یہ آگ کہاں سے آئی؟ ۔۔۔ سید اختر علی

[’’شش جہت آگ ‘‘کے حوالے سے]

شاید لفظ و معنی کے درمیان رشتہ کی خلیج کو پاٹنے کا نام جدید شاعری ہے۔ یعنی جدید شاعری کا نعرہ ہے نئے لفظ نئے معنی۔ میراجی ؔ نے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا ’’ہر لفظ ایک تصور یا خیال کا حاصل ہے اور اس تصور یا خیال کے ساتھ ہی ساتھ اس کے لوازم بھی ایک ہالے کی مانند اس میں موجود ہوتے ہیں۔ ‘‘اور آگے لکھا ہے:’’جب کوئی لفظ ہمارے فہم و ادراک کے دائرے میں آتا ہے تو یہ تلازمِ خیال کا ہالہ ذہن میں ایک خاص ہیئت اختیار کرتا ہے۔ ‘‘
جناب حمید سہروردی صاحب بھی جدید رجحان کے شاعر ہیں۔ ان کے ہاں جدیدیت اس شدت کے ساتھ آئی ہے کہ اس نے اشاریت و ابہام کے ریگستان میں قدم جمائے۔ اور وہاں پانیوں کے نام سراب کے سِرّمیں گرفتار ہو کر ریزہ ریزہ بھیگتے چلے گئے اور دیکھتے رہے کہ سارے اونٹ بھی بھاگتے چلے جا رہے ہیں اور قافلہ بکھر رہا ہے۔
آپ کی جدیدیت کا اظہار ان الفاظ، اصطلاحیں اور استعاروں سے ہوتا ہے جن کو آپ نے اپنی نظموں میں برتا ہے۔ آپ کی خاص لفظیات کچھ اس طرح سے ہے: صفر، نقطہ، دائرہ، آگ، سگریٹ، ماچس، سَر، سمندر، ہوا، دھواں، کنکر، پتھر، ذرّہ، ریت، ریگستان، سراب، چٹیل میدان، دشت، غار، پہاڑ، کھنڈر، منڈیر، دھرتی، رستہ، منزل، سفر، سرخ، خون، زہر، درندہ، کالی گھٹا، نیلا گنبد، نیلا آسمان، آسمان، خواب، شہر، رات، شبنم، پھول، درخت، کانٹے، زبان وغیرہ۔ مجھے یہاں غالبؔ کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر
آپ نے اپنی نظموں میں حرفِ شرط ’’نہیں ‘‘اور وضاحتیہ ’’کہ‘‘ کا بھی ایک خاص انداز میں استعمال کیا ہے۔ اس سے نظموں میں ڈرامائیت پیدا ہو گئی۔ اور شاعر اس تجسس اور تحیر کو اپنی نظموں میں پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر:
(۱)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں
یہ ممکن نہیں
تمھیں معلوم نہیں
لیکن میں محسوس کرتا ہوں
( نظم : وہ کوئی ہے، ص۲۵)

(۲)
نہیں
میں یہاں کیوں رہ گیا
انبوہ کی تنہائی
پوچھتی ہے
مجھ سے یوں
تم مزار تو نہیں
میں نہیں
میں نہیں (مزار، ص۶۸)

(۳)
نہیں
میں کہ ہوں
اکہرا ہی لفظ اک
سنو تم
( نظم : فصاحت بلاغت تمھارے لیے، ص۸۹)

نئی شاعری نئے تقاضوں کو اپنے ساتھ لائی۔ لہٰذا آپ کے یہاں ان لفظیات کا ایک خاص پس منظر ہے۔ اور وہ شاعر کے اپنے منفرد شعور و احساسات کی ترجمان بھی اوراحساسات کے دائرہ اثر کے اندر بھی۔
آپ کی نظموں میں تشبیہات کم اور استعارے زیادہ ہیں۔ استعاروں کی تخلیقی زبان آپ کے وژن اور تخیل کی پہچان ہے اور انفرادیت بھی۔ چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں :کاتبِ تقدیر کی پینسل، گندم کے دانے، آنسوؤں کی قطار، خلوص کی انگلی، آس کی تمتماہٹ، آس کے سبز جنگل، وفا کی نسیں، زخمی روح کا گھروندا، خرمنِ دل، نیند کا جزیرہ، انگور کا رس، بیر کی شاخیں، محبوب اطوار کی زنجیریں، گھڑی کا پنڈولم، سگریٹ کی ڈبیہ، آسیب کے پر، محرابِ شب، یاد کا سلسلہ، یاد کے کانٹے، ذرّات کے چہرے، دھوپوں کی جوانی، آنکھوں کی منڈیر، وہم کی مسافتیں، جسم کا اندھیرا کنواں، دشتِ ہو کی رگِ حمیت، زمین کے پاؤں، درِ شکمِ الفاظ وغیرہ۔
شاعر کی عصری حسّیت نے زندگی کی حقیقتوں (جس میں خلوص و پیار، ایثار و قربانی، جذبہ ٔ ہمدردی و غمگساری، مساوات نا مساوا ت، ہمواری نا ہمواری، دوغلا پن، مادیت، نفسا نفسی، حق تلفی، جور و ستم، فریب و مکاری، حسد و ہوس، جبر و استحصال اور جانے کیا کیا فکری و جذباتی، سیاسی و سماجی تہہ داریاں شال ہیں )کو اجاگر کرنے کے لیے متذکرہ بالا الفاظ واستعاروں کا سہارا لیا اور بقول میراجیؔ ان کے فہم و ادراک میں آئے اور انھوں نے ایک خاص معنوی ہیئت کو اختیار کر لیا۔ اس سرّیت کے سُر کا آغاز یوں تو شاعر ہی کے پاس سے ہوتا ہے لیکن وہ اس کی لَے میں قاری کو بھی رقص کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہیں سے ترسیل کے طربیہ اور المیہ کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن بیانیہ کی یہ اظہاریت، ڈرامائیت، اور اس کی اجنبیت و نامانوسیت اس وقت دور ہو سکتی ہے جب کوئی اشارے کنائے، رمز و ایما، تشبیہ و استعارے، تمثیلات و تاویلات وغیرہ کی دنیا کا سیّاح ہو۔ ادب کے نت نئے جہانوں کی سیر کی ہو۔ ویسے بھی ہر جہاں کے طور طریقے، تہذیب و تمدن کے اشاریے مختلف ہوتے ہیں۔ حمید سہروردی صاحب کی نظموں کا رکھ رکھاؤ بھی اسی طرح جداگانہ ہے۔ یہ انفرادیت الفاظ کے استعمال میں ہے، طرزِ استدلال میں ہے، طرزِ فکر و خیال اور نظم کے کینواس پر طرزِ تحریر کی بنیاد پر ہے۔ آپ کا اپنا لہجہ ہے۔ خود کلامی اور مخاطبت کا اپنا انداز ہے۔ آپ کی زبان رمز آشنا تخلیقیت سے مملو ہے۔ لہٰذا آپ کی شاعری کے رنگ و ڈھنگ تجریدی آرٹ کے خطوط اور رنگوں سے ماورا ہیں۔ حمید سہروردی صاحب نے طالب علمی کے زمانے ہی سے نظمیں کہنی شروع کی لیکن چونکہ نظموں کا مزاج افسانوی تھا، سو آپ افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے اور ایسے مائل ہوئے کہ فطری طور پر افسانہ نگار بن گئے۔ شاید اسی لیے آپ کی نظموں کی ٹیکنک میں اسی فسوں اور ساحری کا اثر ہے۔
اب ہم آپ کی نظموں کی ٹیکنک، اس کے فسوں اور ساحری کے مختلف انداز کو دیکھیں گے:
مختلف ادباء و شعراء نے اپنے منثور و منظوم کلام میں مختلف جانوروں ، پرندوں ، کیڑے مکوڑوں اور پیڑ پودوں کی خاص صفات کو بطور علامت پیش کیا ہے۔ حمید سہروردی صاحب کی شعری کائنات میں بھی لفظ اور معنی کی سطح پر ان ذی روح کی خصوصیات کو بطور علائم استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں چڑیا، کبوتر، کوئل، سرخ طوطا، الّو، بوم، عقاب، گدھ، شتر مرغ جیسے پرندوں اور کیڑے پتنگے کا ذکر ہے۔ ان پرندوں میں خاص کر بے ضرر، امن پسند، رومان پسند، ابن الوقت، موقع پرست، گوشت خور، بہادر، ڈرپوک اور اونچی اور نیچی اڑان بھرنے والے پرندے شامل ہیں۔ یہ گھر والے اور بے گھر بھی ہیں۔ طوطے کی طوطا چشمی مشہور ہے۔ یوں تو شتر مرغ لوہے کا گر م ٹکڑا نگل کر ہضم کر لیتا ہے لیکن طوفان آتے ہی اپنا منہ ریت میں چھپا لیتا ہے۔
جانوروں میں اونٹ، شیر، سانپ، اژدہا، چھپکلی اور مچھلی کا ذکر ملتا ہے۔ اونٹ نامسائد حالات میں بھی ثابت قدمی ے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وفادار ہوتا ہے۔ لیکن کوئی اسے چھیڑے، بے وفائی کرے تو پھر اس کا بدلہ بھی لیتا ہے۔ اپنی جان دے کر فائدہ بھی پہنچاتا ہے۔ (ریگستان میں قافلہ والے پانی نہ ملنے کی صورت میں اونٹ ذبح کر کے پانی اور دیگر چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ )مذہبی اعتبار سے بھی اونٹ کی بڑی اہمیت ہے۔ اسے برا بھلا کہنے سے روکا گیا ہے۔ سانپ اور اژدہے میں فرق ڈیل ڈول اور چستی و پھرتی کا ہے۔ دونوں پالتو نہیں ہیں۔ سانپ کی زبان اور دانت سوئی کی طرح نکیلی ہوتی ہے۔ اژدہے کی زبان دو شاخی ہوتی ہے۔ وہ اپنے منہ سے آگ اور زہر اگلتا ہے۔ اس کی آنکھیں زردی مائل سرخ ہوتی ہیں۔ زردی مائل سرخ رنگ فریب، مکاری، عیاری اور دشمنی پر دال ہے۔ اژدہا اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ہر ذی روح کو سالم نگل لیتا ہے۔ شیر کی خصوصیت یہ ہے کہ بھوک لگنے پر شکار کرتا ہے۔ شکار کا جوہر لے کر باقی دوسروں کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اور پھر اس کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھتا۔
پیڑ پودوں میں حمید سہروردی صاحب نے بالخصوص ببول، بیر، گلاب، نسترن، انگور، انجیر، کھجورکے درختوں اور پودوں کا ذکر کیا ہے۔ ببول اور بیر کانٹے دار درخت ہیں۔ انجیر اور کھجور کے درخت فائدہ مند ہیں۔ بلکہ کھجور کے درخت کو تو ’’مسلم درخت‘‘ کہا گیا ہے۔ گلاب و نسترن باعثِ تازگی ٔ روح ہے تو انگور اس تازگی میں خمار پیدا کر کے تازیانے کھانے پر مجبور کرتا ہے۔
نیٖز ان تمام پیڑ پودے، پرندے اور جانور ان سب کا مقام ومسکن اور دیگر خصوصیات جدا ہیں۔
چونکہ حمید سہروردی صاحب تجریدی شاعر ہیں۔ چنانچہ آپ کے پروازِ تخیل اور شعری ڈکشن کو سمجھنے میں الجھن نہ ہو۔ اس لیے بھی یہاں ان علائم کی چند خصوصیات گنائی گئی ہیں ۔
اکثر شعرا ء نے اپنی نظموں میں نغمگی اور میوسیقیت پیدا کرنے کے لیے ہندی الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ مثلاً میراجیؔ کی نظم’ ’ایک عورت‘ ‘کی چند ابتدائی سطریں ملاحظہ کیجیے جس میں بہت سارے الفاظ ہندی کے ہیں :
سُر میٹھے ہیں بول رسیلے، گیت سناے والی تو
میرے ذہن کی ہر سلوٹ میں پھیلی نغمے کی خوشبو
راگنی ہلکے ہلکے ناچے جیسے آنکھوں میں آنسو
میرے دل کا ہر ایک تار
بن کر نغمے کی ایک دھار
ظاہر کرتا ہے تیری پازیبوں کی مدھم، موہن
مستی لانے والی جھنکار! (ایک عورت، میراجیؔ )
دیگر شعراء کی طرح حمید سہروردی صاحب نے بھی اپنی نظموں میں بہت چابکدستی سے ہندی الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ آپ کے پاس ہندی الفاظ کا وسیع ذخیرہ ہے۔ چند ہندی الفاظ پیشِ خدمت ہیں : امرت جل، شراپ سرَپ، گھٹا، اَمِٹ، من، پریم، روگ، تیاگ، کٹیا، آشا، نراشا، دشا، دھیان گیان، جاپ، چاپ، دھرتی، مائی، جنم، پالن ہارا، انگ، شریر، سج دھج، ریکھا، سمبندھ، گمبھیر، آتما، استھان، کویتا، جیوِت، جیون، مانو، شانت، اشانت، پراپت، انت، ارتھ، شریر، سمے، آدرش، دھرم کرم، گھروندا، ایک، انیک، ایکتا، نیتا، کرن، پیاری، سلونی، دیوانی، روپ، پنچھی، منڈیر، بستی، گپھا، کٹھن وغیرہ۔
جہاں یہ الفاظ مترنم ہیں وہاں آپ کی نظموں میں موسیقیت آ گئی ہے۔ اور جہاں یہ لفظ کھردرے ہیں وہاں آپ کی نظمیں غنائیت کے وصف سے خالی ہو گئی ہیں۔ لیکن چونکہ آپ کی حسّی، صوتی اور بصری منظر کشی کچھ زیادہ ہی تجریدیت کا شکار ہے، اس لیے بعض نظموں میں باوجود مترنم ہندی الفاظ کے استعمال کے اس میں وہ نغمگی، مٹھاس، شیرینی اورمیوسیقیت نہیں پیدا ہو سکی۔ بالترتیب ایک ایک مثال پیشِ خدمت ہے:
(۱)
کون کسی کے من میں جھانکے
کون کسی کے
پریم کا سچا روگ لگائے
میں نے تو سب کچھ تیاگ دیا ہے
(نظم :اس دھرتی پر، ص۳۹)

(۲)
تم سچ کے انت تک پہنچ کر
ایک کشادہ راہ پر چل نکلو
یوں کٹھن زدہ زندگی
تمھارے لیے
بے آتما زیست کرنے پر مجبور کرے گی
( نظم:آتما کے ہاتھوں، ص ۱۲۵)
(۳)
وجودِ حقیقت تمھارا وجود
نہیں
تم کہ جو
فصاحت بلاغت کی پیاری سلونی دوانی
( نظم : فصاحت بلاغت تمھارے لیے، ص۸۹)

میراجی ؔ نے اپنی نظموں میں ہندوستانی ماحول اور ہندو دیو مالائی عناصر و اساطیر کو بڑی شدّ و مد کے ساتھ پیش کیا۔ اسی لیے میراجیؔ کو دھرتی پوجا کا شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ یہی انداز کمار پاشی کے یہاں بھی ملتا ہے۔ قاضی سلیم کی تلمیحات اسلامی ہونے کے ساتھ ساتھ دیومالائی بھی ہیں۔ لیکن جناب حمید سہروردی صاحب کی تلمیحات محض اسلامی ہیں۔ اس میں جذبہ کی وارفتگی کے ساتھ تجریدیت اپنی انتہا اور کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ صرف ایک جگہ ایک نظم ’’پرندہ دکھ کا نام نہیں ‘‘ میں گوتم بدھ کے ساتھ میرؔ کا حوالہ ملتا ہے۔ نظم ’’شری کانت ورما کے لیے دو نظمیں ‘‘ میں مگدھ کا حوالہ ملتا ہے۔ مگر اس کا تناظر بھی اسلامی فلسفہ سے قریب تر ہے۔ آپ کی نظموں سے تلمیحات کی کچھ مثالیں محلِ نظر ہیں :
(۱)
’’سارے اونٹ بھاگتے چلے گئے
لال مٹی کی طرف
قافلہ بکھر گیا
اور زبانیں گنگ ہو گئیں
دور بہت دور ایک پہاڑ پر‘‘
( نظم : دور بہت دور ایک پہاڑ پر، ص۲۸)
(۲)
کھجور کے درختوں سے
آ رہی ہے یہ صدا
سفر ہی بس عزیز ہو
( نظم : سفر کیوں عزیز ہے، ص۳۰)
(۳)
اب کہاں ر ہ رہا ہے وہ
یہ بھی دیکھ رہا ہو گا
غار کی آرزو
( نظم : قلم جب اٹھے، ص۴۲)

(۴)
کہو تم کون ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہو کی آواز ہو
یا
کُن کے زیرِ افسوں ہو
( نظم : لفظ کے بیج، ص ۴۳)
(۵)
دیکھتے رہ گئے
جن و انس
ان کے محبوب اطوار کو
ان کے سینوں کے محترم جذبات کو
( نظم : شب کے بہروپیے، ص۴۶)
(۶)
کہ
زمینِ جسم پر
گندم کے دانے بکھر بکھر گئے
لا مکاں ہو گئے
بے زماں ہو گئے
( نظم : فاصلے سمٹ سمٹ گئے، ص ۴۹)
(۷)
عرش و فرش یوں
چپک چپک گئے
کہ
طاق میں رکھے ہوئے
روشن کتابوں کے ورق
پھڑ پھڑا گئے
( نظم : فاصلے سمٹ سمٹ گئے، ص۴۹)
(۸)
لو وہ آ گئے
آسمان میں نیا رنگ آگیا
پتھروں سے گر گئیں
صدیوں پرانی تصویریں
آنکھ کی پتلی میں کوئی جی ا ٹھا
( نظم : محرابِ شب سے گری روشنی ، ص۱۰۸)
(۹)
گوتم نے چپکے سے جنگلوں کی راہ لی
لیکن اب جنگل بھی نہیں
مگر جنگل تو میر کے زمانے میں تھے
تو کیا گوتم اور میر کا غم الگ الگ تھا
( نظم : پرندہ دکھ کا نام نہیں ، ص۶۶)
ان تلمیحات کے مطالعہ سے شاعر کی مذہبِ اسلام سے جذباتی ہم آہنگی اور پرانی تہذیب و روایتوں سے قدرتی وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔
شاعر و ادیب اپنے زمانے کے حساس ترین لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اطراف و اکناف سے بے خبر نہیں رہتے ہیں۔ سماجی و سیاسی ناہمواریوں ، ناانصافیوں ، ظلم و جبر پر کڑھتے رہتے ہیں۔ وقت پڑے تو اس کے خلاف آواز بھی بلند کرتے ہیں۔ اگر نہ کر سکیں تو کم از کم اس کا شعری و نثری اظہار مہذب طریقے سے کرتے ہیں۔
’’وہ اکیلا کس طرف جائے‘‘ ایسی ہی نظم ہے۔ شاعر کے پاس سگریٹ تو ہے لیکن اسے سلگانے کے لیے اس کے پاس ماچس نہیں۔ شاعر کے فنّی ابہام کا یہی کمال ہے۔ یہاں سگریٹ علامت ہے وسائل کی اور ماچس علامت ہے ان وسائل کو استعمال کر نے کے طریقہ کی۔ سگریٹ بنا ماچس نہیں جل سکتا۔ لیکن وہ(شاعر)جل رہا ہے۔ یہ کون سی آگ ہے جو اسے جلا کر راکھ کر رہی ہے۔ کیا یہ آگ اس کے پاس شش جہات سے آئی ہے؟شاعر کہتا ہے ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں۔ لیکن ہم ان سے خاطر خواہ نفع اٹھانے کے طریقوں سے ناواقف ہیں۔ لہٰذا شاعر بڑی درد مندی کا اظہار کرتے ہوئے تڑپ کر سوال کرتا ہے کہ یہ وسائل ہماری کمزوری کیوں بنتے جا رہے ہیں ؟
وہ ایک اکیلا کیا کر سکتا ہے؟
’’سگرٹ اس کی کمزوری کیوں کر بن گئی
اور اس کے پاس ماچس بھی نہیں ہے
مگر ایسا نہیں ہوا
آخری سگرٹ اس کی ڈبیہ میں رکھی ہوئی ہے
اور اس کے پاس ماچس نہیں ہے‘‘ (نظم: وہ ایک اکیلا کس طرف جائے، ص ۵۳)
’’ریڈیو چیختا ہے‘ ‘(صفحہ ۴۸)بھی ایک ایسی ہی علامتی نظم ہے جس میں شاعر کے کربِ ذات کا اظہار مخفی نہیں ہے۔ ریڈیو سے گاہے ماہے یہ اطلاع آتی ہے کہ آج یہاں بم پھٹا وہاں فساد ہوا۔ کچھ بھی ہو بہرحال نسلِ انسانیت کا خون بہا اور مال و اسباب برباد ہوئے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہمارے کان اب صرف ریڈیو سننے اور اس پر تبصرہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس اب صرف سماعتیں رہ گئی ہیں۔ اچھے کاز کے لیے اقدام کے عمل کی توانائی ہم کھو چکے ہیں۔ ہم نے وہ سیرت اور بصارتیں کھودی ہیں جو حق کو حق کہہ سکے۔ ظلم اور نا انصافی کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔
شاعر اوروں کے دکھ اور تکلیف پر خود بھی دکھی ہوتا۔ گھر کسی کا جلتا ہے تو اسے لگتا ہے جیسے اس کا خود کا گھر جل گیا ہے۔ بلکہ وہ خود جل گیا ہے۔ نظم ’’اطلاع‘‘(ص۶۳)میں شاعر کے اسی دلی جذبات نے جگہ پائی ہے۔
’’وہ کوئی ہے‘‘(ص۲۵) نظم میں شاعر کے یقین کو دیکھیے۔ وہ ان قاتلوں سے کہتا ہے کہ تم میرے خون سے اپنے ہاتھ رنگنا چاہتے ہو لیکن تمھیں پتہ نہیں
’’میری شہ رگ کے قریب
کوئی جیتا ہے
کوئی ہے
جو میرا پردہ رکھتا ہے
اور مجھ سے ہی پردہ کرتا ہے !! ‘‘ ( نظم : وہ کوئی ہے، ص ۲۵)
’کوئی ہے، جو میرا پردہ رکھتا ہے، اور مجھ سے ہی پردہ کرتا ہے‘ قربان جائیے کیا پیار انداز ہے شاعر کا۔ نظم کی ان سطروں نے تو احقر کا دل جیت لیا۔
نظم ’’کیوں ایسا ہی ہم سوچتے ہیں ‘‘(ص۲۶)کی چند ابتدائی سطریں ملاحظہ فرمائیے:
’’کیا سوچ کے ہم یاں آئے تھے
لال سنگھاسن پر بیٹھے
سرخ سے توتے کی آنکھوں میں
کالا دھبّہ
بن کے علامت ہنستاہے
ہم زہر کو پی کے یوں ہنستے ہیں
جیسے
ہم نے خوب پیا ہے ؍ امرت جل‘‘ ( نظم : کیوں ایسا ہی ہم سوچتے ہیں، ص۲۶)
آپ کی نظمیں لوگوں سے ایک سوال ہے اور اس کا جواب بھی۔ اس میں استفسار ہے اور استفہام بھی۔ یہ سماج پر طنز ہے اور دعوتِ فکر و عمل بھی۔ ابن الوقت لوگ، مفاد پرست لوگ وقت اور ماحول کے مطابق گرگٹ بلکہ شمیلون کی طرح فوری اپنا رنگ بدلتے ہیں اور صاحبِ اقتدار اور فرمانروائے وقت کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ کمزوروں اور ناتوانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں ۔ ان کا نہ صرف استحصال بلکہ استحصال کر کے بڑے خوش ہوتے ہیں۔ شاعر نے ایسے لوگوں کے لیے ’سرخ توتے‘ کی اصطلاح وضع کی ہے۔ عموماً طوطا ہرا ہوتا ہے۔
سب کا پیارا ہوتا۔ اس کی لال چونچ سب کو بھاتی ہے۔ لیکن اس کی بے وفائی، بے مروّتی اور ناآشنائی کا ہر کوئی گواہ ہے۔ اس کی اسی خصلتوں کی وجہ سے نہ صرف اس کاقلب بلکہ رنگِ پیرہن بھی بدل گیا ہے۔ اس نے وہ عادتیں اختیار کر لی ہیں جو بد خصلت خواص کا خاصہ ہے۔
حمید سہروردی صاحب کی نظم کا بیانیہ بھی عجیب و غریب ہے۔ نظم میں خیال کہیں سے بھی کروٹ لیتا ہے اور فکر کا دھارا کہیں سے بھی اچانک مڑ جاتا ہے۔ فکر و خیال کے تانے بانے اِدھر اُدھر یہاں وہاں ہی کیوں نہ سہی لیکن نظم کے سانچے پر چڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور قاری کو وہی دھنک رنگ خیال کی چادر بننا پڑتی ہے جو شاعر کے ذہنی کینواس پر موجود ہوتی ہے۔ آپ کی نظمیں اسی ابہام کا شکار ہیں۔ آپ کے علائم بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ ’’پرندہ دکھ کا نام نہیں ‘‘(ص۶۶)میں شاعر کہتا ہے کہ پرندہ تو سکھ اور آزادی کی علامت ہے۔ نت نئے جہانوں کی سیر کرنے کی علامت ہے۔ اس کے بے غرض چہچہاتے نغمے زندگی کی جان اور پہچان ہیں۔ لیکن صیاد نے انھیں کمزور اور بے ضرر جان کر ان دیکھی سلاخوں کے پیچھے قید کر کے بے بس کر دیا ہے۔ جی آیا تو اس کے نغمے سن لیے نہیں تو لقمہ بنا لیا یا پھر اسے وہیں پھڑپھڑانے کے لیے چھوڑ دیا۔
’’پھر پتہ نہیں کس دشا سے کون آئے گا
اور آہستہ سے کہے گا
کہ تم پرندہ ہو
آدمی پرندہ کیوں کر ہوا !
پنجرے کی سلاخیں سامنے چبوترے پر سوچتے ہوئے
پرندے کے شریر پر نظر آتی ہیں ‘‘ ( نظم : پرندہ دکھ کا نام نہیں ، ص۶۶)
شاعر کا پرندہ آدمی ہے۔ لہٰذا وہ کہتا ہے کہ آدمی تو دکھ کا نام نہیں۔ وہ تو دکھ اور درد سہنے والا، سمجھنے والا اور ان کا مداوا کر نے والا ہے۔ پھر شاعر کے خیال نے چپکے سے کروٹ لی۔ کہا:گوتم بدھ چین و سکون کی تلاش میں چپکے سے جنگلوں کی اور نکل گئے۔ راہبانہ زندگی اختیار کی۔ دکھوں سے نجات کا یہی راستہ ہے تو پھر ہم کہاں جائیں ۔ اب تو جنگل بھی نہیں رہے۔
’’گوتم نے چپکے سے جنگلوں کی راہ لی
لیکن اب جنگل بھی نہیں ‘‘
شاعر کے خیال نے پھر کروٹ لی۔ کہا جنگل تو میرؔ کے زمانے میں بھی تھے۔ پھر انھوں نے جنگلوں کی راہ کیوں نہیں لی؟کیا ان کا غم اور گوتم کا غم الگ الگ تھا؟
’’مگر جنگل تو میر کے زمانے میں تھے
تو کیا گوتم اور میر کا غم الگ الگ تھا‘‘
شاعر کہتا ہے غم تو محض ایک کیفیت اور جذبہ کا نام ہے۔ پھر انسان اس سے کیوں گھبراتا ہے۔ اس کو د ل کو کیوں لگاتا ہے۔ اس سے کیوں خوف کھاتا ہے۔ انسان تو دکھ کا نام نہیں۔
’’غم تو نام ہے ایک جذبہ کا
پھر کیوں روتا ہے پرندہ؟
پرندہ دکھ کا نام نہیں ‘‘
شاعر کہتا ہے نہ تو ہم گوتم ہیں اور نہ ہی میرؔ۔ گوتم ومیرؔ کا غم ان کا اپنا غم ہے۔ ان کے اپنے وقت کا ان کے اپنے زمانے کا۔ ان سے ہمیں کیا علاقہ؟ہاں ہم ان کے غم سے ہم اپنے اندر شکر اور صبر کا جذبہ پروان چڑھائیں۔ کمرِ ہمت باندھیں۔ مشکل اور دکھ کی گھڑی میں راہِ فرار نہ اختیار کریں۔ یہ تو ازل سے ہے اور ابد تک ہوتا رہے گا۔
’’ایسا ہر سمے، ہر عہد میں ہوتا ہے
پھر ہم گوتم بھی نہیں اور نہ ہی میر
پھر کیوں ہمارے سر
جنگلوں کی طرف مراجعت کرنا چاہتے ہیں ‘‘ ( نظم : پرندہ دکھ کا نام نہیں، ص۶۶)
شاعر نے اپنی ایک نظم’ ’لفظ کے بیج‘ ‘(ص ۴۳)میں انسان کو بیج سے تشبیہ دی ہے اور پھر اس بیج کو لفظ سے۔ یعنی انسان بیج ہے لفظ کا۔ لفظ علامت ہے آواز کی۔ شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا سے پہلے کیا تھا۔ جو بھی تھا وہ’’ ہو کی آواز کی تھی‘‘۔ اور اب یہ عالز’ ’کُن‘‘ کا فسوں ہے۔ یعنی جس طرح لفظ علامت ہے آواز کی اسی طرح یہ عالم بھی علامت ہے آواز ’’کُن‘‘ کی۔ اللہ تعالیٰ نے ’’کُن‘‘ کہا اور یہ سارا عالم عالمِ وجود میں آیا۔ شاعر کہتا ہے’ ’ ابتدا بھی آواز ؍ انتہا بھی آواز ‘‘یعنی آواز ہی سے دنیا وجود میں آئی۔ اور آواز ہی سے فنا ہو جائے گی اور دوبارہ آواز ہی سے یہ سارا عالم جی اٹھے گا۔
عموماً دائرہ کو بھی نقطہ سمجھا جاتا ہے جبکہ دونوں الگ ہیں۔ اسی فرق کو شاعر نے اپنی نظم’ ’صفر‘ ‘میں بہت دانشمندی سے پیش کیا ہے۔
علمِ ہندسہ میں نقطہ(point)، حلقہ (ring)، دائرہ (circle)، قرص (disc)، کھوکھلا کرّہ(hollow sphere) اور ٹھوس کرّہ (solid sphere) سب الگ ہیں۔ نقطہ ہر جگہ نقطہ ہی رہتا ہے۔ دائرہ کا مرکز ایک نقطہ ہے لیکن اس کا مقام مخصوص اور متعین ہے۔ اس لیے دائرہ ایک منظّم شکل ہے۔ منظّم شکل علامت ہے توازن کی، ہمواری کی، ہم آہنگی کی، مساویت کی، امن و امان، چین و سکون اور شانتی کی۔ غیر منظّم شکل علامت ہے عدم توازن کی، ناہمواری کی، غیر ہم آہنگی کی، غیرمساویت کی، انتشار و خلفشار کی۔ سائیکل کا پہیہ اگر ٹیڑھا ہو جائے تو کیا سائیکل آسانی سے چل سکتی ہے؟یعنی ساری کمان مرکزی نقطہ کے پاس ہے۔ وہ ذرا سا ہٹا کہ سب کچھ بگڑ گیا۔ شاعر کے یہاں دائرہ علامت ہے حصارِ ذات کی اور کامیاب، پر سکون و خوشحال زندگی کی۔ اور نقطہ علامت ہے ناکام، بد حال اور منتشر زندگی کے مرکز کی۔ لہٰذا شاعر کہتا ہے کہ اگر بدحال زندگی کا مرکز اس کے صحیح مقام سے جڑ جائے تو پھر یہ بھی خوشحال ہو جائے اور دائرہ کی طرح منظّم۔
لہٰذا شاعر نے اپنی نظم میں کائنات کی اُن تمام ’’صفر محض ‘‘ چیزوں کو ایک بعید از معنی اصطلاح ’’ ہجومِ صفر ‘‘ سے مراد لے کر اس ’’ہجومِ صفر ‘‘ کو یعنی اس کی شدت، کثرت و بہتات کو دکھلانے کے لیے ایک اچھوتا انداز اختیار کر کے اپنی نظم کو سجایااور سنواراہے اور وہ انداز ہے:
’’صفر
ایک
صفر صفر دو
صفر صفر صفر تین
صفر صفر صفر صفر چار
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صفر صفر صفر صفر صفر صفر صفر صفر صفر نو‘‘ (نظم: صفر، ص ۸۸)
اس نظم کا یہی شعوری طرزِ تعبیہ مرکزِ فکر و نگاہ ہے۔
تجریدی آرٹ کی طرح یہ نظم بھی مادہ پرست معاشرہ سے اپنے تجریدی لَے میں پکار پکار کر کہہ رہی کہ جب ہر چیز کو فنا ہی ہونا ہے تو پھر میں بڑا تو چھوٹا اور یہ میرا ’حاصل‘ یہ تیرا ’حاصل‘ چہ معنی دارد!کسی کی کامیاب زندگی اورکسی کی ناکام زندگی کو کیا دوام؟ لہٰذا شاعر معاشرہ کو یہ بصیرت بھرا پیغام دیتا ہے کہ یہ ’’حصولیات‘‘ کا چکر چھوڑو، حصارِ ذات سے باہر نکلو اورسچے دل سے ایک دوسرے کے کام آؤ۔ یہی تمھارا اصل حاصل ہے۔
’’تیرا اور میرا
حاصل
ایک دائرہ
یا
ایک نقطہ ‘‘ (نظم: صفر، ص ۸۸)
عموماً آپ کے نظموں کی فکری اساس تابناک ماضی کی جویا ہے۔ یہ تابناک ماضی یقیناً اسلام کا ہے۔ حال کو آپ اس ماضی سے جوڑ کر حال و مستقبل کو روشن بنانا چاہتے ہیں۔ حال سے ماضی اور پھر حال ومستقبل کی طرف مراجعت کی مثالیں بہت ہیں صرف ایک مثال نظم ’سفر کیوں عزیز ہے‘ کا آخر کا ایک حصہ بطور نمونہ پیش ہے۔ نیٖزاس نظم پر ہم کچھ تفصیل کے ساتھ گفتگو کریں گے۔
’’شرر بنیں یہ سگرٹیں
تو کلمہ ہی کی انگلی پر
جما کے راکھ اڑ گئیں
سفر کے گرد آگ ہے
صابن ایک لیجیے
رخ پہ پھیریئے ذرا
اپنے دائیں ہاتھ میں
لیجئے ضمانتیں
سارے اسلحہ سے لیس
کمرِ سفر پر باندھیے
کھجور کے درختوں سے
آ رہی ہے یہ صدا
سفر ہی بس عزیز ہو ‘‘ (سفر کیوں عزیز ہے، ص۳۰)
اب آپ نظم کے اس حصہ میں ان علامتوں پر غور فرمائیے جو اس میں وارد ہوئی ہیں اور شاعر کے کرب کو اور اس کے درد کومحسوس کیجیے کہ کس عبقری پیرائے میں اس نے اپنی بات کو ایک منفرد اور اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔ علامتیں یہ ہیں :شرر، سگریٹ، کلمہ کی انگلی، راکھ، سفر کے گرد آگ، صابن، رُخ، دایاں ہاتھ، ضمانتیں، اسلحہ، کمر اور کمرِ سفر، کھجور کے درخت، صدا، سفراور سفر کا عزیز ہونا۔
علامتوں کی ان کڑیوں کو جوڑیئے اور شاعر کے مطمحِ نظر کو سمجھیے کہ کتنے بلیغ اشارے اس میں موجود ہیں ۔ یہ علامات انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اس میں مثبت سوچ کو پیدا کرتی ہیں۔ اور حرکت و عمل کی مثبت توانائی فراہم کرتی ہیں۔
کلمہ کی انگلی سے مراد کلمہ گو ہیں اور سگریٹ ے مراد یہود و نصاریٰ اور غیر اقوام ہیں۔ سارے عالم میں ان لوگوں نے شروع ہی سے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ اسی کی عکاسی پہلے بند میں کی گئی ہے۔ جو شرر اور چنگاری سینہ میں ہونی چاہیے اور جو خوشبودار پھول سی باتیں ہمارے لبوں سے نکلنی چاہیے آج اسی لبوں میں فرنگی حربہ بصورت سگریٹ جلوہ افروز ہے۔ اس سگریٹ کی چنگاری نے نہ صرف ہمار ے پیرہن کو چھلنی اور داغدار کیا ہے بلکہ اس نے ہمارے دل و دماغ اور سینوں سے نور کو رخصت کر کے اس میں زہر بھر دیا ہے۔ یہ فتنہ ہمارے ہنر مند ہاتھوں پر قبضہ جمائے ناچ رہا ہے۔ اس کے ہنر کو ختم کر رہا ہے۔ اور ہم بے وجہ فکروں میں ڈوبے خلا میں غیر مرئی نقطہ پر نظریں جمائے اسلامی افکار کو دھواں بنا کر ہوا میں مرغول رہے ہیں۔
دوسرے بند میں اس سے بچاؤ کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ کہا کہ مسلمان پہلے آپسی رنجشوں، دشمنیوں، کینہ، بغض، عداوتوں اور نفرتوں کو دور کرے۔ رخ پر صابن پھیرنے کا شاید مطلب یہی ہے۔ دائیں ہاتھ میں ضمانت لینے سے مراد بیعت ہونا یا وعدہ کرنے سے مراد ہے۔ اور پھر مکمل وفاداری اور سچائی کے ساتھ ایک سپاہی کی طرح تیاری کر کے پوری سپاہیانہ شان کے ساتھ اس دنیا میں رہنا ہے۔ نیٖز ہر تکلیف کو جھیلنے کے لیے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مستعد رہنا ہے۔ ساتھ ہی شاعر نے متنبّہ کیا کہ ’سفرکے گرد آگ ہے‘۔ یعنی سفر کرنا آسان نہیں۔ باوجود تیاری کے اس میں تکلیفیں ، صعوبتیں اٹھانا پڑتی ہیں۔ سفر راحت نہیں نام ہے کلفت کا۔ دنیا میں بے سروسامانی کی حالت کمزوری اور احساسِ کمتری پیدا کرتی ہے۔ پھر شاعر نے ’کھجور کے درختوں سے آرہی ہے یہ صدا ‘ جیسے دل کو چھو لینے والے بلیغ تلمیحی پیرائے میں مسلمانوں سے بطور یاد دہانی یہ کلام کیا کہ انھیں اپنے منصب کے مطابق ہمیشہ سفر کی سی تیاری میں رہنا ہے۔ اور یہی منشا ہے ہمارے مذہب کی کہ’’سفر ہی بس عزیز ہو‘‘۔
آپ کی یہ نظم چل رہی ہواؤں کے رخ کے تعین کے لیے مرغ باد نما ہے۔ ہوائیں مسلسل چلتی رہتی ہیں۔ مرغ باد نما بھی سر اٹھا کر مسلسل سمت بتاتا رہتا ہے۔ یہ شتر مرغ نہیں کہ آیا طوفان اور ریت میں سر چھپا لیا۔ بلکہ یہ تو وہ مرغ ہے جو ہواؤں کے تھپیڑے سہہ کر بھی سر اٹھا کر مسلسل سمت بتاتا رہتا ہے۔ یہی کیف و کم اس نظم کی شان ہے۔
شاعرِ دل نوا کے اس پیغام کو مائل خیر آبادی کے ایک شعر میں یوں سمیٹا جا سکتا ہے:
ایمان کا پودا ٹھنڈا پانی پا کر جلنے لگتا ہے
اس کو گرم پسینہ دو تو پھر وہ پھلنے پھولنے لگتا ہے
’’شش جہت آگ‘‘ کی نظمیں خود تجریدی ہیں اور تجریدی آرٹ کی طرح مجموعہ کے صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ جس طرح آگ کی لپٹیں ہوا کے دوش پر اپنا جلوہ دکھاتی ہیں اسی طرح مجموعہ کے صفحات پر آپ کی نظمیں طرزِ تحریر کی بنیاد پر اپنا خمار و نشہ بڑھاتی ہیں۔ بس انھیں معنوں کا ایک پل جوڑے ہوئے ہے جس کی تلاش قاری کی بساط پر ہے۔
آپ کی نظموں کی امیجری ان مناظر کی شاہد ہے جس میں دلکشی و شادابی کم ہے۔ یہ امیجری وہ نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک اور روح کی تازگی کا باعث ہو۔ آپ کی نظمیں اس باغ کا منظر پیش کرتی ہیں جس پر خزاں کا موسم آیا ہے۔ یا پھر جنگل میں لگی آگ کے بجھنے کے بعد کا منظر پیش کرتی ہیں۔ متفرق نظموں کی چند سطریں ملاحظہ کیجیے:
۱) ’’مگر
تمھارا میری طرف تلوار گھمانا ہی کافی نہیں ہے
تمھاری تیز آنکھیں ، سرخ ہوتی ہیں
کیا تم بھی اس طرف آرہے ہو
اور
چنگاری
اور
راکھ‘‘ ( نظم : راکھ اور چنگاری، ص۶۲)
۲) نظم ’’کیوں ایسا ہی ہم سوچتے ہیں ‘‘(صفحہ۲۶) سے تین مثالیں دیکھیے:
ا) ’’لال سنگھاسن پر بیٹھے
سرخ ے توتے کی آنکھوں میں
کالا دھبّہ
بن کے علامت ہنستا ہے‘‘
ب)’’سر پر اڑنے والا عقاب
دونوں ہاتھوں پر بیٹھے کبوتروں پر
جھپٹ رہا ہے‘‘
ج)’’ریگستان کے سینے میں
شتر مرغ کی گردن کب سے پھنسی ہوئی ہے
اندر باہر لمبی چُپ کیوں ‘‘
۳) ’’منظر ایک دھول کا
دائیں بائیں آگے پیچھے پھیلتا گیا
جسم میں ؍ ہے میرے آگ
میں اکیلا ؍ بھیگتا پسینے میں ، کھڑا رہا‘‘ ( نظم: دور بہت دور ایک پہاڑ پر، ص۲۸)
۴) ’’وہاں پہ کون کون ہے
کہ دھول ہے نہ ریت ہے
دھواں نہیں نہ آگ ہے
سراب کیا سراب ہے
رستہ رستہ آبلے
تو منزلیں کہر کہر‘‘ ( نظم:سفر کیوں عزیز ہے، ص۳۰)
۵) ’’سرشت
قلب
دائرہ
دائرہ در دائرہ
سرسراتے حادثے‘‘ ( نظم : سلسلہ در سلسلہ، ص۵۷)
۶) ’’رات اندھیرے جنگلوں میں
کوئل کوکے ؍ شیر دہاڑے
طول طویل سمندر میں
مچھلیاں تیرتی، تھرکتی اور بھاگتی رہتی ہیں
کوئی ٹھکانا تیرا اور میرا‘‘ ( نظم: قصّہ، ص۶۹)
۷) ’’یہاں کے سارے دروازوں پر
رنگ برنگے پردے پڑے ہیں
ساری دیواریں ٹوٹ چکی ہیں
اور چھتوں کا رشتہ
نہ خلا سے وابستہ ہے
نہ تو ؍ زمین پر بوجھ بنا ہے‘‘ ( نظم : مفرور لمحو!، ص ۷۲)
۸) ’’جاؤ ؍ ساری سفیدی
پہاڑ کے اس پار
نیچے بہت نیچے جاگ رہی ہے
یہاں چاروں اور
اندھیرا ہی اندھیرا ہے‘‘ ( نظم : زخمی روح کا گھروندا، ص۷۴)
۹) ’’وہ جو پنچھی ہے
میرا ہی ہے
تم نے اس کو اپنی منڈیر سے اڑادیا‘‘ ( نظم : پنچھی، ص ۱۰۱)
۱۰) ’’پنچھی ببول کے درخت کی
سب سے اونچی ٹہنی پر بیٹھا ہوا اونگھتا ہے
کہاں ہو گی ؍ یادوں کی راحت‘‘ ( نظم : پنچھی، ص ۱۰۱)
۱۱) ’’رات، چاندنی، ہوا ؍ تیرے لیے
گردو غبار اور ریل کی سیٹیاں
میرے لیے‘‘ ( نظم : آوارہ گرد بے ہوا، ص ۱۰۳)
۱۲) ’’بہارِ چمن بھی
خزاں رسیدہ موسموں کا المیہ بن جاتی ہے
ایسے میں ماضی کی گپھاؤں سے
پرندے اڑ اڑ کر
آنکھوں کی منڈیر پر
بسیرا کر لیتے ہیں ‘‘ ( نظم : بے خواب راتوں کے اسیر، ص۱۱۸)
اوپر کی چند مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شاعر کو مظاہرِ فطرت سے دلچسپی تو ہے لیکن نظموں کی بنت کی روش یہ بتاتی ہے کہ آپ ان میں سے وہ مناظر چنتے ہیں جس میں دلکشی یا طراوت کے اجزا کم ہیں۔ آپ کی نظمیہ امیجری قرطاسِ ابیض پر ان نازک اسکیچیس کی مانند ہے جس میں کسی ہلکے یا گہرے خط اور اس کے ایک ہلکے سے خم سے چہرے کے تاثرات اور منظر کے معنی بدل جاتے ہیں۔ اس امیجری کا ایک اور وصف یہ بھی ہے کہ اس میں ساکت یا جامد منظر کے ساتھ ساتھ متحرک منظر بھی صوتی آہنگ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا ہی کیوں ہے؟شاعر کے پاس اس امیجری ہی کا تخصّص کیوں ہے؟شاعر کی نظموں کے مطالعہ سے اس کا مطمحِ نظر عیاں ہوتا ہے۔ شاعر کی فکر ایک سوال ہے۔ وہ زمانے سے سوال کرتا ہے کہ وہ دلکش مناظر جو روح کی تازگی کا باعث تھے
انھیں کس نے تباہ برباد کیا۔ چہچہاتی چڑیوں کے گھونسلوں میں ’’بوم بدنوں ‘‘کو لا کر کس نے بسایا۔ نیٖز انسانی اقدار کی پائمالی شاعر کو بے چین کر دیتی ہے۔ اور شاعر آلودہ سمندر کی مچھلی کی طرح زمین پر آلودہ ہوا کے غلاف میں اس طرح تڑپتا ہے کہ بے اختیار اس کی ضمیر کی آواز نظم کا روپ دھار لیتی ہے۔ اور پھر یہاں سے اس کے احساسات اور شعور کے درمیان کشا کش کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ اور پھراسی کشا کش نے پیکر تراشی کا روپ لے لیا۔
عشق کی آگ سے پیدا روشنی جب شاعر کے دل و دماغ کے منشور سے گزرتی ہے تو اس کے رنگوں کو ایک ایک کر کے بالترتیب ایک پر ایک جما کر عشق کا طیف قائم کر دیتی ہے۔ عشق کے رنگوں کا یہ طیف شش جہات کی رومانی نظمیں ہیں۔ ہر نظم ایک مختلف رنگِ عشق میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اور جب ان رنگوں کو ملایا جاتا ہے تو پھر ایک ہی رنگ’’ رنگِ استفہام‘‘ دکھائی پڑتا ہے۔ شاعر عشق کی بارش کے بعد دھنک کی طرح اپنے آپ کو اجاگر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کا محبوب سورج کی طرح سامنے آتا نہیں روشنی پھیلاتا نہیں ۔ سو رنگوں کی یہ بستگی شاعر پر گراں گزرتی ہے۔ اور پھر اس کے پاس لے دے کر کاغذ قلم کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، سو وہ ان نظموں میں اپنے آپ کو حصہ حصہ کر کے سطر سطراور لفظ لفظ میں عطر کی طرح بس جانا چاہتا ہے۔ لیکن انقسام کا عمل اسے یکجا ہونے نہیں دیتا۔ شاعر کے حواس پر محبوب اس قدر حاوی ہے کہ اسے اپنے پیروں کی چاپ پر محبوب کے پیروں کی چاپ کا گمان ہوتا ہے۔
’’پھر اپنے اس موہوم سے احساس کو
ایک نئی دشا سے گزرتا ہوا دیکھ کر
نامعلوم سی گزرگاہ پر
کسی راہی کے منتظر پاؤں
بغیر کسی چاپ کے ہی
اپنے ہی پیروں کی چاپ سن لیتا ہوں ‘‘ ( نظم :چاپ، ص ۱۲۷)
اسے ہوش نہیں کہ وہ کہاں اور کیوں کھڑا ہے۔ پھر بھی اسے ڈر ہے۔ یہ ڈر کس کا ہے؟سماج کا یا کسی اور کا؟شاعر اسے کوئی نام نہیں دیتا۔ اسے فقط اپنے محبوب کے دیدار سے سروکار ہے۔ لیکن پھر بھی اسے خوف کھائے جا رہا ہے۔
’’کسی کے پاؤں کی چاپ سنائی دیتی ہے
تو ایک خوف کی سی صورت
کیوں بن جاتی ہے‘‘ (نظم:چاپ، ص۱۲۷)
حمید سہروردی صاحب کی رومانی نظمیں معاملاتِ حسن و عشق کے جذبات و احساسا ت سے بھری ہوئی ہیں۔ ان میں غضب کے symbols اور اشاریے ہیں۔ آپ کے جنسی میلانات کی عکاسی منفرد اور انوکھی ہے۔ مثال کے طور پر نظمیں ’’بند کر دے کھڑ کیوں کو‘‘(صفحہ ۹۴)، ’’تیرے لیے پانچ نظمیں ‘‘(صفحہ۹۸)، پانچ نظمیں (صفحہ۹۶)میں سے تیسری اور چوتھی نظم دیکھیے۔ خاص طور پر ’’بند کر دے کھڑکیوں کو‘‘ نظم میں جنسی ملاپ کی عکاسی توجہ طلب ہے۔ لگتا ہے اس ذیل میں آپ پر میراجیؔ کا کافی اثر ہے۔
آپ کے معاملاتِ حسن و عشق میں وارفتگی تو ہے لیکن وہ نزاکت اور لطافت نہیں ہے جو اس کا تقاضہ ہے۔ ایک نظم ’’ادھر آؤ تو‘‘ (صفحہ۱۱۴)کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیے:
تمھارے حسن کے قصے
(سرِ شام)
اڑتے پرندوں کے
پروں میں
یوں چپک جاتے ہیں ؍ جیسے
زخم پر مرہم کی پٹّی
تمھاری یاد کے کانٹے
میرے تلوؤں میں
یوں گھسنے لگتے ہیں ؍ کہ ؍ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( نظم: ادھر آؤ تو، صفحہ ۱۱۴)
آپ کی ان رومانی نظموں سے آپ کی تشنہ کامی کی تشنگی، کسک اور حسرت و یاس کا اظہار ہوتا ہے۔ اور پھر یہ جذبہ پروان چڑھ کر دیدار اور وصل کی لذت سے روشناس ہونا چاہتا ہے۔ لیکن اس میں ڈر اور خوف بھی ہے اور احترامِ نفس کا جذبہ بھی اس لیے اپنی بات شکوہ شکایات تک محدود رکھتا ہے۔ لیکن ’’سچ سچ بتاؤ‘‘ اور ’’فصاحت و بلاغت تمھارے لیے‘‘ وہ نظمیں ہیں جن میں معاملاتِ حسن و عشق کی فضا بندی نظر آتی ہے۔
آپ کی نظموں کا کلیدی لفظ ’’آگ‘‘ ہے۔ اور کلیدی رنگ’’سرخ اور نیلا‘‘ ہے۔ لیکن یہ ’’آگ‘‘ آئی کہاں سے؟لگتا ہے یہ ’’آگ‘‘ مشہور و معروف سلسلہ ٔ سہروردیہ کا تسلسل ہے۔ سو جناب حمید سہروردی کے ضمیر سے بھی نکلی۔ اس نے آپ کی روح کو جھنجھوڑا۔ یہ ’’آگ ‘ ‘ علامت ہے اس شاعرِ ذی وقار کے درد مند دل کی، اس کی تڑپ اور سچائی و خلوص کی۔ انسانی اقدار مائل بہ زوال ہیں۔ سو آپ نے اپنے منفرد انداز میں انسانیت کو جھنجھوڑا کہ وہ غارِ عزلت سے باہر نکل آئیں۔ نظم ’’اے پیر و مرشد‘‘ (ص۸۱)میں اسی طرف اشارہ ہے۔ اسی قلق نے ذرّہ ذرّہ کر کے آپ کو ریگزارِ انسانیت میں پہنچایا اور پھر زمانے کے ’سورجوں ‘ نے آپ کو ایسا تپایا کہ اس کی حدت اور چمک کا ظہور ’’شش جہت آگ ‘‘کی صورت میں ہوا۔ اس حرارت سے آپ کے دل میں پیدا آگ سرخ ہوئی۔ سرخ آگ سے دھنواں اٹھتا ہے۔ لہٰذا آپ کی نظمیں بھی بہ شکل آگ اور دھواں اس میں شامل ہیں جس کا اجمالی احوال اوپر آ چکا ہے۔ جب آگ میں حد سے زیادہ حدت پیدا ہو جاتی ہے تو وہ نیلی ہو جاتی ہے۔ سو شدید جذبات کے حدت کی یہ نیلاہٹ بھی آپ کی نظموں میں پائی جاتی ہے۔
سلاست اور فکر و خیال کی روانی کے لحاظ سے مجھے سب سے زیادہ جن نظموں نے چھوا ہے وہ ہیں : میں کہ ایک لفظ ہوں، اس دھرتی پر، قلم جب اٹھے، وہ اکیلاکس طرف جائے، پرندہ دکھ کا نام نہیں، مزار، مفرور لمحو، زخمی روح کا گھروندا، اے پیر و مرشد!، سفر کیوں عزیز ہے، رک رک کر ذرا دیکھو۔
آپ کی نظموں کے عنوانات میں بھی ایک طرح کی جدت ہے۔ راست اور مرکزی فکر سے مربوط عنوان دینے کے بجائے اس میں بھی عموماً اشاریت اور ابہام کو رَوا رکھا گیا ہے۔ عنوانات کی ڈرامائیت کا یہ وصف قاری کے دامنِ دل کو یا تو کھینچتا ہے یا پھر اجنبیت کے احساس کو جگاتا ہے۔ اس وجہ سے بعض نظموں کے عنوانات نے اہمال کی سرحدیں چھو لی ہیں۔ چند نظموں کے عنوانات ملاحظہ ہوں :کیوں ایسا ہی ہم سوچتے ہیں، تو سمندر ہوا، بے خطر، دائیں بائیں، تو ہے، لیکن یہاں، چند دن پہلے، آوارہ گرد بے ہوا، پیچ در پیچ وغیرہ۔
’’تیرے نام کیا لکھوں ‘‘حمد کا بہترین عنوان ہے۔ یعنی مجموعے کی شروعات ہی ے آپ کی انتہائی حسّاس اور پرت دار شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔
عام طور پرجس طرح غزل کا ہر شعر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اسی طرح جناب حمید سہروردی صاحب کی نظموں کی سطریں بھی عموماً ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہوئے بھی ایک فکر کو بہ وصف نظم انگیز کرتی ہیں۔ فکر کی یہ انگیزی عطر کشید کرنے جیسا عمل ہے۔
آپ کی نظم کی ہر سطر خود ایک کہانی ہے۔ ایک افسانہ ہے۔ ہر دو سطروں کے درمیان فکر کا وسیع و عریض میدان ہے۔ جہاں سے جی چاہے آپ اس میں خیال کے گھوڑے دوڑاتے جائیے۔ کتنے ہی شہہ سواری کے جوہر دکھائیے لیکن سائیس بہر حال ہے شاعر۔ اسی کے اشارے پر یہ سب حرکت میں رہیں گے ورنہ نہیں۔ یعنی آپ کی بصیرت، اندازِ فکر و نظر، اور تخلیقی اسلوب بہت ہی نپا تلا ہے۔ شاعر کا تصوّف بھی تجریدی ہے اور رومان بھی۔ اور دونوں قافلہ ٔ فکر کی نظمیں اس میں موجود ہیں۔ آپ کی نظموں میں عشقِ حقیقی کی گرماہٹ بھی ہے اور عشقِ مجازی کی نیلاہٹ بھی۔
لگتا ہے یہ نظمیں عالمِ تحیّر، عالمِ استغراق، عالمِ محویت، عالمِ اضطراب اور عالمِ شباب میں لکھی گئی ہیں۔ نظموں کا الہام خود کلامی پر منتج ہوا ہے۔ کبھی یہ خود کلامی سرگوشی ہے، صدا ہے، ندا ہے، تو کہیں فقط آواز۔ لیکن سب میں پنہاں ہے استفہام و استفسار۔ یہ کربِ ذات دانشورانہ ہے۔ شاعر کے دل میں جو اور جیسا چل رہا ہے ویسا اس نے اسے کشتِ صفحہ پر قلم کا ہل چلا کر جملوں کی کیاریوں میں لفظ لفظ کر کے بو دیا ہے۔
اس مجموعہ کی آخری نظم ’’چاپ‘‘ ہے۔ اس کو آخر میں رکھنے کا احقر کی نظر میں شاید مقصد یہی ہے کہ آپ کی نظم کے قدموں کی چاپ ابھی تھمی نہیں ہے بلکہ بڑھتے جائے گی اور بڑھے گی۔ ۔ ۔ !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے