سچ ۔۔۔ محمد خاور

وہ انحراف پر افسانے پڑھ پڑھ کر کڑھ رہا تھا۔ اتنے بڑے بڑے نام اور کس بے توجہی سے افسانے لکھ کر پیش کر گئے ہیں۔ کسی کی زبان میں غلطیاں نظر آئیں تو کسی کی مشاہدات میں اور کردار وں کے نفسیاتی پہلووں کے ساتھ تو وہ زیادتیاں نظر آئیں کے الحفیظ و الاماں۔۔ حد ہے بھئی ، اگر تمہارا مرکزی کردار نشہ کرتا ہے تو تم نشے کے مریض کی نفسیات کے بارے میں کسی ماہر سے جان کیوں نہیں لیتے ؟ وہ پڑھتا جاتا اور کڑھتا جاتا۔ یہ کیا ہے ؟ کیا کوئی ایسا محلہ بھی ہے جس میں دودھ والا ، کوڑا اٹھانے والا، استاد ، مولوی ، ہر کوئی آتی جاتی لڑکیوں کو نظر ہی نظر میں تولتا ہو؟ یہ غیر فطری ہے۔ وہ بڑ بڑایا۔ اس طرح کے افسانے پڑھ کر تو معاشرے کا ہر شخص مشکوک ٹھرے گا۔ آج کل تو چاول کے دانے بھی ایک جیسے نہیں گلتے تو معاشرے کے افراد کیونکر ایک سا رویہ رکھ سکتے ہیں۔۔ لکھنے والے تو لکھنے والے ان افسانوں پر تبصرہ کرنے والے بھی ان کی تعریف کر کر کے اس کی چھاتی پر مونگ دل رہے تھے۔ اونہہ۔ یہ لوگ ادب سے کب سنجیدہ ہوں گے ؟ جہاں دوست کا نام دیکھا۔ لگے واہ وا کرنے ۔۔ اس کا خیال تھا کہ سچ بولنے کے لئے جگہ اور وقت کا تعین ضروری نہیں۔ سچ سچ ہے اور ہر جگہ بولا جا سکتا ہے۔۔ ارے بھئی دوستوں پر سخت تنقید کرو۔ میری شاعری پر بھی تو جتنی سخت تنقید ہوتی ہے۔ میں اتنا ہی مسکراتا ہوں۔ اس نے اپنا خیال سینہ ٹھونکتے ہوئے سوچا۔ ادب سے سے سنجیدہ تھا۔ اس کی حالت جوہری کی طرح تھی جس کے سامنے ہیرے کو سنگ تراشوں کے اوزاروں سے تراشا جا رہا تھا۔ بلکہ اردو اب اس کے لئے ہیرے سے بھی زیادہ قیمتی تھا۔ وہ اپنے تئیں ایک بہترین جوہری تھا۔ اور سمجھتا تھا کہ اگر وہ پتھر کو بھی تراشے تو وہ ہیر ا تو نہ بنے لیکن پتھر بھی نہ رہے۔ چونکہ غزل کا کھلاڑی تھا تو افسانہ اس کے لئے ایک پتھر ہی تھا۔ تو کیوں نہ میں خود افسانہ لکھ کر دکھاوں ان لوگوں کو۔ اس میں ایسا کیا مشکل ہے۔ مجھے لکھ کر دکھانا ہو گا افسانہ۔ قلم پکڑا ، ایک ہی نشست میں افسانہ لکھا اور دوستوں کو آرا کے لئے بھیج دیا۔
شام کو واپس آتے ہی ا س نے انحراف فورم کھولا اور لگا اپنا افسانہ دیکھنے۔ اور جیسے جیسے کمنٹ پڑھتا جاتا۔ مسکراتا جاتا۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے