مسجد کے نیچے ہوٹل میں گراموفون بہت زور سے بج رہا تھا۔
’’اس غریبی میں۔۔ اتنا قیمتی ٹی وی کیوں خریدا تم نے!؟‘‘
’’خریدا نہیں ہے بھائی۔! شہر میں آئے سیلاب کی بھاگم بھاگ اور افراتفری میں سارے شہر میں لوٹ پاٹ مچی
’’سجدے میں گردن کٹا لی‘‘۔۔
لوگ بیڑی سگریٹ اور چائے کی چسکیوں میں مست جھوم رہے تھے۔
ہوٹل کے اوپر مسجد میں مؤذن اذان دے رہا تھا۔
۔۔ اور حوض پر تنہا پیش امام صاحب وضو فرما رہے تھے۔
٭٭٭
محترم آپ کا افسانچے۔۔۔۔۔”ایمان لی حرارت ” کی پہلی تین سطریں تو رونق جمال صاحب کے افسانچے کی ہیں۔