مسافر ۔۔۔ علی مرزا

"بس ابھی شہر کی حدود سے نکل ہی رہی تھی کہ میری پچھلی نشست پر بیٹھا ہوا باریش شخص ایک دم سے اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر زور زور سے بس کی چھت کھٹکھٹاتے ہوئے چلانے لگا۔
بھائی صاحب گاڑی آہستہ چلاؤ!
بھائی صاحب گاڑی آہستہ چلاؤ!
میری طرح سب لوگ اسے حیرت اور پریشانی سے دیکھنے لگ گئے کہ بس تو ابھی رینگ ہی رہی تھی۔ کنڈیکٹر جلدی سے اس شخص کے قریب آیا اور اسے تسلی تشفی دے کر دوبارہ اپنی نشست پر بیٹھنے پہ مجبور کر دیا۔
جیسے ہی بس نے شہر کی حدود چھوڑی وہ شخص پھر اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر چلانے لگا۔
بھائی صاحب گاڑی آہستہ چلاؤ!
بھائی صاحب گاڑی آہستہ چلاؤ!
بس کی رفتار ابھی بھی معمولی تھی مگر اب کی بار کئی مسافر اس کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔
کچھ فاصلہ اور طے ہوا تو وہ شخص پہلے کی نسبت اور شدت سے چلانے لگ گیا۔ اس کی آنکھیں جیسے آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔
بھائی صاحب گاڑی آہستہ چلاؤ!
بھائی صاحب خدارا گاڑی آہستہ چلائیں !
بس ابھی بھی تیز رفتار نہ تھی۔ دیگر مسافر اس کے اس بے وجہ کے شور سے مکمل تنگ آ چکے تھے۔
کنڈیکٹر نے غصے سے گاڑی رکوائی اور اسے زبردستی گاڑی سے نیچے اتار دیا۔
جیسے ہی بس دوبارہ چلی کئی مسافروں نے سکھ کا سانس لیا۔ کئی زیر لب مسکرائے۔ کئی اس کی نقلیں اتارتے ہوئے اسے پاگل قرار دے کر ساتھ ساتھ قہقہے بھی لگانے لگے۔
قہقہے لگانے والوں میں ، میں بھی شامل تھا۔”
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے