اس چھوٹے سے گھر میں صرف دو کمرے تھے۔ ایک کمرے کو ان لوگوں نے بیڈروم بنا دیا اور دوسرے کو ڈرائنگ روم۔ دونوں کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور دونوں ہی کو گھر کو سجا کر رکھنے کا شوق تھا۔ جب اس چھوٹے سے گھر میں ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی جاچکی تو ان دونوں نے ناقدانہ نظروں سے پورے گھر کا جائزہ لینا شروع کیا۔ بیڈروم میں ایک مسہری ، ایک سنگار میز اور ایک لوہے کی الماری تھی۔ الماری کے اوپر ان لوگوں نے کپڑوں کا بکس رکھ دیا تھا اور اسے ایک خوبصورت کپڑے سے ڈھک دیا تھا۔ ڈرائنگ روم میں ایک صوفہ سیٹ تھا اور ڈائننگ ٹیبل رکھا تھا۔ کونے میں رکھا ٹی وی کمرے کی شوبھا کو اور بڑھا رہا تھا۔ اس کے اوپر دیوار سے لگے فریم میں دونوں کی مسکراتی ہوئی تصویریں تھیں۔ دیوار سے لگی ایک الماری تھی جس میں کچھ ناول، چند شعراء کے دیوان اور جنس کے موضوع پر کچھ کتابیں تھیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں پر پردے لگ جانے کے بعد تو کمرے کی خوبصورتی کچھ اور ہی بڑھ گئی تھی۔ غرض کہ یہ چھوٹا سا مکان ہر طرح سے سیٹ ہو چکا تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی جاچکی تھی اور اگر کوئی مسئلہ تھا تو وہ مقدس کتاب جسے عورت اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئی تھی۔ بیڈروم میں تو سوائے الماری کے کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں اسے رکھا جا سکتا تھا اور اس کے اوپر کپڑوں کا بکس رکھا تھا۔ ڈرائنگ روم میں یا تو اسے ٹی وی کے اوپر رکھا جا سکتا تھا یا پھر کتابوں کی الماری میں لیکن دونوں ہی جگہوں پر اس کی بے حرمتی ہوتی کیونکہ ٹی وی پر تصویریں آتی ہیں اور الماری میں جنسی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ دونوں کافی دیر تک سر جوڑے اس مسئلے کا حل سوچتے رہے۔ آخر میں عورت نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔
’’کیوں نہ اسے مسجد میں بھیج دیا جائے۔‘‘
مرد نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے پاس کہنے کو اب رہا ہی کیا تھا۔
٭٭٭