجوان اپنے پیراہن، چہرے و چال ڈھال سےکسی نچلے متوسط طبقے مگر شریف خاندان کا فرد دکھائی پڑتا تھا، البتہ اس کی آنکھیں گہری سُرخ ہو رہیں تھیں اور ان میں شدید بے چینی مترشح تھی۔
اپنی قمیض کی جیب سے ایک تہہ کیا ہوا لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا: یہ سر بند لفافہ آپ کل صبح کا اخبار دیکھنے کے بعد کھول کر پڑھ لیجیئے گا۔ آپ کی ایمانداری کی بے پناہ شہرت کے سبب آپ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ یہ لفافہ کل صبح کا اخبار پڑھنے سے قبل ہرگز نہ کھولیں گے، بس مجھے اتنا ہی کہنا تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہہ پاتا، نوجوان تیزی کے کمرے کا دروازہ کھول کر نکل گیا۔
اس نے وہ لفافہ میز کی دراز میں ڈالا اور عدالت کے لیے نکل پڑا۔ پھر مصروفیات نے اس کے ذہن سے لفافے کا خیال نکال ہی دیا۔
اخبار کی اُس خبر میں نہ جانے کیا بات تھی کہ وہ ناشتہ بھول کے اخبار کو ہاتھ میں دبائے ایک دم سے ہی دوڑ پڑا۔ دفتر پہنچ کر میز کی دراز سے وہ لفافہ ڈھونڈا اور اس کے اندر موجود ایک تہہ شدہ کاغذ باہر نکالا اور اسے کھول کر پڑھنے لگا:
جناب بیریسڑ صاحب
آج کے اخبار میں یہ خبر پڑھ ہی چکے ہوں گے کہ میں اب اس دنیا سے جا چکا ہوں۔ لہٰذا اب میں آپ کو بعد از مرگ اپنا وکیل مقرر کرتا ہوں۔ اس خط کے ہمراہ بطور ایڈوانس پچاس ہزار روپے کا چیک ہے۔ یہ رقم میں نے اپنی بیوی کے زیورات بیچ کر حاصل کی ہے۔
آپ نے خبر میں پڑھ ہی لیا ہو گا کے میری موت ایک انتہائی تیز رفتار کار سے کچل جانے سے ہوئی۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہو چکا ہو گا کہ وہ کار ایک بڑے اور امیر ملک کے سفارتخانے کے ایک اہم ترین افسر کی ہے، لہٰذا اب آپ کو میرے ورثاء و لواحقین کی جانب سے ہرجانے و خُون بہا کا دعویٰ دائر کرنا ہے۔
اب یہ آپ کا کام ہے کہ میری موت کا بڑے سے بڑا ہرجانہ و خون بہا وصول کر کے میرے پسماندگان کو دلوائیں اور اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے اور حاصل ہونے والی رقم کا پچیس فیصد بطور فیس کے رکھ سکتے ہیں۔
آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ میں یہ صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ جو ملکی حالات ہیں اور اپنی دیرینہ بیروزگاری کے سبب میرے لیے اپنے خاندان کو نانِ شبینہ فراہم کرنا بھی ممکن نہیں البتہ میری یہ قربانی میرے خاندان کے مَصائِب دور کر دے گی اور میرا کیا ہے، مر تو میں ہر لحظہ گھٹ گھٹ اور کُڑھ کُڑھ کر رہا ہی ہوں اور جیتے جی تو اپنے خاندان والوں کے لیے شاید کبھی بھی کچھ نا کر پاؤں تو کیوں نا یوں مر کے ہی اُن سب کو کروڑ پتی بنا جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے