جن کی جیت ہوئی تھی ان کا جلوس قریب آ رہا تھا اور جن کی ہار ہوئی تھی وہ جانے کی تیاری کر رہے تھے مگر چوراہے پر پچھلے کئی گھنٹوں سے جام لگا تھا کیونکہ چوراہے پر دو لاشیں تھیں۔
رکی ہوئی ٹریفک میں وہ بیمار بھی تھا جسے ہسپتال پہنچانے کی خاطر سائیکل رکشہ والے کی قمیص پسینے سے بھیگ کر چمٹ گئی تھی۔ اس کی سانسیں پھول رہی تھی۔ وہ مزدور بھی تھا جس کی سانسیں اس لیے رکی جا رہی تھیں کہ دیر سے پہنچنے پر فیکٹری کا مالک اس کی چھٹی نہ کر دے۔ وہ پریشان تھا۔ وہ طالب علم بھی تھا جس کے امتحان شروع ہونے میں چند منٹ باقی تھے۔ وہ حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔
دونوں لاشیں کی شناخت ہو چکی تھی۔ اتفاقاً دونوں کا نام روشن بتایا گیا تھا ایک روشن لال اور دوسرا روشن علی، دونوں غریب اور دونوں جوان تھے۔ ایک مندر بنانے کے لیے سرپرکفن باندھ کر نکلا تھا۔ اور دوسرا مسجد بچانے کی خاطر سر ہتھیلی پر رکھ کر چوراہے پر آیا تھا دراصل آئے تھے یا بھیجے گئے تھے یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ دونوں کو کب کس نے اور کیسے مارا یہ سوال کوئی کرتا تو شاید جواب ملتا مگر چوراہے پر رکی ٹریفک یہ جاننے کے لیے بے تاب تھی کہ کب یہ معلوم ہو سکے کہ دونوں میں روشن لال کون ہے اور روشن علی کون ہے تاکہ لاشوں کو وارثوں کے حوالے کر دیا جائے۔
پولیس کو یہ پریشانی تھی کہ کہیں ابلتے پانی کا ڈھکن اڑ نہ جائے اور فسادات شروع ہو جائیں۔ مگر وہ بھی کیا کرسکتے تھے۔ دونوں لاشیں ہم شکل تھیں۔ دو جڑواں بھائیوں کی طرح۔ ظاہر ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے اور یوں ٹریفک رکی رہی۔ جانے کب تک۔۔!
٭٭٭