دانیال طریر : کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا ۔۔۔ غلام ابن سلطان

یکم اگست2015کو پروفیسر غلام قاسم خان نے ٹیلی فون پر گلو گیر لہجے میں مجھے اس اندوہ ناک خبر سے مطلع کیا کہ پروفیسر مسعود دانیا ل طریر اس دھوپ بھری دنیا سے رختِ سفر باندھ کر ملکِ عدم کی جانب کُوچ کر گیا ہے۔ وہ یگانۂ روزگار فاضل اور عالمی ادبیات کا وہ نیّرِ تاباں جو چوبیس فروری 1980کو لورالائی (بلو چستان)سے طلو ع ہوا اجل کے ہاتھوں اُفقِ ادب سے غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور میں بے بسی کے عالم میں بستر پر لیٹ گیا۔ میری آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر س رہی تھیں۔ ایک صابر و شاکر، قناعت و استغنا کا پیکر اور عظیم انسان جو نہایت جرأت اوراستقامت کے ساتھ خون کے سرطان جیسے جان لیوا عارضے کا مردانہ وار مقابلہ کر رہا تھا جان کی بازی ہار گیا۔ اپنی قوتِ ارادی سے کام لیتے ہوئے اس نے ہر سُو بچھے دُکھوں کے جال ہٹا کر نہایت خندہ پیشانی سے ہرقسم کی ابتلا و آزمائش کا سامنا کیا۔ اس نے صبر کی روایت میں لبِ اظہار پر ایسے تالے لگائے کہ اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا اور ضبط کا ایسا کڑا معیار پیش نظر رکھا کہ ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چُھپا کر تزکیہ ء نفس کی صورت تلاش کر لی۔ اطہر ناسک کی طرح اجل کے بے رحم ہاتھوں نے حریتِ فکر کے اس مجاہد سے بھی قلم چھین لیا جس نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی اور کبھی کسی مصلحت کی پروا نہ کی۔ اُردو، فارسی، پشتو اور عربی کے ممتاز نقاد اور دانش ورسعید گوہر کے اس چشم و چراغ نے زمانہ طالب علمی ہی سے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوا یا۔ دانیال طریر کا تعلق ایک ممتاز علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ نامور ادیب اور دانش ور رب نواز مائل اُن کے تایا تھے۔ ان کے چچا محمود ایاز اُردو اور پشتو کے مقبول شاعر تھے۔ سال 2005 میں دانیال طریر کے پہلے شعری مجموعے (آدھی آتما)کی اشاعت سے پہلے ہی علمی و ادبی حلقوں میں نظم و نثر کی مختلف اصناف میں اس کی قابلِ قدر تخلیقی فعالیت اور جدت و تنوع کی اساس پر استوار منفرد اسلوب کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اردو نثر ہو یا شاعری دانیال طریر کے منفرد اسلوب کا جادو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا۔ وہ زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار جس نے اردو تحقیق، تنقید، لسانیات، فکشن، شاعری، فلسفہ، نفسیات، تاریخ، علمِ بشریات اور اسلوبیات کو افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ تک رسائی کی راہ دکھائی اب ہم میں نہیں رہا۔ سیلِ زماں کے تند و تیز بگولے وطن، اہلِ وطن اور انسانیت کے لیے امن، سلامتی، وقار اور تحفظ کے خواب دیکھنے والے ادیب کی ہستی کو خیال و خواب بنا گئے۔ پاکستانی زبانوں ، عالمی ادبیات، ادیانِ عالم اور عالمی کلاسیک کا نابغۂ روزگار دانش ور ہماری بزمِ ادب سے اُٹھ کر بہت دُور چلا گیا، اب تو یادِ رفتگاں سے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ گلشنِ ادب میں ہر طرف ہُو کا عالم ہے، اب دِل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔ کیسے کیسے پیارے لوگ اس جہاں سے اُٹھ گئے، ہجومِ غم میں دل کو سنبھالنا اب ممکن ہی نہیں۔ اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے چودہ وقیع تصانیف سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے والا ادیب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ دانیال طریر نے اپنے اسلوب میں روایات سے ہٹ کر نئی علامات کو ایک نفسیاتی کُل کی صورت میں اشعار کی زینت بنا کر لا شعور کی حرکت و حرارت کو متشکل کرنے کے جو تجربے کیے، وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہیں۔ وہ اسطور کی فضا میں جس انوکھے انداز میں اپنے جذبات واحسات اور تخیل کی جولانیاں دکھاتا ہے، اُسے قدیم روایات اور جدید ترین تصورات کے مابین سنگم کی ایک صورت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس نے دُکھی انسانیت کے ساتھ درد کا ایک ایسا رشتہ استوار کر رکھا تھاجسے وہ علاجِ گردشِ لیل و نہار کے لیے نا گزیر سمجھتا تھا۔ بعض اوقات یہ گُمان گزرتا ہے کہ ایام کا راکب یہ مردِ درویش کسی ایسی دیومالائی دنیا کا مکین ہے جس کو ماضی، حال اور مستقبل کے تمام مسائل کے بارے میں مکمل آگہی حاصل ہے۔ وہ پلک جھپکتے میں ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں حقائق کی گرہ کشائی کر کے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی استعداد سے متمتع ہے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ دنیا بھر میں موجود دُکھی انسانیت کا درد اس کے جگر میں سما گیا تھا اور وہ درد مندوں اور الم نصیبوں کے دُکھ بانٹنے اور اُن کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ہمیشہ بے چین رہتا تھا۔ اس کی وفات کے بعد مجھے جن اعصاب شکن حالات کاسامنا کرنا پڑا اس وقت میرے ذہن میں دانیا ل طریر کے یہ شعر گونجنے لگے:
خاموشی کی قرأت کر نے والے لوگ
اَ بوُّ جی اور سارے مر نے والے لو گ
روشنیوں کے دھبے، ان کے بیچ خلا
اور خلاؤں سے ہم ڈرنے والے لوگ
مٹی کے کُوزے اور اُن میں سانس کی لو
رب رکھے یہ برتن بھر نے والے لوگ
میرے چاروں جانب اُونچی اُونچی گھاس
میرے چاروں جانب چرنے والے لوگ
آخر جسم بھی دیواروں کو سونپ گئے
دروازوں میں آنکھیں دھرنے والے لوگ

کسی کی نہیں تھیں وہ آنکھیں اور پلکیں
کسی کی تھی نمی میری نہیں تھی
عجیب گرد سی اُڑنے لگی ہے رستوں میں
میں ڈر رہا ہوں سفر پر روانہ ہونے سے
نئی نئی صورتیں بدن پر اُجالتا ہوں
لہوسے کیسے عجیب منظر نکالتا ہوں
دانیال طریر نے اپنی شاعری میں گِرد و پیش کے حالات و واقعات اور معاشرتی زندگی کے جُملہ ارتعاشات کی ایسی لفظی مرقع نگاری کی ہے کہ اس کی شاعری بے حسی کی جامد و ساکت فضا کا خاتمہ کر کے جہد و عمل کی راہ دکھاتی ہے۔ اس کے اشعار میں ہر لفظ زبانِ حال سے محوِ گفتگو ہے اور تقدیرِ جہاں کا عقدہ کھول رہا ہے۔ جس جر أت اور بے باکی سے دانیا ل طریر نے تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی سعی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ا س کے اسلوب میں رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اس فنی مہارت سے سمٹ آئے ہیں کہ قاری ان کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ ا س کی شاعری دھنک رنگ منظرنامہ سامنے لاتی ہے جس میں موجود دل کش رنگ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ کبھی تو اس شاعری میں سوز وسازِرومی کی کیفیت قاری کے دِل کو مرکزِ مہر و وفا کر تی ہے اور کبھی پیچ و تابِ رازی کا سماں قاری پر ہیبت طاری کر دیتا ہے۔ یہ شاعری اس کے ذہن و ذکاوت، بصیرت اور ذوقِ سلیم کی آئینہ دار ہے۔ اس کی شاعری قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر کر پتھروں کو موم کر دیتی ہے اور جامد و ساکت چٹانوں ، احساس سے عاری بُتوں، اور بزعم خود اُونچے پربتوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ اس طرح یہ شاعری اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ساحری کا روپ دھار لیتی ہے جو قاری کے قلب و روح اور فکر و نظر کو مسخر کر کے اس پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ جدید اُردو نظم میں معانی اور ہئیت کے جو متنوع تجربات کیے جا رہے ہیں دانیا ل طریر نے انھیں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ یہ تجربات قارئین ادب کو عصری آگہی سے آشنا کرنے کا اہم وسیلہ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان اہم تخلیقی تجربات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھے گی اور قارئین ان کی اہمیت کو سمجھ کر ان کا استحسان کر سکیں گے۔ جد ید اردو شاعری بالخصوص اُردو نظم میں تخلیق کاروں نے ہمیشہ ید بیضا کا معجزہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ جدید اردو نظم کے زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کاروں نے زندگی کے سب نشیب و فراز پیشِ نظر رکھے ہیں۔ دانیال طریر کی نظمیں اس کے منفرد اسلوب اور جداگانہ سوچ کی مظہر ہیں۔
____________________
عجائب
____________________

عجب گھٹا تھی
لہو بہاتی
عجب ہوا تھی
تمام رستوں میں ناچتی اور موت گاتی
عجب دعا تھی
جو ٹوٹتی تو ہزار ہا کرگسوں کو بھی اپنے ساتھ لاتی
عجب بقا تھی
قریب آتی تو اپنی ہر اک ادا سے ہم کو فنا دکھاتی
عجب سزا تھی
کہ پھر بھی غم سے پھٹی نہ چھاتی
دانیال طریر کی شاعری میں قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کی حقیقی کیفیات کی جلوہ گری اس کی فنی مہارت اور تخلیقی بصیرت کی مظہر ہے۔ اس نے تقلید کی روش کو ہمیشہ ہدفِ تنقید بنایا۔ اس کا خیال تھا کہ تقلید کی رو ش اپنا کر ایک تخلیق کار اپنے تخلیقی عمل کو بیزار کُن یکسانیت، اور اعصاب شکن جمود اور اکتاہٹ کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ ان حالا ت میں نئے خیالات، نئے اسالیب اور ہئیت کے نئے تجربات تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہیں جن کے اعجازسے دِل میں ایک لہرسی اُٹھتی ہے۔ دانیال طریر کی شاعری میں خواب اور حقیقت کے درمیان پائے جانے والے فاصلے اس طرح سمٹ جاتے ہیں کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ دانیال طریر کی شاعری اپنی نوعیت کے اعتبارسے زندگی کی حقیقی اور موثر مرقع نگاری قرار دی جا سکتی ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے شاعر نے اس قدر کا میا بی کے ساتھ اپنے خیالات کا ابلاغ کیا ہے کہ لسانی عمل، شعری اظہار اور فکری نظام کا بلند ترین معیار قاری کو چونکا دیتا ہے۔ اس شاعری کے مطالعہ سے ہمیں اپنی حقیقت اور گرد و نواح کے ما حول کے بارے میں کا مل آگہی نصیب ہو تی ہے۔ حوصلے، ولولے اور افادیت سے لبریز یہ شاعری حسن و خوبی کے دلکش استعاروں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ اس کے مطالعہ سے زندگی کی تا ب و تواں میں نما یاں اضافہ ہو تا ہے۔
امبر کی کالی آنکھوں سے کاجل جیسی رین
بام و در پر برس رہی ہے بادل جیسی رین
میں تنہا، سناٹا اور یہ دیو آسا اشجار
چارو ں اور ہے پھیلی بالکل جنگل جیسی رین
کیا عجب شرطیں رکھیں ہم پر ہدایت کار نے
مسخرے کا رُوپ دھاریں مُسکرائیں بھی نہیں
اجالا ہی اجالا، روشنی ہی روشنی ہے
اندھیرے میں جو تیری آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
درختو! مجھ کو اپنے سبز پتوں میں چھپا لو
فلک سے ایک جلتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
تسلسل سے گماں لکھا گیا ہے
یقیں تو ناگہاں لکھا گیا ہے
میر ا دو پل ٹھہر کر سا نس لینا
سرِ آبِ رواں لکھا گیا ہے
تیز ہوا میں رکھتا میں خامو شی کو
کاش صدا دے سکتا میں خاموشی کو
کیسی لا یعنی خواہش ہے یہ خواہش
موت سے پہلے چکھتا میں خاموشی کو
مرگِ ناگہانی اور مرگِ نوجوانی کے مسموم اثرات سے دائمی مفارقت دے جانے والے عزیزوں کے پس ماندگان پر قیامت گزر جاتی ہے۔ اس نوعیت کے جان لیوا سانحہ سے دو چار ہونے والا تخلیق کار جب اپنے ہاتھ میں قلم لے کر پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو دبے پاؤں آنے والی موت کی آہٹ کوسننے کے بعد اس کا اظہار لا شعوری انداز میں اپنی تحریروں میں بھی کرتا ہے۔ ادبیاتِ عالم کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جو تخلیق کار عالمِ شباب میں دائمی مفارقت دے گئے ان کی تخلیقات میں موت کے دبے پاؤں چلے آنے کی آہٹ صاف سنائی دیتی ہے جس سے یہ گُمان گزرتا ہے کہ ان عظیم ادیبوں کو اپنے نہ ہونے کی ہونی کا شدت سے احساس تھا۔ رام ریاض، عاشق حسین فائق، بشیر سیفی، اطہر ناسک، میراجی، قابل اجمیری، پروین شاکر، اقتدار واجد، آنس معین، شکیب جلالی، ظفر سعید، سجاد بخاری، بائرن، کیٹس اور شیلے کی تحریریں پڑھنے کے بعد اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ ایک داخلی کرب نے ان سب ادیبوں کے تخلیقی عمل کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ زندگی کے بارے میں غیر یقینی حالات میں جب سب دعائیں بے اثر ہو جائیں ، کلیاں شر ر ہو جائیں، سب بلائیں جب تمام ہو جاتی ہیں تو مرگِ ناگہانی کے اندیشے بڑھنے لگتے ہیں اور اس کے بعد زندگی کے لمحات مختصر ہو جاتے ہیں۔ اُفقِ ادب سے جب یہ چودہویں کے چاند ہمیشہ کے لیے غروب ہو جاتے ہیں تو سفاک ظلمتوں میں ہمارا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے۔ ہجومِ یاس میں جب دل گھبراتا ہے توہم آہیں بھرتے اور احساسِ زیاں سے نڈھال کفِ افسوس ملتے ہیں کہ اپنی دل کش، حسین ا ور طویل عرصہ تک یاد رکھی جانے والی تخلیقات سے علم و ادب کا دامن معمور کر دینے والی یہ نایاب ہستیاں کس قدر جلد پیمانۂ عمر بھر گئیں۔ موت کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔ ان با کمال ہستیوں نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے والے ان زیرک تخلیق کاروں نے خونِ دِل دے کے گلشنِ ادب کو اس طرح سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے گلشن ادب میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو گیا۔ دانیال طریر اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھا کہ مشعلِ زیست کے گُل ہونے کے خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف اور اندیشوں کے سم کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اللہ کریم نے اسے مستحکم شخصیت سے نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفرمیں جب بھی کوئی موہوم ڈر یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے اسے دُور کر دیتا اور کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتا۔ اس نے موت کو کبھی دل دہلا دینے والا لرزہ خیز سانحہ نہیں سمجھابل کہ وہ جانتا تھا کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے، انسان کا نہ تو ہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پاؤں رکاب میں ہیں۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر اس کی روانی تھم سکتی ہے۔ اس کی شاعری کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کر نا چاہتا تھا کہ ماحول کی سفاکی کے باعث جب آہیں اور دعائیں اپنی تاثیر سے محروم ہو جائیں تو زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔ گلزارِ ہست و بُود میں سمے کے سم کے ثمر سے ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی تمنا اپنی ہر اداسے فنا کے سیکڑوں مناظر سے آشنا کرتی ہے۔ خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہارا ں کی اُمید وہم و گُماں اور سراب سی لگتی ہے۔ دانیال طریر کی شاعری میں نُدرت، تنوع اور جدت پر مبنی خیال آفرینی قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ کورانہ تقلید سے اسے سخت نفرت تھی اس لیے وہ خضر کا سودا چھوڑ کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرتا ہے۔ اس کی تحریریں کلیشے کی آلودگی سے پاک ہیں۔ اس کے دل کش، حسین اور منفرد اسلوب میں ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی کیفیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تخلیقِ فن میں اُس کا مرحلۂ شوق پیہم نئی منازل کی جانب روا ں دواں رہتا ہے۔ مثال کے طور وہ پر نئی تراکیب اور الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنی شاعری کو گنجینہ ء معانی کا طلسم بنا دیتا ہے، بھنور کے بھید، خیال کی جوت، جھرنے کا ساز، کوئل کی کوک، گیت کی لے، وقت کی نے اور خوابوں کے سرابوں جیسے الفاظ میں زندگی کی کم مائیگی کا احساس قاری پر فکر و خیال کے متعدد نئے در وا کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ موت کی دیمک ہر فانی انسان کے تن کو چاٹ لیتی ہے۔ وہ چشمِ تصور سے زندگی کی راہوں میں ناچتی، مسکراتی اور ہنستی گاتی موت کی اعصاب شکن صدا سُن کر بھی دِ لِ برداشتہ نہیں ہوتا بل کہ نہایت جرأت کے ساتھ شاعری کو تزکیۂ نفس کا وسیلہ بناتا ہے۔ حرفِ صداقت سے لبریزاس کی شاعری اس کے داخلی کرب اور سچے جذبات کی مظہر ہے۔ موت کی دستک سُن کر وہ موت کے بارے میں جن چشم کشا صداقتوں کا اظہار کرتا ہے وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ہیں۔ ا س کی شاعری کے مطالعہ کے بعد قاری کے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اس حساس تخلیق کار کی دلی کیفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو موت کی دستک زنی کے دوران بھی اپنے قلبی احساسات کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے میں پیہم مصروف رہا۔
جو اپنے مر گئے تھے، جی اُٹھے ہیں سو چتا ہوں
حقیقت سے تو بہتر واہمے ہیں سو چتا ہوں
فلک پر رنگ و روغن ہو رہا ہے میری خاطر
فرشتے مجھ کو لینے آ رہے ہیں سوچتا ہوں
اِک بار جا کے قبر میں بھی دیکھوں تو طریر
کیسی دکھائی دیتی ہے باہر سے زندگی
میں چاند بن کے سوچتارہتا ہوں ساری رات
کالے گگن پہ کس نے لٹکا دیا مجھے
خواب جزیرہ بن سکتے تھے، نہیں بنے
ہم بھی قصہ بن سکتے تھے، نہیں بنے
ہم دو چار محبت کرنے والے لوگ
دنیا جیسا بن سکتے تھے، نہیں بنے
پیڑ میں آدمی بناؤں میں
کو ئی دنیا نئی بساؤں میں
برف جمنے لگی ہے آنکھوں میں
خواب کمخواب ہی بناؤں میں
جرس اور سار بانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
یہ دل اگلے زمانوں تک پہنچتا چاہتا ہے
درندے ساتھ رہنا چا ہتے ہیں آدمی کے
گھنا جنگل مکانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
اک طرز پُر اسرار میں دیکھا ہے خدا خیر
سایا کو ئی دیوار میں دیکھا ہے خدا خیر
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دانیال طریر کی شاعری کے سوتے اُس کے جذبات، احساسات اور حسین خوابوں سے پُھوٹتے ہیں۔ اس کی زندگی کے تجربات، مشاہدات، جذبات، میلانات اور احساسات اس کی شاعری میں سما گئے ہیں۔ اس کے قلب اور روح پر پڑنے والے موت کے سائے اُس کی شاعری میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ راتوں کے پچھلے پہر میں وہ ٹمٹما کر غروب ہونے والے ستاروں سے بھی ٹوٹ کر محبت کرنے کا آرزومند دکھائی دیتا ہے۔ زندگی اور موت کے بارے میں اس قسم کے خیالات جب اس کے نہاں خانۂ دِ ل میں نمو پانے کے بعد اظہار کی راہ تلاش کرتے ہیں تو وہ ابلاغ کے لیے موثر ترین پیرایہ ء اظہار اپنا تا ہے اورحسین ترین الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کی شاعری کا اہم ترین وصف یہ ہے کہ وہ ہر مقام پر اچھوتا، منفرد اور نیا رنگ اور آہنگ پیشِ نظر رکھتا ہے۔ صنائع بدائع، قافیہ، ردیف، تشبیہہ، استعارہ، تراکیب، تمثالیں، مضامین اور موضوعات سب کے سب اس کی ذات کی انفرادیت کوسامنے لاتے ہیں۔ اس کی بصیرت، فکری اُپج، جدتِ اظہار اور حریتِ فکر کا عنصر اس کے اسلوب کو سحر نگار بنا دیتا ہے۔ اسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ مسلسل شکستِ دل کے باعث معاشرہ بے حسی کا شکار ہو گیا ہے اور ہر کوئی اپنی فضا میں مست پھرتا ہے۔ شہرِ نا پُرساں میں تنہائیوں کا زہر پینے والے دُکھی انسانوں کی چشمِ تر پر نگاہِ التفات ڈالنے والا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں وہ گونگے، بہرے اور نا بینا علاقوں کے بُتوں میں گویائی، سماعت اور بصارت بانٹنے کا آرزو مند تھا۔ حیف صد حیف کہ ایک دردمند انسان ہماری بزم سے رخصت ہو گیا اب بام و در حسرت ویاس کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اس کی صبحِ بہار کو خزاں نے جس بے دردی سے جھلسا دیا اس کے اثرات اس کے تخلیقی عمل پر بھی مرتب ہوئے۔ اسی لیے اس کا تخلیقی عمل جہاں اس کی انفرادیت کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں اس کا داخلی کرب بھی اس میں سمٹ آیا ہے۔ بادی النظر میں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ دانیال طریر آئینہ ء ایام میں اپنی ہر ادا پر کڑی نظر رکھتا ہے اور ایام کا مرکب بننے کے بجائے وہ ایام کا راکب بن کر مہر و مہ و انجم کے محاسب کا کردار اد اکرتا ہے۔ وہ اپنے جذبات و احساسا ت کو مناسب حدود اور نا گزیر قیود کا پابند بنا دیتا ہے۔ اس کی شاعری پڑھتے ہوئے کئی مقامات پر قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی شخصیت میں جو لائقِ صد رشک و تحسین توازن اور اعتدال موجود ہے اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس کے اندر موجود محتسب اس کی تسبیحِ روز و شب کے دانے دانے پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جذباتی سطح سے ہٹ کر سوچتا ہے اور اپنی ایک ایسی الگ دنیا بسانے کا آرزو مند ہے جس کا تعلق حقیقت پسندانہ اندازِ فکر سے ہو۔ اس کی خطر پسند طبیعت وادیِ خیال کو مستانہ وار طے کرنے کے بجائے زندگی کے تُند و تلخ حقائق اور درپیش خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھنے کی عادی ہے۔ اس کی شاعری میں محض اظہارِ ذات کا کہیں بھی گُماں نہیں گزرتا بل کہ اس نے اپنی ذات کے بجائے حیات و کائنات کے مسائل کو اس خوش اسلوبی سے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے کہ سارا زمانہ اس کا ہم راز اور ہم نوا دکھائی دیتا ہے۔ ایک زیرک فعال اورمستعد تخلیق کار کی حیثیت سے دانیال طریر نے اپنی شاعری میں افکارِ تا زہ کی جانب سفر جاری رکھا ہے۔ اس کی شاعری محض خیال و خواب، مفروضوں اور تصورات کی مظہر نہیں بل کہ یہ تو ہماری سماجی معاشرتی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار کا ایسا خاکہ پیش کر تی ہے جس کی اساس پر مستقبل کے قصرِ عالی شان کی تعمیر ممکن ہے۔ وہ خواب اور حقیقت کے مابین پائے جانے والے فاصلوں کو اس طرح سمیٹتا ہے کہ تمام موہوم اندیشے اور وسوسے اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ زندگی کے حقائق کی گرہ کشائی کر نے والی دانیال طریر کی شاعری قاری کواس مسموم ماحول کے بار ے میں سب کچھ بتا دیتی ہے جس نے زندگی کے تمام رتیں بے ثمر، کلیاں شرر، آبادیاں پر خطر اور آہیں بے اثر کر دی ہیں۔ جب شہر سنسان ہو جائیں اور جھونپڑیاں نذر آتش کر دی جائیں تو بے بس و لاچار لوگ کو اپنے جلے ہوئے نشیمن کی راکھ کو بھی حسرت سے دیکھتے ہیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ معاشرے کے پس ماندہ طبقے کے خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے۔
ایک بجھا ؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سوجاؤ خواب کا کیا ہے
لا یعنی ہے، سب لا یعنی، یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے
ایک کباڑی گلیوں گلیوں واج لگائے
راکھ خریدو، آگ کے بھاؤ خواب کا کیا ہے
بکھرنے کا سبب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
میں تہذیبِ ادب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
آتشیں لہر نہ برفاب میں رکھی جائے
شب غنودہ مِرے اعصاب میں رکھی جائے
تیری آنکھوں کی اجازت سے اُٹھیں گی پلکیں
دیکھنے کا تجھے حق لے کے تجھے دیکھوں گا
اردو زبان و ادب میں ایم۔ اے کرنے کے بعد دانیال طریر شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گیا۔ وہ جامعہ بلوچستان (کوئٹہ)کے شعبہ اردو میں تنقید کی تدریس پر مامور تھا۔ فروغِ علم و ادب کے لیے اس نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ وہ علمی و ادبی محفلوں کی جان تھا، اس نے کچھ عرصہ کوئٹہ سے شائع ہونے والے مقبول ترین کتابی سلسلے ’’مہر نامہ ‘‘کے اعزازی مدیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ تحقیق، تنقید، شاعری، تہذیب و ثقافت، علم بشریات، نفسیات، تاریخ، لسانیات اور پاکستانی ادبیات کے موضوع پر اس کے اشہبِ قلم کی جولانیوں کا ایک عالم معترف تھا۔ رنگ اور خوشبو سے محبت کرنے والے دانیال طریر کی زندگی دھنک رنگوں سے مزین تھی۔ اس کی گھریلو زندگی بہت خوشگوار رہی۔ اللہ کریم نے اُسے دو جڑواں بچوں (ایک بیٹی اور ایک بیٹا) سے نوازا۔ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا نہ جانے کس کی نظر لگی کہ یہ ہنستا مسکراتا چمن مہیب سناٹوں کی زد میں آ گیا۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ ہر کام جلد مکمل کرنے کی فکر میں رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے نہایت تیزی سے اپنی تصانیف کے مسودات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
۱۔ آدھی آتما (شاعری)۔ یہ شعری مجموعہ سال 2005میں شائع ہوا اور ذوقِ سلیم رکھنے والے دنیا بھر کے قارئین نے اس کی بے حد پذیرائی کی اس شعری مجموعے کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس شعری مجموعے کو حکومت بلوچستان نے صوبائی ایوارڈ سے نوازا۔
۲۔ بلوچستانی شعریات کی تلاش(جلد اول ) سال اشاعت 2009
۳۔ معنی فانی (شاعری) سالِ اشاعت، 2012
۴۔ معاصر تھیوری اور تعینِ قدر (تنقید) سالِ اشاعت 2012
دانیا ل طریر کی دیگر تصانیف جو اشاعت کے آخری مراحل میں ہیں وہ درج ذیل ہیں :
جدیدیت، مابعد جدیدیت اور غالب(تحقیق و تنقید)۔ دانیال طریر کی یہ معرکہ آرا تصنیف برقی کتاب کی صورت میں شائع ہو چُکی ہے۔ دنیا بھر کے قارئین اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اس لنک پر کتاب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے:lib.bazmeurdu.net ۔ اس کتاب میں دانیال طریر نے اُردو کلاسیکی شاعری کے عمیق مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اُردو شاعری میں جدیدیت کے حوالے سے سب سے پہلے جس شاعر نے اپنے خیالات او دبنگ لہجے سے اس جانب توجہ دلائی وہ میرزا اسداللہ خان غالب ہے۔ پامال راہوں اور تقلیدی روش سے بچ کر نئے راستوں اور نئی منازل کی جستجوغالب کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ دانیال طریر نے جدیدیت کے حوالے سے یہ واضح کیا کہ جدیدیت کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ پہلے سے مروج و مقبول سانچے اور تقلیدی ڈھانچے، قدیم بنے بنائے نظام اور فرسودہطرزِ کلام کو لائقِ استرداد ٹھہرا کر نئے انداز میں روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرار کرتی ہے۔
خواب کمخواب (شاعری)، خدا میری نظم کیوں پڑھے گا(طویل نظم)، پانی کے صحیفے (شاعری)، بلو چستانی شعریات کی تلاش(جلد دوم)، ادب، تنقید اور تھیوری(تنقید)، تعبیری شعریات کی حدود(تنقید)، بھوکے بھبھوکے(شاعری) ٭
۔۔۔۔۔
٭ خواب کمخواب، خدا میری نظم کیوں پڑھے گا بزم اردو لائبریری میں شائع ہو چکی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید تنقید میں دانیال طریر نے ہمیشہ گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ ادبی تخلیقات پر اس کی تنقیدی تحریریں جہاں اس کی علمی فضیلت کی مظہر ہیں وہاں ان میں تخلیقی عمل میں مصروف ادیب کے ساتھ خلوص پر مبنی اصلاحی رویہ بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ تخلیقی عمل کو صحیح سمت عطا کرنے میں تنقید کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اللہ کریم نے دانیال طریر کو عظمتِ کردار اور ضبطِ نفس کے جن ارفع اوصاف سے نوازا تھا ان کا اظہار اس کی تنقید میں نمایاں ہے۔ اس کی تنقید میں غیر جانب دارانہ اور منصفانہ تجزیاتی انداز تخلیق کار کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتا ہے۔ سوشیالوجی، فلسفہ، جدید تنقیدی لسانیات، تنقیدی ڈسکورس اور تنقید و تحقیق کے موضوع پر اس نے دنیا کے ممتاز نقادوں کے فکر پرور اور خیال افروز مضامین سے بھر پور استفادہ کیا۔ ایک وسیع المطالعہ نقاد کی حیثیت سے اس نے اپنی تنقیدی تحریروں میں وسعت نظر اور تحقیق و تجزیہ پر مبنی جو انداز اپنا یا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس نے جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات، پسِ ساختیات اور تحقیق کے موضوع پر جن مباحث کا آغاز کیا وہ اس کی محنت اور تنقیدی بصیرت کا ثبوت ہے۔ اس نے ٹیری ایگلٹن، گنٹر گراس، نوم چومسکی، رولاں بارتھ، سوسئیر، ژاک لاکاں، ژاک دریدا، مشل فوکو اور کلاڈ لیوی سٹراس کی تصانیف کا بڑی توجہ سے مطالعہ کیا تھا۔ ایک وسیع المطالعہ نقاد ہونے کی وجہ سے اس کے مداح اُسے عالمی ادبیات کا دائرۃ المعارف قرار دیتے تھے۔ تنقیدی تھیوری کے موضوع پر اس کے خیالات کو ادبی حلقوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ سماج، معاشرے اور تہذیب و ثقافت جیسے اہم موضوعات پر اقتضائے وقت کے مطابق ادبی تنقید اور سوشل سائنسز کے باہمی اشتراک سے حقیقت پسندانہ انداز میں تحقیق و تجزیہ کو فروغ دیا جائے۔ ادبی تنقید اورسوشیالوجی میں دانیال طریر نے جس دلچسپی کا اظہار کیا، ا س کے اعجاز سے اس کی تنقیدی تحریروں کی ثقاہت میں اضافہ ہوا۔ دنیا بھر میں لاکھوں طالب علموں اور ریسرچ سکالرز نے انٹر نیٹ پر دانیال طریر کے تنقیدی مضامین اور تحقیقی مقالات سے استفادہ کیا۔ عالمی شہرت کے حامل نقادوں اور دانش وروں نے دانیال طریر کی تنقید کو خراج تحسین پیش کیا۔ دانیال طریر کی تنقیدی بصیرت کو جن ممتاز ادیبوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ان میں غفار بابر، بشیر سیفی، گدا حسین افضل، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی، صابر کلوروی، فرمان فتح پوری، محمد علی صدیقی، شہر یار، مغنی تبسم، وارث علوی، سرشار صدیقی، صابر آفاقی، امیر اختر بھٹی، سعداللہ کلیم، محسن بھوپالی، خاطر غزنوی، احمدحسین قریشی، محمد بخش گھمنانہ، سمیع اللہ قریشی، ڈاکٹر انعام الحق کوثر، میاں اقبال زخمی، آصف خان، راجا رسالو، سبط الحسن ضیغم، دیوان احمد الیاس نصیب، عبد اللہ حسین، محسن احسان اورسجاد بخاری کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
دانیال طریر کی وفات پر ہر آنکھ اشک بار اور دِل سوگوار ہے۔ یوں تو انسان اس دنیا میں پہلی سانس لینے کے ساتھ موت کی جانب سفر کا آغاز کر دیتا ہے لیکن جب ایک کوہ پیکر ادیب کی آنکھیں مند جاتی ہیں تو لوگ اسے بالعموم دائمی نیند سے تعبیر کرتے ہیں لیکن دراصل یہیں سے زیرک تخلیق کار کی دائمی بیداری کی عظیم الشان طویل منزل کا آغاز ہوتا ہے اور اس کا ابد آشنا اسلوب اپنے وجود کا اثبات کر دیتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ اگر چہ ساز خاموش ہو گیا ہے لیکن اس کے سُریلے بول اور مدھر موسیقی رہتی دنیا تک کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔ کیسے کہہ دوں کہ دانیال طریر اب ہمارے درمیان مو جود نہیں ہے ہا ں یہ بات ضرور کہہ سکتا ہوں کہ دانیال طریر جیسی ہفت اختر شخصیت کے یو ں ہماری بزم سے اُٹھ جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اردو تنقید و تحقیق اور تخلیق شعر و ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی اجل کے ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی۔ اس بات کا دلی قلق ہے کہ کوئٹہ کی سنگلاخ زمیں نے اردو ادب کے آسماں کو اپنے اندر چُھپا لیا۔ ہم الم نصیبوں اور جگر فگاروں کے لیے یہ بات دلاسے اور تسلی کا باعث ہے کہ ہم نے دانیال طریر کا زمانہ دیکھا، وہ ہمارے درمیان موجود رہا۔ یہ بات بھی بزمِ ادب سے وابستہ اس کے لاکھوں مداحوں کے لیے لائقِ صد افتخار ہے کہ وہ اس نابغہ ء روزگار ادیب کی فقید المثال تخلیقی اور تنقیدی بصیرت سے فیض یاب ہوئے۔ ایسے نایاب لوگ مُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ ممتاز شاعر علی زریون کے درج ذیل اشعار میرے جذباتِ حزیں کی تر جمانی کرتے ہیں۔
’’تعزیت کیا کروں تری، مرے دوست
روشنی بھی کبھی مری، میرے دوست
تو ابھی بات کر کے سویا تھا
ایسی کیا نیند آ گئی میرے دوست
بُجھ گیا سانس کا دیا تو کیا
جل اُٹھی، تیری شاعری، مرے دوست
کون بولے گا اب مجھے ایسے
او مِری جان، ا و علی، مِرے دوست
موت سے کیسے ہار سکتی ہے!
اتنی پُر جوش زندگی، مِرے دوست
تُو نے دھوکا دیا ہے مجھ کو طریر
یوں بھی کرتا ہے کیا کوئی ! مِرے دوست
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے