جنت ہاؤس۔۔۔ الیاس دانش

محلے میں اس بڑھیا کا گھر ٹاٹ میں مخمل کے پیوند کی طرح تھا۔کسی نے اس بڑھیا سے کبھی کوئی بات کی نہ کسی کو بات کرتے دیکھا۔سب کے ذہنوں میں اپنی اپنی سوچوں کی بساط، اپنے اپنے مفروضے۔وہ کسی ریٹائرڈ فوجی افسر کی بیوہ تھی یا اپنے زمانے کی کوئی مشہور نائیکہ۔خوش لباس، وضعدار اور چہرے پر بلا کی سنجیدگی۔خدا جانے اندر کیا تھا۔محلے کی عورتوں کو بس اتنا یاد کہ ہر ہفتے کی شام جب وہ بازار کیلئے نکلتی تو کھلونوں کی دکان سے سبھی گڈے گڈیاں خرید لیتی۔وہ ان گڈے گڈیوں کا کیا کرتی ہو گی، کبھی دکاندار نے نہیں سوچا،ویسے بھی آم کھانے چاہئیں ،پیڑ گننے سے کیا مطلب۔ اچھی بھلی روزی لگی ہے ،ناراض ہو گئی تو خواہ مخواہ اپنے ہی پیٹ پر لات پڑ جائیگی۔دگنے داموں آسانی سے سبھی گڈے گڈیاں بک جاتے ہیں ورنہ تو اس محلے کی عورتیں ، غضب خدا کا، چیل کی طرح نوچ کھائیں دکاندار کو۔چار دکانیں چھوڑ کر مٹھائی والے حلوائی کی بھی یہی صورت حا ل ، ہر جمعرات کو دکان کی آدھی سے زیادہ مٹھائی وہ بڑھیا لے لیتی۔ آس پڑوس کے محلوں کے بچے بھی ہر جمعرات کو مفت کی مٹھائی کھانے جنت ہاؤس پہنچ جایا ا کرتے تھے۔اس روز دوپہر سے ہی بچوں کا جمگھٹا لگ جاتا اور سہ پہر چار بجے جب وہ مٹھائی خریدنے نکلتی تو بچوں کا ایک ہجوم بھی اس کے ساتھ چلتا،مگر کبھی کسی نے اس سے بات نہیں کی اور اگر کبھی کسی بچے نے لب کھولے بھی تو اس نے ایسی ویران نظروں سے دیکھا کہ بچے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔جمعرات کو عورتیں اپنے بچوں کو مٹھائی کے لالچ میں اس کے گھر کے باہر چھوڑ آتیں اور جب کوئی بچہ کہتا کہ میری ماں کا حصہ بھی دے دو تو اس سمے ایک لمحے کیلئے اس کے چہرے پر بشاشت سی آ جاتی۔ وہ اس بچے کو دیکھتی ،اس کے چہرے پر محبت سے ہاتھ پھیرتی اور پھر اسے دو لڈو ، دو گلاب جامن دے دیتی۔ لیکن دیکھنے والے دیکھتے لمحے بھر کی یہ بشاشت اس کی آنکھوں میں چند قطرے بھی جھلملا دیتی۔بچے اپنی ماؤں سے کتنی محبت کرتے ہیں اور انہیں کچھ کھلانے کے کتنے شوقین ،کتنے بے تاب اور آرزومند۔مائیں اپنے بچوں سے اس کے حوالے سے ایسی کوئی روداد سن کر آپس میں تانے بانے بنتیں۔شائد اس کی اپنی اولا د نہیں ،اسی لئے وہ ایسا سوچتی ہو گی۔کئی برسوں سے یہ سب جاری تھا۔موسم بدلتے رہے اور محلہ بھی کافی بدل گیا۔ کئی بڑے گھر بن چکے ،بچے بڑے ہو چلے،بڑھیا کا یہ معمول محلے کی روایت بن چکا تھا۔اتنے برسوں میں اس کے گھر نہ کسی کو آتے دیکھا اور نہ اسے کہیں جاتے، البتہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو وہ بینک کا ایک چکر ضرور لگاتی۔وقت کی ڈور کسی کے ہاتھ میں نہیں ٹھرتی،پھسل ہی جاتی ہے۔اس جمعرات کو جب وہ مٹھائی والے کی دکان پر نہ آئی تو حلوائی کے کان کھڑے ہو گئے۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔خدا خیر کرے ،بڑھیا کہیں مر کھپ تو نہیں گئی،یہ خیال آتے ہی اس کا دل ڈوبنے لگا، ساری مٹھائی خراب ہو جائے گی، اور ہر ہفتے کا پکا گاہک بھی ہاتھ سے چھوٹ جائے گا۔ کم بخت ، کچھ سال تو اور جی لے، یا اللہ ، تو خیر الرازقین ہے ، میرے رزق کی حفاظت فرما، اس نے اس روز دکان رات گئے تک کھلی رکھی کہ شائد آنے میں دیر نہ ہو گئی ہو۔مگر اب بڑھیا نے نہ آنا تھا نہ آئی۔سو وہ رات کو دکان بند کر کے بوجھل قدموں سے گھر کو چلا گیا۔ آج شام بچے بھی خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ گئے تھے، ان کی ماؤں نے سمجھا شائد اب بڑھیا کے پیسے ختم ہو گئے ہوں گے۔ قارون کا خزانہ بھی ہو تو خالی ہو جاتا ہے۔اگلی صبح عورتوں نے مردوں سے ذکر کیا تو ہم سب نے طے کیا کہ گھر جا کر دیکھتے ہیں۔میں ایک دو لوگوں کو ساتھ لے کر جنت ہاؤس پہنچا ، دروازہ اندر سے بند تھا۔ ایک لڑکے نے دیوار پھاند کر کنڈی کھو ل دی اور ہم سب اندر چلے گئے۔ہر کمرے میں گڈے ،گڈیوں کا ڈھیر، ساری الماریاں بھر ی ہوئیں ،میز، کرسیاں ،بسترسبھی جگہوں پر گڈے ،گڈیاں ،کوئی بیٹھا ہوا ہے ، کوئی کھڑا ہے ، کوئی بستر پر لیٹا ہے ، کھانے کی میزپر کسی کے ہاتھ میں چمچ اور کسی کے ہاتھ میں لڈو،گڈے ،گڈیوں کے بیچ میں ایک پلنگ کے کونے میں وہ بھی کسی بڑی گڑیا کی طرح پڑی انہی کا ایک حصہ دکھائی دے رہی تھی۔ انہی کی طرح خاموش، ساکت و جامد،سب کی خالی آنکھوں میں سناٹے کا ٹھہراؤ،میں اپنی جگہ بت بنا یہ حیران کن منظر دیکھتا رہا پھر پلنگ پر آ بیٹھا اور اس کے ارد گرد بکھری کچھ تصاویر اور تحریریں دیکھنے لگا۔ایک عورت کی اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ تصاویر، چند ایک میں ایک مرد بھی نظر آتا ہے ،شائد وہ اس کا شوہر ہو گا۔ یہ اسی بڑھیا کی تصویریں تھیں لیکن اس کے بچے کہاں ہیں ، ہم نے تو کبھی نہیں دیکھے اور پھر یہ تنہا کیوں رہتی رہی۔ ایک دو تحریریں پلٹیں تو دور دراز کے ملکوں سے آئے اس کے بیٹے ریحان ،بیٹی عائشہ کے خط، ہر بار آنے کے وعدے اور ہر بار نہ آنے کی وضاحتیں ،حیلے اور بہانے،پیسے بینک میں بھیجنے کی رسیدیں ، ماں کے طرف سے جواب میں التجائیں ،حسرتیں اور دعائیں میں نے دیکھا کہ اس بڑھیا کی آنکھیں کھلی تھیں اور چہرہ دروازے کی طرف جیسے کسی کا انتظا رہو، پلنگ پر بیٹھے بیٹھے اس کے چہرے سے دروازے پر نظر ڈالی تو مجھے میلوں لمبا ویران ،تاریک اور کسی اپنے کی چاپ سے اجنبی راستہ دکھائی دیا۔میری پلکیں بھیگنے لگیں اور میں نے جلدی سے اس کی آنکھو ں کے کواڑ بند کر دیئے،جنہوں نے آنا تھا نہ آئے نہ آئیں گے، پر یہ انتظار تو ختم ہو ا کہ راستہ دیکھتی آنکھیں سو چکی تھیں۔ایک گڈے کو اٹھایا ، اس پر میرا ریحان لکھا نظر آیا تو میرے ذہن میں ایک خیال کوندا اور میں سبھی گڈے گڈیوں کو الٹنے پلٹنے لگا، میرا ریحان، میری عائشہ ، پیارا ریحان ، پیاری عائشہ ، ،میری آنکھیں ٹپکنے لگیں اور نمی حلق سے اندر اترتی چلی گئی ،میں نے اس بڑھیا کی گود میں سر رکھ دیا،ماں مر بھی جائے تو بھی ممتا کی مہک اور گرمی نہیں جاتی،پتہ نہیں اس کی روح کو قرار آیا ہو نہ ہو،مجھے یک دم تپتی دھوپ میں سائباں مل گیا۔اتنا سکون اور شانتی، کاغذوں میں دبی آخری تحریر بھی ہاتھ لگ گئی۔جو بھی یہ پڑھے ،مجھ سے یہ وعدہ کرے ،یہ سب گڈے گڈیاں ان ترسی ہوئی آنکھوں کو دے گا جو میری طرح سدا جلتی رہیں۔میں نے وعدہ نبھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔یہ گڈے ،گڈیاں میرے پاس ہیں۔ آپ کو چاہئیں تو جنت ہاؤس کے پتے پر لے لیں ، مجھے پتہ ہے آج آپ کو ان کی ضرورت نہیں ، شائد کل پڑ جائے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے