وہ شہر کی ایک عظیم الشان مسجد تھی۔ ایمان کی حرارت والوں کی شب و روز محنت اور عزم و حوصلے کا نادر کارنامہ۔ آج سے کوئی پچاس برس پہلے اس کی تعمیر میں پورے تین لاکھ روپئے خرچ ہوئے تھے۔ مسجد کی دیواروں اور محرابوں پر جا بجا لال، ہرے ، پیلے اور نیلے رنگوں کی گلکاریاں تھیں۔ بیرونی لوگ اس شہر میں آتے تو مسجد کی آرائش و زیبائش اور اس کے چھوٹے بڑے گنبد والے میناروں کو دیکھ کر مسلمانان شہر کی اعلیٰ ذوقی کی تعریف کیا کرتے تھے۔
مسجد کے وسیع و عریض صحن میں ہوا بھی خوب آتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے قدرت نے باغ جنت کا کوئی دریچہ اسی رخ کھول دیا ہو۔ پڑوس اور اطراف کے اکثر لوگ ہر شب تکیہ بستر بغل میں دبائے اس صحن میں پہنچ جاتے تھے۔ کبھی کبھی کوئی بھولا بھٹکا مسافر بھی شب گذاری کی نیت سے وہاں آ جاتا تھا۔
صبح کی اذان کے بعد موذن سونے والوں کے پاس آتا اور ایک ایک کو جھنجھوڑ کر جگایا کرتا تھا کیوں کہ ان میں سے کچھ لوگ صبح کی نماز بھی پڑھا کرتے تھے۔
ایک دن صبح کی اذان کے بعد موذن نے حسب معمول لوگوں کو جگانا شروع کیا اور جب اس نے ایک اجنبی مسافر کو جگانے کی کوشش کی تو اس نے ’’اوں۔۔ اوں۔۔‘‘ کرتے ہوئے دوسری کروٹ لے لی۔ موذن نے کہا ’’اﷲ کے بندے اٹھو بھی۔۔ نماز پڑھ لو۔ چاہے پھر سوجانا!‘‘
’’ن۔۔ما۔۔ج‘‘ مسافر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ’’کیا یہ مسجد ہے!؟‘‘
مسافر کے سوال میں حیرانی تھی۔ ’’ہاں ! تم نے کیا سمجھا تھا؟‘‘ موذن کے جواب میں استفسار شامل تھا۔ ’’دھرم شالہ!‘‘۔۔ سادہ لوح مسافر انگوچھا اپنے کندھے پر رکھتے ہوئے اٹھا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
٭٭٭