وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ اُس وقت جلسہ گاہ میں دھواں دھار تقریر جاری تھی۔ وہ اسٹیج کے عین سامنے لگے کھمبے، جس پر چہار اطراف لاوڈ اسپکرز نصب تھے کے عین نیچے ہی زمین پر بیٹھا تھا۔ تقریر کرنے والے لیڈر کے ایک ایک جملے پر فلک شگاف نعرے بلند ہو رہے تھے تو ایسے میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی اپنے خیالات کا تسلسل قائم رکھ سکے۔ تقریر کرتے لیڈر نے اچانک کوئی ایسی بات کہہ دی کہ وہ اپنے خیالات کے سمندر کی ا تھاہ گہرائیوں سے باہر آنے پر مجبور ہو ہی گیا۔ لیڈر کہہ رہا تھا۔ "میں یقین دلاتا ہوں اگر الیکشن میں آپ سب مجھے اِس حلقۂ انتخاب اور میری پارٹی کو ملک بھر سے کامیاب کر کے اقتدار میں پہنچا دیں تو میں آپ کے اِس علاقے، جو ہمارا قدیمی و پشتینی سیاسی گڑھ ہے، کو پیرس بنا دوں گا”۔
اس بات پر جلسہ گاہ زندہ باد، جیوے جیوے، آؤے ہی آؤے اور نا تھمنے والی تالیوں سے گونج اٹھا۔ لیکن اُس کے چہرے پر تو بس ایک زہرخند مسکراہٹ ہی رقصاں تھی۔ کوئی20۔25 سالوں پہلے ٹھیک اِسی جگہ پر ہونے والے اِسی سیاسی پارٹی کےجلسے میں وہ ایک ایسا ہی وعدہ پہلے بھی سن چکا تھا۔ بس فرق اتنا تھا کہ وہ اُس وقت صرف 8۔10 سال کا ایک بچہ ہی تو رہا ہو گا۔ جس لیڈر نے اُس روز وہاں تقریر کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا، وہ آج تقریر کرنے والے لیڈر ہی کے سیاسی خانوادے کا سربراہ تھا۔
اس روز کیئے گئے وعدہ کے بعد وہ سیاسی جماعت متعدد بار اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ اُس علاقے کے عوام کا تو یہ عالم تھا کہ مذکورہ سیاسی پارٹی اپنی تائید و حمایت کے ساتھ اگر بیچ چوراہے پر چند کھمبے بھی گاڑ دیتی تو وہاں کے باسی اُسے بھے اپنا ووٹ دیکر اسمبلیوں میں پہنچا دیتے۔ لیکن اُس کا وہ علاقہ جو کہ ویسے ہی شہر بھر کا سب سے پسماندہ ترین علاقہ شمار کیا جاتا تھا، مزید پسماندگی کی تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ پانی، گیس، بجلی، تعلیم، صحت، روزگار اور امن و امان کی بنیادی سہولیات کا تو ویسے ہی فقدان تھا۔ دھیرے دھیرے یہ حال ہوا کہ چوری، ڈکیتی،جبری بھتہ وصولی، اغوا برائے تاوان، ٹارگیٹ کیلینگ، منشیات فروشی، گینگ وار و ڈرگ مافیا الغرض وہ کونسا جرم ہے جو اُس علاقے سے منسوب نہ کیا جاتا ہو۔
وہ اکثر سوچتا کہ میں نے اپنے بزرگوں کو کہتے سنا تھا کہ جلد ہمارا علاقہ پیرس بننے والا ہے۔ اب میں بھی تو اپنے بچوں سے یہ ہی کہا کرتا ہوں ! شاید وہ بھی اپنی آنے والی نسلوں کو یہ ہی دلاسہ دیتے رہیں گے لیکن۔۔۔۔!!!۔
میرے علاقے کو جو بنا دیا گیا ہے کیا یہ اُسی وعدے کی تکمیل ہے؟
کیا میرے علاقے اور جہنم میں اب کوئی فرق باقی ہے بھی یا کہ نہیں ؟
تو کیا پیرس بھی ہمارے اِس جہنم کے جیسا ہی ہے؟
اُس نے پیرس تو نا دیکھا تھا۔ ہاں البتہ اپنے علاقے اور خود اپنی ذیست کو لحظہ بہ لحظہ جہنم بنتے ہوئے ضرور دیکھ رہا تھا۔ اُس کا جی چاہتا کہ یا تو وہ خودکشی کر لے یا کسی کو مار دے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ خودکشی کرنے والا جہنمی ہے۔ لیکن اب بھی وہ کونسا جہنم کی آگ میں نا جھلس رہا تھا!۔
مفلسی کا جہنم، بھوک کا جہنم، بےروزگاری کا جہنم، بیماری کا جہنم، بےچارگی کا جہنم، حقارت و نفرت کا جہنم اور نہ جانے کتنے ہی انگنت جہنموں کی آگ ہر ہر لمحہ اُسے جھلسائے ہی تو دے رہی تھی۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ آس پاس بیٹھے لوگوں پر سے دوڑتا پھلانگتا اسٹیج کے بالکل قریب پہنچا۔ اپنی جیکٹ کے اندر ہاتھ ڈالا اور پھر اگلے ہی لمحے ایک خوفناک دھماکہ ہوا۔ چاروں طرف تقریر کرتے لیڈر سمیت لوگوں کی لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔۔۔۔۔۔ !!!!
٭٭٭