دھند میں لپٹا جنگل۔۔۔ عمر بنگش

یہ ایک خنک صبح کا واقعہ ہے۔
سانے گلیشیر سے رو میں بہہ کر آتی ہوئی یخ بستہ ہوائیں نالتر کے پہاڑوں کے بیچ قدرتی کھائیوں ، گلوں سے یوں بے چین، سنسنا کر پیالہ نما وادی میں داخل ہو تی ہیں گویا آسمان کی وسعتوں میں کوئی امان نہیں ہے۔ پہاڑوں کی چوٹیاں جو سپید برف کی موٹی تہوں سے ڈھکی رہتی ہیں ، ان ہواؤں کو اس قدر بوجھل بنا دیتی ہیں کہ ان کو وادی میں نیچے کھائیوں میں اترتے ہی بنتی ہے۔ ہواؤں میں خاصا زور ہے پر گھنے جنگل میں داخل ہو کر یہ زور ٹوٹتا چلا جاتا ہے۔ جب اونچے لمبے بت والے عمر رسیدہ چیڑ کے جنگل میں سے گزریں تو دھیرے دھیرے ان میں ٹھراؤ آتا جاتا ہے، یہ سائیں سائیں کرتی پورے جنگل میں یوں گونجنے لگتی ہیں جیسے کسی کا پتہ پوچھتی پھرتی ہوں۔ پھر سارے جنگل کو ستاتی ہوئی یہ ہوائیں دھیرج سے اور بوجھل، دھیمی ہوتیں ، وادی کے دامن میں پہنچتی ہیں تو ان کا سامنا وادی کے بیچوں بیچ بہتے ہوئے ندی کے پانی سے ہو رہتا ہے۔ ندی کے پانی نے وادی کے چھوٹے بڑے، گول چپٹے اور سخت سے سخت، حتی کہ سارے پتھروں کا شور سے ناک میں دم کر رکھا ہے۔
آمنا سامنا ہوا تو معلوم ہوا، یخ بستہ ہواؤں کی ندی کے سرد پانیوں سے کوئی دیرینہ شناسائی ہے۔ اب پتہ چلا کہ ہوائیں یوں ہی بے چین نہیں تھیں۔ان کو جو یوں آسمان کی وسعتیں راس نہیں آتی تھیں اور وہ جو سائیں سائیں کرتی جنگل میں پتہ پوچھتی پھرتی تھیں ، وہ کاہے کی چاہ تھی۔ پھر ندی کا پانی ہے، اس نے وادی میں جو شور بھر رکھا تھا، یہ جو ایسے مچل کر تڑپتا تھا، بے چین اور بپھرا سا رہتا تھا، اس کا یہ طور یوں ہی بے وجہ نہیں تھا۔ چیڑ کا جنگل، ندی کے پتھر اور وادی کی لانبی گھنی اور گہری سبز گھاس شاید ان ہواؤں اور پانیوں کی آپس میں چاہ، ان کے واسطے اور دیرینہ آشنائیوں سے واقف نہ ہوں مگر دور کہیں اوپر گلیشیر پر ان کی آپس میں کبھی ایسی گہری وابستگی رہی ہے کہ اب یہاں ، اس وادی کے دامن میں اس تعلق کے سرے کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ اس بابت شاید ان دونوں کے سوا کوئی بھی نہ بتا پائے، مگر یوں ہوا کہ یہ بھی تو بے خود ہیں۔ یہ تو تب کا قصہ ہے جب، یخ ٹھٹھرا تا ہوا پانی کبھی سپید برف کی تہہ در تہہ ہوا کرتا تھا اور ہوائیں اسی برف کی تہوں میں دبی ہوئی جم کر بسر کرتی تھیں۔ یہ ان ہواؤں اور ندی کے پانی کی پیدائش سے بھی خاصے پہلے کا ناطہ تھا۔
گلیشیر کی یخ بستہ ہوائیں اگر مچل کر لپکتی ہیں تو سرد پانی جیسے ندی کی تہہ سے اوپر اٹھ اٹھ کر پتھروں کے اوپر سے لہریں اچھالتا ہو۔ اس ادا پر چیڑ کا جنگل مسکرا اٹھتا ہے۔ گہری نیلی گھاس جھوم کر لہلہا نے لگتی ہے اور ندی کے سخت پتھر جیسے دیکھتے ہی دیکھتے دھل کر نکھرتے چلے جاتے ہیں۔ پوری وادی میں ایسا سماں مچ گیا کہ جسے دیکھو، ہواؤں کی لہروں سے مستی کو دم بےخود دیکھ رہا ہے۔ ہوا رو بہ رو تھر تھر کرتی، ندی کے دامن سے اچھلتی ہوئی لہروں کو یوں چھو کر گزرتی ہے کہ لہروں کا وجود جھومنے لگتا ہے۔جیسے یہ ایک دوسرے میں گم موسیقی کی لے پر ناچتے ہوں۔ پانی کی ٹھنڈک سے ہوائیں مزید خنک ہو کر واپس لہروں کے دامن میں آن کر گرتی چلی جاتی ہیں اور پانی کی لہریں ہیں کہ آپے میں نہیں۔ ندی کی تہہ سے اپنے وجود کو پوری طاقت سے اٹھا کر اوپر اچھلتی ہیں اور ندی کے پتھر مدد کو یوں بڑھتے ہیں کہ ان لہروں کو ایسے اچھالیں کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں سموتی چلی جاتی ہیں اور ایک جلترنگ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔
ہواؤں کی لہروں سے بار ہا کی مستیاں ، بالآخر رنگ لاتی ہیں۔ ہر بار جھومتی ہوئی لہروں میں سے پانی کی ننھی ننھی باریک، چمکتی ہوئی شفاف بوندیں مچل کر نکلتی ہیں اور ہوا کے وجود میں یوں رچ بس جاتی ہیں گویا اس کی ذات میں جو خلا اور کمی ہے، اسے پُر کرتی ہوں۔ اس تماشے کا نتیجہ آہستہ آہستہ دھند کے دھندلکوں کی صورت جنم لینے لگتا ہے۔ یہ دیرینہ میلان اس قدر فرحت آمیز اور دلکش ہے کہ اک ترنگ سے جاری و ساری رہتا ہے۔ ندی کی سطح پر ہواؤں کے جھونکے اور پانی کی لہریں اک دوسرے میں اس قدر گم ہیں کہ انھیں اندازہ نہیں ہو پاتا کہ یہ مستی دھیرے دھیرے وادی کے دامن میں ، ندی کے بالکل اوپر دھند کی پاکیزہ، سفید چادر تانے چلے جا رہی ہے۔ وادی کے دامن میں ، ندی کی سطح پر دھند گہری ہوتی چلی جاتی ہے جس میں بلا کا سکون اور خاموشی بھر چلی ہے۔ گلیشیر کی یخ بستہ سائیں سائیں کرتی ہواؤں اور ندی کے سرد شور مچاتے پانیوں کی جنمی دھند، سکون سے اوپر کو اٹھتی ہے اور پوری وادی میں پھیلنا شروع کر دیتی ہے۔
جنگل دھند میں لپٹنے لگتا ہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے