غزل
دلشاد نظمی
اگرچہ نکتہ چینی ہو رہی ہے
مگر مسند نشینی ہو رہی ہے
توکل سے فراموشی ہے شاید
ہر اک خواہش کمینی ہو رہی ہے
میں ہوں تنقید کے نرغے میں لیکن
مِری شہرت یقینی ہو رہی ہے
کھلیں ہیں بے بصارت خانقاہیں
جہاں اب دیدہ بینی ہو رہی ہے
دعا کو ہاتھ کب اُٹھے گا با با
فقط کوشش زمینی ہو رہی ہے
کہاں دلشاد اب محنت مشقت
یہاں دنیا مشینی ہو رہی ہے
غزل
منظر ہمدانی
ان چاہوں پر پھولوں کی برسات کرو گے کب سوچاتھا
اتنے پیارسے ہم سے بھی تم بات کرو گے کب سوچا تھا
لہر لہر ہے درد کا ساگر خوشبو خوشبو یاد تمھاری
سات سمندر پار ہمارے ساتھ کرو گے کب سوچا تھا
ہرسوکالی گہری راتیں اور آنکھیں بے سدھ گم سم سی
خواب ستارے آنکھوں پر بارات کرو گے کب سوچاتھا
جلتا صحرا اپنا مقدر جان لیا تھا ہار کے لیکن
یوں یکدم تم صحرا پر برسات کرو گے کب سوچا تھا
منظر ہم نے دل کی دیواریں تو بہت اونچی کر لی تھیں
ایک نظر میں ہم کو آ کر مات کرو گے کب سوچا تھا
***