اسے اپنی یونیورسٹی کے بوڑھے پروفیسروں میں ایک ہی قدر مشترک دکھائی دیتی کہ وہ سب کے سب لڑکیوں کے سامنے ریشم کی طرح نرم اور اس کے سامنے فولاد بنے رہتے۔ روزانہ ایسے چار بزرگ پروفیسروں کی سرد مہری کا سامنا کرنا بازیچہ اطفال تھوڑی تھا۔ کو ایجوکیشن کی کلاس میں وہ ہمیشہ سہما سہما بیٹھا رہتا اور دل ہی دل میں اس بات پر کڑھتا رہتا کہ آخر وہ اپنی کلاس کا اکلوتا میل طالب علم کیوں ہے؟ کاش میرے خد و خال ایسے ہوتے کہ ایک آدھ لڑکی ہی میری گرویدہ ہو جاتی،،،وہ دل ہی دل میں یہی سوچتا رہتا۔ جب وہ لڑکیوں کو پروفیسر حضرات کے ساتھ خوب چہکتے ہوئے دیکھتا تو اور زیادہ کنفیوز ہو جاتا۔
٭٭
اسے یہ بات ہضم ہی نہ ہوتی کہ آخر اس کا مرد ہونا ان بوڑھے پروفیسروں کو کیوں کَھلتا ہے؟ "لڑکیاں بہت ذمہ دار اور آج کل کے لڑکے بہت لاپروا ہیں "، یہ جملہ ایک پروفیسر کا تقریباً روزانہ کا تکیہ کلام تھا۔ ایسا کئی مرتبہ ہوتا کہ پورے کا پورا پیرئڈ گزرنے کے باوجود بھی پروفیسر حضرات بات کرنا تو کجا اس کی طرف ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے۔ وہ "سارا کی بات بالکل ٹھیک ہے، ماریہ تمھاری دلیل بہت مضبوط ہے، ارم کی اسائمنٹ سب سے اچھی ہے، غزل تم تو ہو ہی ریسرچ مائنڈڈ، تم سوال کرنے میں کنجوس ہو نجمہ؟، شاباش لائبہ اسے کہتے ہیں درست تجزیہ، کونسی لڑکی میرے سوال کا جواب دے گی؟، اور کوئی فرمائش غزالہ؟، بہت ذہین ہو شمسہ، تم اپنے میاں سے ہمیشہ تکرار ہی کرو گی شازیہ” وغیرہ جیسے جملے کلاس روم میں سنتا تو دل مسوس کر رہ جاتا۔ شروع شروع میں وہ کلاس میں بولنے لگتا تو "نہیں بھئی ، پڑھ کے آیا کرو، ایسے بولنے سے خموشی اچھی ہوتی ہے، حد ہو گئی، بے تکی بات مت کرو، اپنی کلاس فیلوز سے سیکھو، فلسفی مت بنو وغیرہ” جیسے جملے اس کی سماعتوں پر ہتھوڑے کی طرح برستے۔ پروفیسر صاحبان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیئے اس کی کئی کلاس فیلوز کلاس کے دوران اس پر طنزیہ جملے بولنے میں عار محسوس نہ کرتیں۔ لڑکیوں کی طرف پروفیسر کا مسکراتا روئے سخن اس تک آتے آتے سپاٹ ہو جاتا اور شریر مسکراہٹ کے ماتھے پر تیوری چڑھ جاتی۔ ایسا جینڈر ڈسکرمینیشن اس کے ساتھ اتنی مرتبہ ہوا کہ وہ پروفیسر حضرات کی جائز خفگی کو بھی درست تناظر میں سوچ ہی نہ پاتا۔ اسائنمنٹ،پریزنٹیشن، کوئز، مڈ ٹرم اور فل ٹرم ٹیسٹ اور سی جی پی میں اس کا سکور اپنی اکثر کلاس فیلوز سے کم ہی ہوتا۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران وہ خود کو بتدریج یقین دلا چکا تھا کہ پروفیسروں سے الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دل سےان پروفیسروں کو برا سمجھنے کے باوجود بھی ڈگری لینے کے لالچ میں وہ سبھی ٹیچروں کا ادب احترام کرتا اور میں ماری کے آداب بجا لاتا۔
٭٭
اسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ جب تک لڑکا ہے، اس کلاس میں کبھی بھی مقبولیت حاصل نہیں کر سکتا۔ کم مائیگی کا شدید احساس اس کی خوداعتمادی کی فصیلوں میں دراڑیں ڈال چکا تھا۔ اسے دال گلنے کی ایک فیصد امید بھی نہیں تھی، نا پذیرائی،منتشر خیالی، تضحیک اور خجالت اس کی شخصیت کی چارسمتیں بن چکی تھیں۔ اب وہ کلاس میں جیسے تیسے اپنے دن پورے کرنے کا تہیہ کر چکا تھا۔
٭٭
آج اس کی کلاس کے تیسرے سال کا پہلا دن تھا۔ وہ بادل ناخواستہ کلاس میں داخل ہوا۔ ابھی ٹیچر کلاس میں موجود نہیں تھا۔ اس کی ایک کلاس فیلو بہت پر جوش انداز میں ڈائس پر آ کر کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ہم مس زبدہ کو اپنی کلاس میں خوش آمدید کہتے ہیں ، آپ ہمارے بزرگ ترین پروفیسر سر خلیلی کی صاحبزادی ہیں اور کراچی کی ایک یونیورسٹی سے کورس ورک مکمل کر کے ہماری یونیورسٹی میں مائیگریشن کرا کے آئی ہیں اور ہمارے ساتھ ہی ڈاکٹر خلیلی سر کی شوخیوں سے لطف اندوز ہوں گی”۔ اس دن سر خلیلی کلاس میں آئے تو ان کی خلاف معمول بہت سنجیدہ تھے۔ چھیڑ چھاڑ، چہک اور شوخی نام کو نہ تھی اور انھوں نے اس دن لڑکیوں کو تقریباً نظر انداز کر کے پہلی مرتبہ اس اکلوتے میل طالب علم پر بھرپور توجہ دی۔ پورا سال وہ سر کے تبدیل شدہ رویے کا حظ اٹھاتا رہا البتہ باقی بوڑھے پروفیسروں کے رویے میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی نمودار نہیں ہوئی۔
٭٭٭