عبداللہ حسین:قدح قدح تری یادیں ، سبو سبو ترا غم ۔۔۔ غلام ابن سلطان

چار جولائی 2015 ہفتہ کے دن اجل کے ہاتھ میں کاتبِ تقدیر نے جو پروانہ دیا تھا اس میں عبداللہ حسین کا نام بھی رقم تھا۔ عبداللہ حسین کے نہ ہونے کی ہونی پر بزمِ ادب سے وابستہ ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ خون کے سرطان کے عارضہ میں مبتلا اس صابر و شاکر ادیب نے سدا قناعت و استغنا کے دامنوں میں اپنے آنسو چھپائے رکھے اور کبھی اپنے غم کا بھید نہ کھولا۔ معاشرتی اور سماجی زندگی کے بہیمانہ نظام کے خلا ف دبنگ لہجے میں بات کرنے والا ایسا حساس اور با کمال تخلیق کار اب ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ اس روز ڈیفنس کالونی، لاہور کا پورا ماحول اپنے ایک مکین کی دائمی مفارقت کے غم میں سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا تھا۔ زندگی کی حقیقی کہانیاں سنانے والا تخلیق کار اپنی زندگی کی کہانی کی آخری سطور رقم نہ کر سکا اور خاموشی سے زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ فرشتۂ اجل نے اس تخلیق کار سے قلم چھین لیا جس نے پیہم عذابِ در بہ دری بر داشت کرنے والے قسمت سے محروم مظلوم اور بے بس و لاچار انسانوں کے مصائب و آلام کو اپنے تخلیقی عمل کی اساس بنایا۔ مظلوم انسانیت جو جنگوں کی زخم خوردہ تھی ان کے زخموں پر الفاظ کا مرہم رکھ کر ان زخموں کے اندمال کی صورت تلاش کی۔ اردو فکشن کو عالمی ادب کے پہلو بہ پہلو لانے کی انتھک جد و جہد کو شعار بنانے والا زیرک، فعال اور مستعد ادیب گلزارِ ہست و بُود سے دامن جھاڑ کر رخصت ہو گیا۔ معاشرتی زندگی کے تضادات، ارتعاشات اور حالات و واقعات کا نباض ہماری بزمِ وفاسے ہمیشہ کے لیے اُٹھ گیا۔ عملی زندگی میں شائستگی، سنجیدگی، خلوص و مروت، وفا و دردمندی، اخلاق و اخلاص اور معصومیت کا ایک پیکر اپنے لاکھوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے ہم زباں رفیقوں سے اس قدر دور اپنی بستی بسانے چلا گیا کہ اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی۔ مصلحت وقت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جبر کے ہر انداز کو مسترد کر کے حریتِ فکر کا علم بلند رکھنے والا جری ادیب اب ہمارے درمیان موجود نہیں، اب دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔ ان کے پس ماندگان میں ایک بیوہ، ایک بیٹی اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ عبداللہ حسین(محمد خان) نے14۔ اگست 1929کوراول پنڈی میں گجرات کے ایک چھوٹے کاشت کار کے گھر جنم لیا۔ اس زمانے میں عبداللہ حسین کے والد ایکسائز انسپکٹر کی حیثیت سے راول پنڈی شہر میں تعینات تھے۔ عبداللہ حسین ان کی پانچویں بیگم کے بطن سے پیدا ہوئے۔ عبداللہ حسین کی عمر ابھی چھے ماہ تھی کہ ان کی والدہ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ ان کے والد نے اپنے اس ہو نہار بچے کی تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ جب عبداللہ حسین کی عمر پانچ سال ہوئی تو وہ اپنے والد کے ہمراہ اپنے آبائی شہر گجرات منتقل ہو گئے۔ دریائے چناب کے کنارے پر آباد عالمی شہرت یافتہ لوک داستان سوہنی اور مہینوال کے رومان کے امین اس قدیم اور تاریخی شہر کی مٹی سے انھیں بہت محبت تھی۔ یہ گجرات کی مٹی کا اثر تھا کہ عبداللہ حسین کو بچپن ہی سے کہانیوں اور لوک داستانوں سے گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے اسی شہر میں اپنے تعلیمی مدارج طے کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ پاکستان کے ممتاز تعلیمی ادارے زمیندار کالج، گجرات سے 1952میں بی۔ ایس سی کرنے کے بعد دلمیہ سیمنٹ فیکٹری ڈنڈوت پہنچے جہاں اپرنٹس کیمسٹ کی حیثیت سے ایک سال خدمات انجام دیں۔ 1954میں وہ کیمیکل انجینئیرنگ میں ڈپلومہ حاصل کرنے کی خاطر کینیڈا چلے گئے۔ 1956 میں عبداللہ حسین نے داؤد خیل(میاں والی) میں واقع میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں کیمسٹ کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اگلے برس ان کے شفیق والد ان کا انتقال ہو گیا۔ عبداللہ حسین کی زندگی کا یہ عرصہ ان کے لیے مصائب و آلام کا ایک لرزہ خیز اور اعصاب شکن دور بن گیا۔ والد کی وفات کے صدمے سے نڈھال پچیس سال کے اس نوجوان نے داؤد خیل جیسے دُور اُفتادہ شہر کی سیمنٹ فیکٹری میں ملازمت کے عرصے میں جان لیوا تنہائیوں سے سمجھوتہ کر لیا اور اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈال کر زندگی کا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن اس کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا اور ہجومِ غم اوریاس و ہراس کے لرزہ خیز ماحول میں وہ دِ ل کو سنبھالنے کی کوششوں میں کام یاب نہ ہو سکا اور اس کی روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہو گیا۔ شدید ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ نے اسے اس قدر مضمحل کر دیا کہ اسے علاج کے لیے معالج کے پاس لے جانا پڑا۔ جلد ہی عبداللہ حسین نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ اس دھرتی کے سب سہارے وقت گزرنے ساتھ ساتھ خیال و خواب اور سراب ثابت ہوتے ہیں۔ اس عالمِ آب و گِل میں یہ سب سہارے محض تجارتی نوعیت ہیں ، انسان کا سارا بوجھ اس کی اپنی ٹانگیں ہی سہارتی ہیں۔ داؤد خیل کی تنہائیوں میں جب شام الم ڈھلتی تو درد کی ہو ا چلنے لگتی۔ راتوں کو دیر گئے تک جاگنے والے اور دکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پرجھیلنے والے اس نوجوان نے تنہائیوں اور سمے کے سم کے ثمر کے مسموم اثرات سے نجات حاصل کرنے کی خاطر قلم و قرطاس کو تزکیۂ نفس کا وسیلہ بنایا۔ داؤد خیل میں قیام کے دوران جو کچھ اس کے دل پر گزرتی اس کو آلامِ روزگار سے فگار اپنی اُنگلیوں میں قلم تھام کر زیب قرطاس کر کے وہ تنہائیوں کے مسموم اثرات سے نکلنے کی سعی میں مصروف رہتا۔ عبداللہ حسین نے اپنے ناول ’’اُداس نسلیں ‘‘کا آغاز داؤد خیل سے کیا تھا۔ اس ناول کو عبداللہ حسین نے پانچ برس(1956-1961) میں مکمل کیا اور یہ ناول پہلی بار 1963میں نیا ادارہ(لاہور) کے زیرِ اہتمام شائع ہوا۔ اس ناول کو دنیا بھر کے قارئینِ ادب کی طرف سے بہت پذیرائی ملی اور ہر طرف اس کے اسلوب بیان کا غلغلہ بلند ہوا اور عبداللہ حسین کی شہرت اور مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ بہترین اسلوب کی بنا پر’’اداس نسلیں ‘‘ کا شمار اردو ادب کے زندۂ جاوید ناولوں میں ہوتا ہے۔ عبداللہ حسین کے ناول ’’اداس نسلیں ‘‘پر انھیں 1963میں پاکستان کے ممتاز ادبی انعام’’ آدم جی ادبی ایوارڈ ‘‘سے نوازا گیا۔ اپنے ناول’’اداس نسلیں ‘‘کا انگریزی زبان میں ترجمہ عبداللہ حسین نے خود کیا جو انگریزی زبان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ثبوت ہے۔ اس ترجمے کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں مصنف نے ترجمے میں تخلیق کی چاشنی سے حسن پیدا کیا ہے جس سے قاری گہرا اثر قبول کرتا ہے۔ اردو زبان کے اس اہم اور مقبول ناول ’’اداس نسلیں ‘‘ کا یہ تر جمہ’’The weary Generations‘‘کے نام سے 1999میں فرانس، برطانیہ اور بھارت سے شائع ہوا۔ عالمی سطح پر اس ترجمے کو جو پذیرائی نصیب ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ 1959کے اوائل میں کو لمبو پلان فیلو شپ پر کیمیکل انجینئیرنگ میں ڈپلوما کی تعلیم کے سلسلے میں عبداللہ حسین کینیڈا پہنچے۔ یہاں میک ماسٹر یونیورسٹی ہمیلٹمن آنٹیریو سے چودہ ماہ کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1960میں واپس آ کر انھوں نے میپل لیف سیمنٹ داؤدخیل میں سینئیر کیمسٹ کے عہدے پر ترقی پائی۔ 1965میں عبداللہ حسین نے فاروقیہ سیمنٹ فیکٹری ٹیکسلا میں چیف کیمسٹ کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی لیکن جلد ہی وہ برطانیہ چلے گئے۔ 1967میں انھوں نے کول بورڈ بر منگھم (برطانیہ)میں اپرنٹس کیمسٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ دنیا کی سیرو سیاحت کرنا ان کا دیرینہ خواب تھا اس لیے وہ اس سفر پر بہت مطمئن تھے۔ کینیڈا میں قیام کے دوران عبداللہ حسین کو بڑے کتب خانوں میں موجود عالمی کلاسیک کے مطالعہ کے مواقع ملے اور اس طرح انھیں نئے ادبی رجحانات سے آگاہی ملی۔ نامور امریکی ناول نگار اور افسانہ نگار ارنسٹ ہیمنگوے (Earnest Hemingway,B-21.7.1899,D-2-7-1961)سے ملنے کا موقع ملا۔ سال 1954میں ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والے اس امریکی ادیب نے سات ناول اور چھے افسانوی مجموعے لکھ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ عالمی شہرت کے حامل اس رجحان ساز امریکی ادیب کے منفرد اسلوب نے بیسویں صدی میں فکشن کے ادب پر دور رس اثرات مرتب کیے یہی وجہ ہے کہ اس کی اہم تصانیف کو امریکہ میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ عبداللہ حسین نے ارنسٹ ہیمنگوے کی تمام اہم تصانیف کا عمیق مطالعہ کیا بالخصوص 1952میں شائع ہونے والی اس کی تصنیف ’’The Old man and the Sea ‘‘عبداللہ حسین کو بہت پسند تھی۔ ارنسٹ ہیمنگوے کی اس معرکہ آرا تصنیف پر اُسے فکشن کے پو لٹزر انعام (Pulitzer Prize for Fiction)سے نوازا گیا۔ 1961 میں جب ارنسٹ ہیمنگوے نے امریکہ میں خود کشی کا ارتکاب کیا تو عبداللہ حسین کو اس سانحہ پر دلی صدمہ ہوا۔ کینیڈا سے عبداللہ حسین برطانیہ پہنچے اور برطانوی شہریت حاصل کرنے کے بعد یہاں طویل قیام کیا۔ اپنے قیام لندن کے عرصے میں انھوں نے ایک ذاتی مے خانہ (Off License)چلایا جہاں لندن کے رِند، ساقی، مے، خُم، پیمانہ اور پیرِ مغاں یک جا ہو کر بے خودی اور نشا ط کے فراواں مواقع سے فیض یاب ہوتے تھے۔
برطانیہ کے ایک نشریاتی ادارے بی بی سی نے عبداللہ حسین کی ایک کہانی ’’The return journeys‘‘کی اساس پر ’’Brothers in trouble ‘‘ کے نام سے ایک فیچر فلم بنائی۔ برطانیہ کے اسی نشریاتی ادارے نے عبداللہ حسین کے مشہور ناول’’اداس نسلیں ‘‘پر بھی ایک دستاویزی فلم تیار کی۔ ہجرت کے مسائل اور مہاجرین کے مصائب و آلام کے موضوع پر عبداللہ حسین کا پہلا انگریزی ناول ’’Emigre Journeys‘‘کے نام سے سال 2000میں لندن سے شائع ہوا۔ سال 2007میں عبداللہ حسین کی مقبول تصانیف (اداس نسلیں، باگھ، قید، رات، نشیب) پر مشتمل ایک مجموعہ شائع ہوا۔ اس مجموعے کو بھی قارئین ادب نے بہ نظر تحسین دیکھا۔ ان کے بیانیہ اسلوب میں جزئیات نگاری اور کردار نگاری میں حقیقت نگاری کو بالعموم بہت اہم خیال کیا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کا احوال بیان کرنا عبداللہ حسین کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ زندگی اپنی اصلیت کے اعتبار سے جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہی تو ہے۔ انسان کے جوہر محنت شاقہ ہی سے کھلتے ہیں اور خانۂ فرہاد میں روشنی کی شعاع دراصل شرر تیشہ کی مرہونِ منت ہے۔ عبداللہ حسین نے انسانی زندگی کی صبر آزما جد و جہد کو بہت اہم قرار دیا۔ پیدائش سے لے کر وفات تک انسان خوب سے خوب تر کی جستجو میں مصروف رہتا ہے۔ عملی زندگی میں انسان کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جبر کے کئی انداز اس کی راہ میں حائل ہو کر اس کے حوصلے کو پست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عبداللہ حسین نے اس بات پر اصرار کیا کہ جبر کے ہر انداز کو پائے استقامت سے ٹھکراتے ہوئے منزلوں کی جستجو جاری رکھی جائے۔ انتہائی نا مساعد حالات میں بھی حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھنا دانش مندوں کا شیوہ رہا ہے۔ اپنے ناول ’’باگھ‘‘ میں انھوں نے مسموم ماحول میں آس اور امید کی کلیوں کے نمو پانے کی کیفیت سامنے لانے کی کو شش کی ہے جو در اصل گردشِ حالات سیء مزاحمت کی ایک عملی صورت ہے۔ عبداللہ حسین کا شمار ان زیرک، فعال، مستعد اور جری تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہوائے جورو ستم میں بھی شمعِ وفا کو فروزاں رکھنے پر اصرار کیا اور تیشۂ حر ف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنا اپنا نصب العین بنایا۔ عبداللہ حسین کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
اداس نسلیں ( ناول۔ 1963)، باگھ (ناول۔ 1981)، The weary Generations(اداس نسلیں کا ترجمہ۔ 1999)، قید (ناولٹ 1989)، رات (ناولٹ۔ 1994)، نشیب (فکشن۔ 2011)، فریب (چھے کہانیاں۔ 2012)، نادار لوگ (ناول۔ 2014)
ادب اور فنون لطیفہ سے عبداللہ حسین کو قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت تھی۔ اداس نسلیں کی اشاعت کے موقع پر اس کے سرِ ورق کی تیاری کے لیے انھوں نے دنیا کے مایہ ناز مصور عبدالرحمٰن چغتائی کا انتخاب کیا، جو ان کے ذوق سلیم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عبداللہ حسین کی ادبی کامرانیوں کے اعتراف میں اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے انھیں کمالِ فن ایوارڈ (پانچ لاکھ روپے)سے نوازا گیا۔ عبداللہ حسین نے تخلیقی تجربوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ انھوں نے ہمیشہ وہی کچھ لکھا جو ان کے دل کی آواز تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جب ایک تخلیق کار پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو زندگی کی حقیقی معنویت اور مقصدیت کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں حریتِ فکر اور حریتِ ضمیر کو مشعلِ راہ بنانا لازم ہے۔ ان کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ حق گوئی و بے باکی کو شعار بنایا اور کبھی مصلحت وقت کی پروا نہ کی۔ ایک جری تخلیق کار کے جملہ افعال اور تخلیقی فعالیت کی بو قلمونی کے سوتے اس کے کردار سے پھوٹتے ہیں۔ عبداللہ حسین کے کردار کا اہم پہلو یہ رہا کہ انھوں نے جو لکھا وہ اپنے ذہن و ضمیر کے مطابق لکھا اور خارجی دباؤ کے سامنے سپر انداز ہونے سے ہمیشہ انکار کیا۔ بر محل، حقیقی اور صحیح کردار نگاری کے اعجاز سے عبداللہ حسین نے اپنے اسلوب کو نکھار عطا کیا۔ کئی مقامات پر سخت لہجہ اور چبھتے ہوئے تلخ الفاظ کی بھرمار قاری کے ذوقِ سلیم پر گراں گزرتی لیکن عبداللہ حسین نے الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ ہماری معاشرتی زندگی میں مسلسل شکستِ دل کے باعث وہ بے حسی ہے کہ چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے ملاقاتیں روز کا معمول ہے، سماعتیں معدوم، گویائی عنقا اور الفا ظ معانی سے محروم ہوتے چلے جار ہے ہیں۔ آج کے انسان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ انسان شناسی کی صلاحیت سے محروم ہے اور وہ اپنے وجود کے بارے میں بھی تشکیک میں مبتلا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشرتی زندگی بے ہنگم انتشار، خود غرضی اور افراتفری کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ اداس نسلیں کے بعد باگھ کی تخلیق میں عبداللہ حسین نے بارہ سال صرف کیے۔ ان بارہ برسوں میں انھوں نے اپنی زندگی کے مشاہدات، تجربات اور معاشرتی اور سماجی حالات و واقعات کے بارے میں نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ اپنے تاثرات کو پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے۔ اپنے ناول ’’باگھ‘‘ کو وہ اپنی سب تخلیقات سے زیادہ عزیز خیال کرتے تھے۔ اس کے باوجود اس ناول کو قارئین کی جانب سے وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کی مصنف کو توقع تھی۔ کرنل محمد خان کو بھی اسی نوعیت کے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی تصنیف ’’بجنگ آمد ‘‘کو اردو نثر میں طنز و مزاح کی بہترین کتاب قرار دیا جاتا ہے لیکن ان کی بعد میں لکھی جانے والی کتب جن میں بسلامت روی، بزم آرائیاں اور بدیسی مزاح شامل ہیں قارئین کی اس نوعیت کی والہانہ پذیرائی حاصل نہ کر سکیں جو بجنگ آمد کے حصے میں آئی۔
سال 1960کے اختتام پر عبداللہ حسین برطانیہ کا سفر کیا اور 1967میں انھیں برطانوی شہریت مل گئی۔ انھوں نے 1963میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی میڈیکل ڈاکٹر فرحت آرا سے شادی کی۔ 1964میں ان کی بیٹی نور فاطمہ پیدا ہوئی اور 1966میں بیٹا علی خان پیدا ہوا۔ یہ دونوں بچے کامیاب عملی زندگی بسر کر ر ہے ہیں۔ وہ 1992 میں وطن واپس آئے تھے اور اس کے بعد وہ مسلسل فروغ علم و ادب میں مصروف رہے۔ برطانیہ میں اپنے طویل قیام کے دوران میں ایک جہاں گرد سیاح کی حیثیت سے عبداللہ حسین نے دنیا کے جن ممتاز ادیبوں سے ملاقات کی ان میں گیبریل گارسیا مارکیز، گنٹر گراس، ٹی۔ ایس ایلیٹ، ژاں۔ پال۔ سارتر، ڈاکٹر این میری شمل، ژاک دریدا، اور رالف رسل کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان ملاقاتوں میں عبداللہ حسین کو عالمی ادب کے نئے رجحانات کو سمجھنے میں مدد ملی۔ سال 1948میں ادب کا نوبل انعام پانے والے امریکی ادیب ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ (پیدائش:225-9-1988وفات:4-1-1965)سے عبداللہ حسین نے کئی ملاقاتیں کیں اور جدیدیت کے موضوع پر اس کے خیالات معلوم کیے۔ ممتاز فرانسیسی ادیب اور ممتاز دانش ور ژاں پال سارتر (پیدائش:21-6-`1915 وفات:15-4-1980)سے بھی عبداللہ حسین نے ملاقات کی۔ ژاں پال سارتر کے مابعد الطبیعات، علم بشریات، مذاہبِ عالم اور تخلیقِ ادب کے بارے میں خیالات کی تفہیم میں مدد ملی۔ لندن میں اپنے قیام کے عرصے میں عبداللہ حسین نے جدید اردو نظم کے ممتاز شاعر اور ’’ماورا‘‘ اور’’ ایران میں اجنبی ‘‘جیسے اہم شعری مجموعوں کے خالق ن۔ م۔ راشد(راجا نذر محمد راشد، پیدائش:1-8-1910، وفات:9-10-1975)سے بھی کئی بار ملاقات کی۔ ممتاز شاعر ن۔ م۔ راشد کی زندگی کا یہ دور ان کے لیے نہایت کٹھن اور بہت صبر آزما تھا، ان کی پہلی بیوی صفیہ کا 1961میں انتقال ہو گیا تھا۔ اپنی اہلیہ صفیہ کی اچانک وفات کے بعد ن۔ م۔ راشد بہت دل گرفتہ اور مایوس رہنے لگے۔ عبداللہ حسین نے ان ملاقاتوں میں ن۔ م۔ راشد کا غم با نٹنے کی کوشش کی اور انھیں جذباتی صدمے سے نکلنے کے کئی مفید مشورے دئیے۔ اپنی تنہائیوں کا مداوا کرنے کے لیے ن۔ م۔ راشد نے 1964میں ایک اطالوی خاتون شیلا انجلینی(Sheila Angelini) سے عقدِ ثانی کر لیا۔ اس کے بعد بھی ن۔ م۔ راشد اور عبداللہ حسین کے باہمی رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ن۔ م۔ راشد ایک وسیع المطالعہ شاعر تھے اور عالمی کلاسیک پر ان کی گہری نظر تھی۔ ان کی شاعری پر جان کیٹس، رابرٹ براؤننگ اور میتھیو آرنلڈ کے جو اثرات ہیں، ان سے قاری کے دل کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوتا ہے۔ ن۔ م۔ راشد سے ان کا کلام ان کی زبانی سن کر عبداللہ حسین بہت متاثر ہوئے۔ اس شاعری میں زیرِ گرداب ڈوبتی مظلوم انسانیت کی نوائے حزیں سُن کر عبداللہ حسین کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔ قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اس شاعری میں ایسے شرارے ہیں جن سے دِلوں کے خرابے روشن ہو سکتے ہیں اور کاخ و کُو اور شہر و قریہ میں مقیم بے بس و لاچار انسان جو اپنی تمناؤں کی وسعت سے نا آشنا سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہے، اپنی حقیقت سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ اس شاعری میں تخلیق کار نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے:
موت کتنی تیرہ و تاریک ہے
ہو گی، لیکن مجھ کو اس کا غم نہیں
قبر کے اندھے گڑھے کے اس طرف
اس طرف، باہر، اندھیرا کم نہیں
ن۔ م۔ راشد کے اسلوب میں واضح اور شگفتہ خاطر معائر کی پاسداری، سماجی اور معاشرتی زندگی کے ارتعاشات کی حقیقی لفظی مرقع نگاری، جذبات و احساسات کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے کا منفرد انداز قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ادبی محفلوں میں جب بھی ن۔ م۔ راشد اپنی نظم’’ حسن کوزہ گر‘‘ سناتے تو عبداللہ حسین اور وہاں موجود سب سا معین ہمہ تن گوش ہو کر اس نظم کو سنتے :
زمانہ جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا و جام و سبُو
اور فانوس و گُلداں کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
عبداللہ حسین نے اگرچہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کو شعار بنایا لیکن زندگی کے آخری ایام میں انھوں نے اپنے انداز فکر میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوارڈز قبول کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔ سال 2004میں عبداللہ حسین کو قطر سے عالمی فروغِ ادب ایوارڈ ملااورسال 2012میں انھیں اکادمی ادبیاتِ پاکستان کی جانب سے کمالِ فن ایوارڈ عطا کیا گیا۔ سال 2002میں عبداللہ حسین کو رائل سوسائٹی آف لٹریچر کی فیلو شپ سے نوازا گیا۔ عبداللہ حسین کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ اپنی ذات میں سمٹے رہے اور کم آمیز رہنے میں سداعافیت محسوس کی۔ اس کے باوجود ان کی یہ کوشش ہوتی کہ معیاری ادبی نشستوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ لاہور آرٹس کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ادبی تقریبات میں شرکت کر کے وہ دلی مسرت محسوس کرتے تھے۔ اردو میں تنقید کے بارے میں عبداللہ حسین اور کلیم الدین احمد کے خیالات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ ان کے ناول ’’اداس نسلیں ‘‘کی اشاعت کے بعد اس پر جو تنقیدی تحریریں سامنے آئیں عبداللہ حسین ان سے ناخوش و بیزار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ’’اداس نسلیں ‘‘پر جتنے بھی تنقید ی مضامین تحریر کیے گئے ہیں ان میں سے ایک مضمون بھی لائقِ اعتنا نہیں۔ ایک تخلیق کار کی طرف سے تنقیدی مطالعات پر اس نوعیت کے شدت پسندانہ ردِ عمل کے باعث بعض اوقات اختلافِ آرا میں ناگوار تلخی کی صورت پیدا ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا۔ اردو تنقید کے معیار سے عبداللہ حسین نہ صرف مایوس تھے بل کہ وہ اردو نقادوں کی تنقید سے اپنی تصانیف کو محفوظ رکھنے کے آرزومند بھی تھے۔ ان کے خیالات سے یہ تاثر ملتا تھا کہ اردو نقادوں سے غیر جانب دارانہ تجزیاتی مطالعہ کی توقع اُٹھ جانے کے بعد وہ ان سے بچنے کے جتن کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی تصنیف ’’نادار لوگ ‘‘شائع ہوئی تو انھوں نے ادبی نقادوں پر یہ بات واضح کر دی کہ اس کتاب کا تجزیاتی مطالعہ ان کے لیے وقت اور محنت کا سکوئی صحیح مصرف نہ ہو گا۔ اب یہ قارئین ادب کا کام ہے کہ وہ اس تصنیف کے مطالعہ کے بعد اپنی آزادانہ رائے قائم کریں۔ عالمی ادبیات کے مطالعہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ تنقید ہر دور میں تخلیقی عمل پر کڑی نظر رکھتی ہے۔ اردو زبان کے نقادوں نے عبداللہ حسین کی تخلیقات اور لا شعوری محرکات کے بارے میں تاریخی تناظر میں کئی حقائق سامنے لانے کی کوشش کی۔ ناقدینِ ادب کا خیال ہے کہ قرۃالعین حیدر کے ناول ’’آگ کا دریا ‘‘کی اشاعت کے بعد ’’اداس نسلیں ‘‘کا منصۂ شہود پر آنا کئی سولات کو جنم دیتا ہے۔ اکثر ناقدین کا کہنا ہے کہ جہاں تک واقعات کا تعلق ہے ’’اداس نسلیں ‘‘کے بیش تر موضوعات کی ’’آگ کا دریا ‘‘کے واقعات کے ساتھ حیران کن حد تک مماثلت ہے۔ ناقدینِ ادب کی رائے ہے کہ بادی النظر میں اس سے ’’اداس نسلیں ‘‘ میں واقعات کی حد تک سرقہ کے گمان کو تقویت ملتی ہے۔ خود قرۃ العین حیدر نے بھی اپنی تصنیف ’’کارِ جہاں دراز ہے ‘‘میں اس جانب اشارہ کیا ہے۔ احمد فراز اور عبداللہ حسین کے درمیان بھی تلخی پیدا ہو گئی تھی، جس کا ازالہ نہ ہو سکا۔ پاکستان میں آدم جی ایوارڈ کے حصول کے سلسلے میں ادا جعفری اور مصطفٰی زیدی کی معاصرانہ چشمک بھی تاریخِ ادب میں مذکور ہے۔ آدم جی ایوارڈ کے حصول کی اس جد و جہد میں ادا جعفری تو اپنے شوہر نور الحسن جعفری (جو وفاقی حکومت میں بہت بڑے افسر تھے) کی اعانت سے یہ انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں لیکن مصطفٰی زیدی یہ سب کچھ دیکھ کر ادا جعفری کی ہجو لکھ کر اپنا تزکیہ نفس کرنے پر مجبور ہو گئے۔ در اصل معاصرانہ چشمک ادیبوں کی زندگی کا ایک المیہ رہا ہے اور اس نوعیت کے سانحات ہر دور میں ہوتے رہے ہیں۔ اس دنیا میں تمام انسان زینہ زینہ وقت کی تہہ میں اتر جاتے ہیں اور آخر کار وہ لمحہ آ پہنچتا ہے جب وہ قلزمِ خوں پار کر جاتے ہیں اور ان شخصیات کی زندگی سے وابستہ اس نوعیت کے تلخ واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔ آنے والا وقت اس قسم کے نا خوشگوار واقعات کا کڑا احتساب کرے گا۔ بہ قول شاعر :
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
اردو ادب کی تاریخ میں ساٹھ کی دہائی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، یہی وہ عشرہ ہے جسے اردو فکشن کے عہدِ زریں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس عرصے میں اردو فکشن میں تخلیقی تنوع اور اور نئے تجربات کے اعجاز سے جمود کا خاتمہ ہوا اور افکار تازہ کی مشعل تھام کر ادیبوں نے جہانِ تازہ تک رسائی کو یقینی بنانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ اور عبداللہ حسین کا ناول ’’اداس نسلیں ‘‘ کواسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جاتا ہے۔ عبداللہ حسین نے عالمی جنگوں کی تباہ کاریوں، ہلاکت خیزیوں اورتقسیمِ ہند کے مسائل کو نہایت خلوص اور دردمندی سے ’’اداس نسلیں ‘‘کا موضوع بنایا ہے۔ اس ناول میں پنجاب کی دیہی اور شہری معاشرت اور یہاں کی زندگی کے معمولات کی لفظی مرقع نگاری جس حقیقت پسندانہ انداز میں کی گئی ہے، اس کے مطالعہ سے اُردو زبان و ادب کا قاری چشمِ تصور سے اس زمانے کی اجتماعی زندگی کے تمام حالات، واقعات، ارتعاشات اور نشیب و فراز چشمِ تصور سے دیکھ لیتا ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے عبداللہ حسین نے الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنے ذہن، ضمیر اور روح کے جملہ احساسات و تجربات کو پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے تغیرِ حال پر جانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ تو زمانے کے اتفاقات کا ثمر ہے۔ ہمارا رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے، ہمارا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی ہمارا پاؤں رکاب میں ہے۔ اس عالمِ آب و گِل میں ہماری حیاتِ مستعارایک جبرِ مسلسل کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ عبداللہ حسین کے اسلوب کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے زندگی کو ایک حباب اور کارِ جہاں کو ایک سراب سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ یہ بے ثبات کارِ جہاں اس قدر گنجلک، پیچیدہ اور الجھا ہوا ہے کہ اسے جس قدر سلجھانے کی سعی کی جائے یہ اسی قدر مزید اُلجھتا جاتا ہے۔ عبداللہ حسین کی تحریروں کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جب طائرانِ خوش نوا دانہ چُگنے کی ہوس میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے انجام سے بے خبر، دام کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بے اختیار دانہ چگنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور صیاد کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ اب قفس میں پھنس جانے والے یہ طیور خواہ کتنا ہی پھڑ پھڑائیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اسی طرح انسانوں کے لیے بھی دکھوں اور اتفاقات کے متعدد چھوٹے بڑے جال ہر سُو بکھرے ہوئے ہیں۔ بے بس و لاچار انسان جب دکھوں کے ان جالوں میں جکڑے جاتے ہیں تو نہ تو ان کی کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی اصلاحِ احوال کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں اور نامیوں کے نشان کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔ قلزمِ ہستی کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ کے دام کی موجودگی ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ جنگوں، ترکِ وطن کے باعث عذابِ در بہ دری، آفاتِ ارضی وسماوی، اتفاقات اور سانحات کے چار سُو بکھرے ہوئے جال دُکھی انسانیت کے لیے وبال بن گئے ہیں۔
تاریخ اور اس کے مسلسل عمل سے عبداللہ حسین کو قلبی لگاؤ تھا۔ انھوں نے فرد کی آزادی اور آزادی کے مجموعی احساس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ حریت فکر کے معجز نما اثر سے فکر و خیال، ذہن و ذکاوت اور شعور کی جِلا کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ تاریخ ہی ہے جو ماضی کے واقعات پر پڑ جانے والی ابلقِ ایام کے سموں کی گرد کو صاف کرتی ہے اور آفاقی صداقتوں کی جانب متوجہ کر کے اوہام کے تارِ عنکبوت صاف کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل سے اسی دلچسپی کی بنا پر ناول ’’باگھ ‘‘میں عبداللہ حسین نے 1965کی پاک بھارت جنگ کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ اپنے ناول ’’نادار لوگ ‘‘میں عبداللہ حسین نے 1971میں سقوطِ ڈھاکہ کی اساس پر اپنے اسلوب کا قصر تعمیر کیا ہے۔ عبداللہ حسین کو اس بات کا قلق تھا کہ مسلسل شکستِ دِل کے باعث معاشرتی زندگی سے امن و عافیت نے کُوچ کر لیا ہے اور بے حسی کا عفریت ہر سُو منڈلا رہا ہے۔ قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ معاشرہ اپنے لیے خود ساختہ عمو می معائر کا انتخاب کر کے من مانی کرتا ہے۔ عفو و درگزر اور عدل و انصاف کو بارہ پتھر کر دیا گیا ہے۔ خیر اور شر میں امتیاز کی روایت اب عنقا ہے۔ عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک گھنے جنگل اور بھیانک تیرگی میں پھنس گئے ہیں جہاں جنگل کا قانون پوری ہیبت کے ساتھ نافذ ہے۔ آج مغربی تہذیب اپنی جن روایات پر نازاں ہے ان کے کھوکھلے پن سے ہر شخص آگاہ ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مغربی معاشرے میں سقراط کو 399قبل مسیح میں زہر کا پیالہ پلا دیا گیا اور اٹلی کے فلسفی گیوارڈانوبرونو(Giodano Bruno)کو نظریاتی اختلافات کے باعث زندہ جلا دیا گیا۔ مغرب میں اسی نوعیت کا انتہائی سخت سلوک تینتیس سالہ امریکی نوجوان ڈک ٹرپن( DickTurpin) کے ساتھ ہوا جسے گھوڑا چوری کرنے کے جرم کی پاداش میں 1739میں دار پر کھنچوا دیا گیا اور بوٹملے( Horatio Bottomley)کے ساتھ بھی سیاست میں اسی نوعیت کا سلوک روا رکھا گیا۔ مغرب میں لذتِ ایذا (Sadism)کو ہمیشہ ایک پسندہ مشغلہ سمجھا گیا ہے۔ عبداللہ حسین کی دلی تمنا تھی کہ مشرقی تہذیب و ثقافت کو فروغ ملے اور ان کے وطن میں ایسی فصلِ گُل اترے جو زوال کے اندیشے سے نا آشنا ہو اور اہلِ وطن ظلمتِ شب کے شاکی رہنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں رکھ کر سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنی تاریخ اور تہذیب سے ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ اگر افرادِ معاشرہ اخوت کا بیاں اور محبت کی زباں بن جائیں تو معاشرتی زندگی امن و عافیت کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ عبداللہ حسین کی دلی تمنا تھی کہ مغربی طرزِ زندگی سے حذر اور مشرقی روایات و اقدار سے بیزاری کے بجائے اقتضائے وقت کے مطابق معاشرتی زندگی کی ناہمواریوں ، بے اعتدالیوں، سفاکی اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ معاشرتی زندگی میں انصاف کُشی سے وہ سخت نفرت کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا جس معاشرے میں مظلوم کو انصاف نہ مل سکے وہاں حالات کا تمام منظر نامہ تہس نہس ہو جاتا ہے اور زندگی کی رعنائیاں گہنا جاتی ہیں اور رُتیں بے ثمر ہو جاتی ہیں۔ معاشرتی زندگی میں عدل و انصاف کو یقینی بنانے سے شبِ تاریک کو سحر کیا جا سکتا ہے۔ عبداللہ حسین کے منفرد اسلوب کے اعجاز سے زندگی کی حقیقی معنویت اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے، ان کی مستحکم شخصیت کا اہم پہلو یہ تھا کہ ان سے مِل کر زندگی سے والہانہ محبت کے جذبات کو نمو ملتی۔
عملی زندگی میں عبداللہ حسین نے فروغِ علم و ادب میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کی نئی نسل زندگی کی برق رفتاریوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے سلسلۂ روز و شب کو وقت کے تقاضوں کے مطابق اس سانچے میں ڈھالے کہ طلوعِ صبحِ بہاراں کے امکانات کو یقینی بنایا جا سکے۔ نوجوان نسل سے ان کا یہ تقاضا رہا کہ وہ اپنی پرانی دلچسپیوں کا متبادل تلاش کریں اور نئی ایجادات میں دلچسپی لیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ بے لوث محبت اور بے باک صداقت کے وسیلے سے افراد اپنی ذات کے صنم خانے سے باہر نکل کر سماج اور معاشرے کے ساتھ ایک حیاتیاتی رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ معاشرے اور سماجی زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کرنے سے مستقبل کے لیے ایک واضح لائحۂ عمل مرتب کیا جا سکتا ہے۔ طالب علموں کی علمی اعانت کر کے عبداللہ حسین دل خوشی محسوس کرتے تھے۔ پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والے نوجوان محقق شبیر احمد اختر کو ایم۔ فل سطح کے اپنے تحقیقی مقالے ’’اردو افسانے کا ارتقا‘‘ کے لیے مواد کے حصول میں دشواریوں کا سامنا تھا۔ اس سلسلے میں عبداللہ حسین کی مشاورت اس نو جوان محقق کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوئی اور وہ بر وقت اپنا تحقیقی کام مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ خوشاب کی ایک ذہین طالبہ ذکیہ بدر جب ایم۔ فل اردو کا تحقیقی مقالہ ’’خواجہ دِل محمد :حیات و ادبی خدمات‘‘ لکھ رہی تھیں تو تحقیقی مواد کی عدم دستیابی ان کی راہ میں سدِ سکندری بن گئی۔ عبداللہ حسین نے اس پریشان حال طالبہ کی مآخذ تک رسائی میں مدد کی اور وہ موضوعِ تحقیق سے انصاف کر سکی۔ دنیا بھر کی جامعات میں زیرِ تعلیم طلبا و طالبات ان سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ عالمی ادب اور اردو ادب کے موضوع پر عبداللہ حسین کی رائے کو سب قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اپنے اس علمی و ادبی محسن کا نام سن کر نوجوان طالب علموں کی آنکھیں ممنونیت کے جذبات سے بھیگ بھیگ جاتیں۔ عبداللہ حسین کی رحلت کے بعد سب طالب علم یہی کہتے ہیں کہ اب ایسی نایاب ہستیاں کہاں ملیں گی؟
پاکستانی ادیبوں کے ساتھ معتبر ربط کا سلسلہ عبداللہ حسین نے زندگی بھر بر قرار رکھا۔ پاکستانی ادیبوں کے مسائل و مشکلات سے آگاہ رہتے اور ان کے مسائل کے حل اور مشکلات کے ازالے کے لیے مقدور بھر کوشش کرتے تھے۔ جب بھی کو ئی انھیں فون کرتا وہ اس کی بات توجہ سے سنتے اور نہایت مختصر، جامع اور مدلل جواب دیتے۔ موصول ہونے والی ٹیلی فون کا ل کے جواب میں اختصار کا سبب یہ ہوتا کہ کال کرنے والے پر کم سے کم مالی بوجھ پڑے۔ اس کے بر عکس جب عبداللہ حسین خود کسی سے رابطہ کرتے تو اس کے ساتھ جی بھر کر باتیں کرتے اور اسے اپنا محرم راز سمجھ کر اسے اپنی زندگی کے روز و شب کے معمولات سے ضرور آگاہ کرتے تھے۔ خون کے سرطان کے عارضے میں مبتلا پروفیسراطہر ناسک کا تعلق راجن پور سے تھا سال 2012 کے اواخر میں وہ میو ہسپتال، لاہور میں زیر علاج تھے تو عبداللہ حسین اپنے اس دیرینہ آشنا اور مداح کی عیادت کے لیے میو ہسپتال پہنچے اور مقتدر حلقوں کو اس زیرک ادیب کے مصائب و آلام سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر اطہر ناسک نے عبداللہ حسین اور اپنے احباب کی موجودگی میں جب اپنے یہ اشعار پڑھے تو سب کی آنکھیں نم ہو گئیں :
یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہو ں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں
گزر ہی جائیں گے ناسک یہ دن بغیر گِنے
میں اپنے وقت کی پہچان کچھ دنوں کا ہوں
پروفیسر اطہر ناسک کے ساتھ زندگی نے وفا نہ کی اور اس تخلیق کار نے 11۔ نومبر2012کی شام میو ہسپتال، لاہور میں آخری سانس لی۔ پروفیسر اطہر ناسک کی نظر میں عبداللہ حسین کی بہت عزت تھی اور وہ عبداللہ حسین کے خلوص اور انسانی ہمدردی کے دل سے معترف تھے۔ عبداللہ حسین نے جن ادیبوں کے ساتھ خلوص و دردمندی کا تعلق زندگی بھر استوار رکھا ان میں رام ریاض، بشارت خان، دیوان احمد الیاس نصیب، معین تابش، نور زماں ناوک، عطا شاد، خادم مگھیانوی، سید مظفر علی ظفر، غفار بابر، فیض لدھیانوی، گداحسین افضل، صابر کلوروی، بشیر سیفی، صابر آفاقی، نثار احمد قریشی، امیر اختر بھٹی، مظہر اختر، خیر الدین انصاری، محمد محمود احمد، آفاق صدیقی، عاشق حسین فائق، احمد تنویر، انعام الحق کوثر، سمیع اللہ قریشی، نظیر صدیقی، فیروز شاہ، رحیم بخش شاہین، محمد علی صدیقی، سرشار صدیقی، رفعت سلطان، اقبال زخمی، آصف خان، اشفاق احمد، خاطر غزنوی اور سجاد بخاری کے نام قابل ذکر ہیں۔ حیف صد حیف کہ گلشن ادب کے یہ سب کے سب آبلہ پامسافر راہِ جہاں سے گزر گئے اور ایک ایک کر کے ستاروں کے مانند افق علم و ادب سے ہمیشہ کے لیے غروب ہو گئے۔ ان کی یادیں فضاؤں میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے ان کی تصویر دکھائی دیتی ہے اور ان کے دبنگ لہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔
بیسویں صدی کی معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز جس حقیقت پسندانہ انداز میں عبداللہ حسین کے اسلوب میں سماگئے ہیں ان کے مطالعہ سے تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں مثبت شعورو آگہی پروان چڑھانے کی مساعی کو تقویت ملتی ہے۔ تاریخ سے عبداللہ حسین کی دلچسپی ان کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ یہ تاریخ ہی ہے جو فرد کو اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی پر مائل کرتی ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے تخلیق کار اپنے ہر عمل کا خود احتساب کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ ایسے یگانۂ روزگار ادیبوں کا منفرد اسلوب قارئین کے فکر و نظر کو بھی مہمیز کرتا ہے۔ تاریخ اوراس کے مسلسل عمل کی مسحور کن اثر آفرینی جب فکر و خیال اور ذہن و ذکاوت میں ر چ بس جاتی ہے تو تخلیق کار جب اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھانے کے لیے قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اس کا ہر لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم بن جاتا ہے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ عبداللہ حسین کی تحریریں صرف تاریخ کے معتبر حوالوں کی وجہ سے مقبول ہوئیں۔ ان کی تصانیف کے مطالعہ سے ذہن و شعور کی گتھیاں سلجھانے میں مدد ملتی ہے اور فہم و ادراک کو نئے آفاق تک رسائی ملتی ہے۔ عبداللہ حسین نے ہمیشہ تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے تحفظ پر اصرار کیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اقوام اور ملل کے جاہ و جلال اور تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں دریا برد ہوسکتے ہیں لیکن تہذیب انتہائی کٹھن حالات میں بھی اپنا وجود بر قرار رکھتی ہے۔ تہذیبی اقدارو روایات افراد کو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر تہذیب کو نسلِ نو میں منتقل کرنے میں ایک صدی کی مجرمانہ غفلت کا ارتکاب ہو جائے تو پھر بد قسمتی سے وہ قوم پتھر کے زمانے کے ماحول میں پہنچ جاتی ہے۔ عبداللہ حسین نے اپنے منفرد اسلوب میں تہذیب و تمدن کے فروغ اور ارتقا کو اپنا مطمح نظر بنایا اور عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ جہد للبقا کے موجودہ دور میں صرف وہی تہذیب و ثقافت اپنا وجود بر قرار رکھ سکے گی جو تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے تقاضوں کی تفہیم کی صلاحیت سے متمتع ہو۔ اگر ہماری تہذیب و ثقافت میں نئے دور کے چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کی استعداد پیدا ہو جائے تو اس کی بقا اور دوام کالنقش فی الحجر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو تہذیب و تمدن بدلتے ہوئے زمانے کے حالات کے چیلنج کی تفہیم سے عاری رہے اور اس کا جواب دینے کی استعداد سے محروم تھے وہ لوحِ جہاں سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئے۔ عبداللہ حسین نے اپنے اسلوب میں تاریخی واقعات اور صداقتوں کواس طرح پیش کیا ہے کہ قاری سمجھ جاتا ہے کہ زمانہ ماضی کے یہ سب واقعات محض آثارِ قدیمہ نہیں بل کہ یہی تو ہماری میراث ہے جس میں ہمارے اسلاف کی فکر کے بیش بہا خزینے پوشیدہ ہیں۔ ان کا مطالعہ اس لیے افادیت کا حامل ہے کہ آنے والی نسلیں ان حقائق کو جاننے کے بعد اپنے لیے ایک واضح دستور العمل مرتب کر سکتی ہیں۔
عبداللہ حسین نے اپنی تخلیقی فعالیت سے اردو زبان و ادب اور اردو فکشن کی ثروت میں جو گراں قدر اضافہ کیا ہے اس کا عدم اعتراف نا شکری اور احسان فراموشی کے مترادف ہے۔ ان کی تخلیقات انھیں شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کریں گی۔ ان کی تخلیقی تحریروں کے مطالعہ سے قارئینِ ادب کو نہ صر ف قلبی طمانیت، روحانی سکون، اور ذہنی مُسرت اور حقیقی حظ نصیب ہوتا ہے بل کہ ان سدا بہار، پُر تاثیر اور بیانیہ ادب پاروں کے وسیلے سے قاری اپنی جنم بھومی کے ارضی و ثقافتی حوالے، اس خطے کی صدیوں کی تاریخ کے نشیب و فراز اور ماضی کے اوراقِ نا خواندہ پربھی نگاہ ڈال سکتا ہے۔ عبداللہ حسین نے فروغِ علم و ادب کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ پرورشِ لوح و قلم ہی ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور جو کچھ ان کے دل پر گزرتی، اسے و ہ بلا کم و کاست زیب قرطاس کر دیتے۔ اپنی شدید علالت کے دوران بھی وہ تخلیق فن میں مصروف رہے۔ وہ اپنے احباب سے کبھی غافل نہیں رہے بل کہ کمپیوٹر پر ان کا دنیا بھر کے ادیبوں سے مسلسل رابطہ رہا۔ یہ بات ان کے صبر و تحمل اور قوت برداشت کی دلیل ہے۔ مختلف ویب سائٹس پر ان کے ادبی تبصرے اور علمی موضوعات پر تجزیاتی آرا نہایت توجہ سے پڑھی جاتی تھیں۔ نہ صر ف پاکستان بل کہ دنیا بھرمیں انٹر نیٹ پر ان کے لاکھوں مداح موجود تھے جو ان کی وفات کی خبر سن کر شدید صدمے سے دو چار ہو گئے۔ فرشتۂ اجل کے ہاتھوں ایک دبنگ لہجہ، ایک بے خوف آواز اورمستند تخلیقی اسلوب جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ آہ!اردو ادب کا ہنستا بو لتا چمن ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا ہے۔ اب اور کیا لکھوں اور کیسے لکھوں ، ہجومِ غم میں ڈوبتے دل کو اپنے ہاتھوں سے تھام رکھا ہے اور ہاتھ دِل سے جُدا کرنے پر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اللہ حافظ :عبداللہ حسین
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے