منی کہانیاں ۔۔۔ جوگندر پال

___________________________
بچہ ہے بے چارہ
___________________________

’’مفلوک الحال والدین کے پاس بیٹھا بچہ اپنے اسکول کورس کی کتاب پڑھ رہا ہے۔‘‘
’’اچھے لوگ ہمیشہ اچھی خوراک کھاتے ہیں۔ اجلے کپڑے پہنتے ہیں۔ ہوا دار مکانات میں رہتے ہیں۔ ‘‘
’’بکواس بند کرو‘‘ اس کے مفلس باپ سے نہ رہا گیا۔
’’بگڑتے کیوں ہو؟‘‘ لڑکے کی ماں نے اپنے شوہر کو سمجھایا ’’بچہ ہے بیچارہ‘‘

___________________________
بھوکا
___________________________

’’جب میری جیب پیسوں سے بھری ہوتی ہے تو میں مزے سے ہوٹل امپریل میں جا کر نہایت تہذیب سے کھانا کھاتا ہوں۔ ‘‘
’’اور جب خالی ہوتی ہے تو متمدن لوگوں سے چھین جھپٹ کر ان کی تہذیب کھا لیتا ہوں۔ ‘‘

___________________________
کیڑے
___________________________

اس عالی شان عمارت کے اندر سیٹھ کے پیٹ سے کیڑے برآمد ہوئے۔ باہر کوئی بڈھا بھوک سے تڑپ تڑپ کر کہہ رہا تھا ،جی چاہتا ہے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اس سیٹھ کے پیٹ میں جاگھسوں۔

___________________________
فاصلے
___________________________

میں ان دنوں کئی بار اپنے راکٹ میں بیٹھ کر چاند تک ہو آیا ہوں ، لیکن ایک مدت ہو گئی دس قدم چل کر اپنے بھائی سے ملنے نہیں گیا۔

___________________________
کچا پن
___________________________

’’بابا تم بڑے میٹھے ہو۔‘‘
’’یہی تو میری مشکل ہے بیٹا! ابھی ذرا کچا اور کھٹا ہوتا تو جھاڑ سے جڑا رہتا۔‘‘

___________________________
نقطہ نظر
___________________________

میں اندھا تھا۔
لیکن جب ایک برٹش آئی بنک سے حاصل کی ہوئی آنکھیں میرے ساکٹس میں فٹ کر دی گئیں تو مجھے دکھائی دینے لگا اور میں سوچنے لگا کہ غیروں کا نقطۂ نظر اپنا لینے میں بھی اندھا پن دور ہو جاتا ہے۔

___________________________
بابا
___________________________

بابا تم اپنی آنکھیں ہر دم بند کیوں رکھتے ہو۔‘‘
’’باہر اندھیرا ہو بابا ، تو کھلی آنکھوں سے بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ مگر باہر روشنی ہو تو بند آنکھیں ہو تو بند بند آنکھوں میں بھی محسوس ہوتی رہتی ہے۔‘‘

___________________________
اصل و نقل
___________________________

’’میری ماں کو مرے پندرہ برس ہو لئے تھے۔
آج میں نے اس کی تصویر دیکھی اور رنجیدہ ہو کر سوچنے لگا۔
تصویریں ہی اصل ہوتی ہیں جو رہ جاتی ہے۔ ماں تو محض ایک گمان تھی جو گزر گئی۔‘‘

___________________________
میل ملاپ
___________________________

’’میرے کئی غرض مند جان پہچان والوں کو مجھ سے شکایت ہے کہ وہ جب بھی ٹیلی فون پر مجھ سے رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں میرا ٹیلی فون اس وقت لگا ہوا ہوتا ہے۔
میں انھیں کیسے سمجھاؤں کہ اس سارے دوران میں بھی اپنی کسی غرض کی خاطر کسی اور سے رابطے کی کوشش میں جٹا ہوتا ہوں اور حد یہ ہے کہ اس کا فون بھی مجھے سدا ویسے ہی لگا ہوا ملتا ہے۔ شاید وہ بھی!‘‘

___________________________
غرقاب
___________________________

’’میں ایک عرصہ سے ایک سمندری جہاز میں نوکری کرتا ہوں۔
پہلے پہل جب میرا سمندر سے رابطہ ہوا تو مجھے لگتا تھا میں اس میں ڈوب جاؤں گا۔
مگر اب مجھے لگتا ہے کہ سمندر ہی میرے اندر ڈوب گیا ہے۔‘‘

___________________________
محمد غوری
___________________________

’’اس نے ہندوستان پر کئی حملے کئے اور ہر بار اپنی منہ توڑ ناکامی کے باوجود ہمت نہ ہاری اور بالآخر اپنے تازہ حملے میں دہلی سر کر لی اور یہاں سکریٹریٹ میں کلرک پکی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘

___________________________
ایک طویل کہانی
___________________________

’’آج بھی میرے ساتھ وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ آج بھی میرے ساتھ کچھ نہ ہوا۔‘‘
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے