یادش بخیر، ایک زمانہ تھا جب دہلی سے بے حد ہر دل عزیز ماہنامہ ’شمع‘ نکلتا تھا۔ جو اگرچہ فلمی رسالہ تھا لیکن اس میں ادب کے حصے میں بڑے بڑے نام شامل ہوتے تھے۔ جس زمانے میں ترقی پسندی کا بول بالا تھا، اس زمانے میں کرشن چندر، راجیندر سنگھ بیدی ، عصمت چغتائی اور رام لعل شامل ہوتے تھے۔ اسی جریدے میں دو سلسلے بھی کافی پسند کئے جاتے تھے۔ ایک ’بلا عنوان‘ کے نام سے افسانہ دیا جاتا تھا جس کا عنوان کا قارئین کو مشورہ دینے کا کہا جاتا تھا، اور انہیں اس پر انعام ملتا تھا۔ اور دوسرا سلسلہ، جس کی خاطر میں نے اتنی لمبی تمہید باندھی ہے، ایک اور افسانے کا تھا، اس سلسلے کا عنوان ہوتا تھا ’ مختصر مختصر کہانی۔۔ ایک ہی صفحے میں مکمل‘ کیونکہ یہ رسالہ با تصویر ہوتا تھا، اس لئے ایک صفحے کی قید تھی، الفاظ کی تعداد کی نہیں تھی۔ اگر کسی کی بہت مختصر کہانی شائع ہوتی، تو ’شمع‘ کے مصوّر (اکثر تصویروں پر ’صدیقی‘ نام ہوتا تھا) تو باقی ماندہ صفحہ تصویر سے پر ہوتا تھا، اور اگر اس کی الٹی بات ہوتی، تو تصویر کو مختصر کر دیا جاتا تھا، تاکہ مکمل کہانی ایک ہی صفحے کی حدود میں برقرار رہے۔
اس تمہید کا یہ مقصد بھی ہے کہ کچھ اس صنف کو پکارنے کا بھی درست انتظام ہو جائے۔ منٹو ، جن پر الزام ہے کہ انہی نے اس کی داغ بیل ڈالی تھی، نے ان کو محض افسانہ کہا تھا اور ۱۹۴۸ء میں شائع کرواتے وقت سیاہ حاشئے کا نام دیا گیا تھا۔ چنانچہ اس سے یہ مراد تھی کہ وہ خود اس کو مختلف صنف نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کو افسانہ بھی نہیں سنجھتے تھے، محض تقسیم کے دوران ہند و پاک کے حالات پر حاشئے تصور کرتے تھے۔ اس کے بعد جب ’نئے چراغ‘ کا زمانہ آیا تو مظفر حنفی نے انہیں افسانچہ کے نام سے پکارا، لیکن اس کے بعد کچھ لوگوں نے اسے منی کہانی کا نام بھی دیا۔
اور ادھر پانچ سات سال سے برطانیہ میں مقیم مقصود الٰہی شیخ نے اپنے مختصر افسانے کو ’پوپ کہانی‘ کے نام سے پکارا ہے، جو پوپ میوزک کی متوازی اصطلاح ہے۔ اگرچہ کچھ حضرات نے اسے سنجیدگی سے قبول کیا ہے، لیکن اکثر اس اصطلاح کو چٹکلا ہی سمجھتے ہیں۔
انگریزی ادب میں الفاظ کی تعداد کے حساب سے بھی مختصر کہانیوں کو پکارا گیا ہے۔ دس الفاظ، یا بیس الفاظ کی کہانیاں۔ میرے ذاتی خیال میں مختصر کی تو کوئی حد نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی ایک ہی لفظ کو کہانی پکارنا چاہے تو ہم کون ہوتے ہیں جو اسے نہ مانیں! البتہ اس کی زیادہ سے حد کی حد بندی تو کی جا سکتی ہے۔
اب یہاں ہی دیکھئے، منٹو کے ’سیاہ حاشئے‘ سے یہاں دی گئی مختلف کہانیوں میں الفاظ کی تعداد اس طرح ہے:
مزدوری ۷۲۷ الفاظ
ساعتِ شیریں ۲۷ الفاظ
سوری ۳۲ الفاظ
رعایت ۲۲الفاظ
الہنا 21 الفاظ
آرام کی ضرورت ۱۴ الفاظ
میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ مختصر مختصر کہانی میں الفاظ کی تعداد ایک ہزار تک محدود رکھی جائے، اور اس سے بڑی کہانیوں کو مکمل افسانہ کا درجہ دیا جائے۔
دوسری بات یہ بھی کہنی ہے کہ کیا واقعی منٹو کو اس صنف کا موجد قرار دیا جائے؟
حال ہی میں مجھے یلدرم کی ایک مختصر کہانی ملی جو علی گڑھ میگزین میں علی گڑھ فکشن نمبر (مدیر: امتیاز احمد) میں شائع ہوئی تھی، اس کی پہلی بار اشاعت کس جریدے میں عمل میں آئی، یہ قارئین کی جستجوکے حوالے کرتا ہوں لیکن یہ یقین ہے کہ یہ ۱۹۴۷ء سے قبل ہی ہو گی، اور یقیناً پہلی منی کہانی/ افسانچہ ہو گی۔ یہ صرف ۴۸۷ الفاظ کی کہانی ہے۔ ملاحظہ کریں:
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
قوّت۔۔۔ سجاد حیدر یلدرم
___________________________
گلی کے کنارے اس مجمع کو اکثر دیکھا کرتا تھا۔ مزدوروں کے، قلیوں کے لڑکوں کے غول کے غول دوپہر کو وہاں کھیلتے ہوتے تھے،آپس میں الجھتے تھے، چیختے تھے، چلاتے تھے۔
ایک دن میں اس راستے سے گزر رہا تھا ، لڑکوں کا مجمع تو تھا مگر کھیل نہ تھا بلکہ لڑکے حلقہ باندھے کسی چیز کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مزے دار تماشا انہیں بہت لطف دے ریا تھا۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ میں نے دیکھا کہ جسے وہ اس ذوق و شوق سے دیکھ رہے تھے، وہ ایسا تماشا تھا جو غالباً ان کی تفریحِ طبع کے لئے روز ہوتا ہو گا۔ایک لڑکا جو سن میں سب سے زیادہ معلوم ہوتا تھا، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ قریب قریب جوان ہو چکا تھا، متکبرانہ بیچ میں کھڑا تھا اور ایک چھوٹا لڑکا اس سے دست و گریبان ہو رہا تھا۔ بڑا لڑکا اس کو چپتا رہا تھا اور غلیظ گالیاں دے دے کر اپنے سے علاحدہ کر رہا تھا۔ چھوٹا لڑکا گھونسے کھا رہا ہے، بڑے لڑکے کے ہر جھٹکے پر زمین پر گر پڑتا ہے، ہر گھونسے اور ہر تھپّڑ پر ہائے کی آواز اس کی جگر گاہ سے نکلتی ہے، مگر گر کے اٹھتا ہے، روتا جاتا ہے ، رونے سے اور زمین پر گرنے سے اس کے بال، اس کا چہرہ خاک آلود ہو رہے ہیں ، لیکن وہ پھر بڑے لڑکے سے غصے میں چمٹ جاتا ہے۔ ہچکیاں بندھ رہی ہیں ، مگر کہے جاتا ہے ’’میری ہے، لاؤ‘‘۔
یہ کہہ کر ایک قمچی کو بڑے لڑکے سے چھیننا چاہتا ہے۔ ہر طلبِ حق کے مقابلے میں اسےایک گھوبسا، ایک لات ملتی ہے جسے کھا کر وہ لڑکھڑا کے پیچھے ہٹتا ہے، مگر پھر آگے آتا ہے۔ رونے اور چیخنے کی وجہ سے اس کی آواز بیٹھ گئی ہے۔ اس کا عجز و ضعف بڑھتا جا رہا ہے، لیکن اپنی قمچی اس سے واپس لینے کی کوشش کئے جا رہا ہے۔
آخر کار اس پر ایسا لپّڑ پڑا جس سے وہ بھنّا گیا اور چکر کھا کر زمین پر گر پڑا۔ اب اس میں اٹھنے کی قوت بھی نہ رہی تھی، کمزوری سے زمین پر پڑا رو رہا تھا اور بڑے لڑکے کو گالیاں دے رہا تھا۔ اور وہ جبرو قہر سے حاصل کی ہوئی قمچی کو متفخرانہ انداز سے ہلا ہلا کے اس چھوٹی سی مخلوق کی جو حلقہ باندھے کھڑی تھی (اور جو قوت کے مقابلے میں عاجز کو ہیچ جانتی تھی) قہقہوں تالیوں میں جھومتا ہوا چلا گیا۔
عین اس وقت اس منظر کے اوپر سے ایک کوا جس نے ایک آشیانۂ شفقت میں گھس کر ابھی ابھی انڈوں کو پھوڑا تھا، اور انہیں کھا کر شکم سیر ہوا تھا، مصنوعی فرار کے انداز سے گزر رہا تھا، اور فیض مادرانہ میں بھری ہوئی ایک مینا، سادہ لوحی سے ٹھونگیں مارنے کی کوشش کر کر کے قوت اور حیلے کو اپنے زعم میں مجروح کر رہی تھی۔
٭٭٭