فوجی افسر کی تقریر خدا خدا کر کے اختتام کی طرف مائل ہوئی، اس کی جذباتی تقریر نے پورے پریڈ گراونڈ میں جیسے
بجلی دوڑا دی تھی، جوان لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی دھوپ سے بے نیاز ، وقتاً فوقتاً نعرے لگا رہے تھے، تمام اچھے فوجیوں کی طرح وہ یہ بھی خوب سیکھ چکے تھے کہ تقریر میں کس مقام پر چپ رہنا ہے اور کب بیک زباں للکارنا ہے۔
"آج ہم سب کے یہاں اکٹھے ہونا کا مقصد محض تقریر کرنا اور سننا نہیں ہے۔ محاذ کے حالات آپ کو بتا چکا۔ ہائی کمان نے ایک ایسے مشن کا پلان بنایا ہے جو دشمن فوج کے دباؤ کو بہت کم کر دے گا۔ یہ ایک فدائی مشن ہے۔ ابھی آپ نے ان سرفروشوں کی کہانی سنی جو جسم سے بارود باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے۔ آج ہمیں ایسے صرف ایک سرفروش کی ضرورت ہے۔ مزید تفصیلات منتخب جوان کو ہی بتائی جائیں گی۔ بس اتنا بتا دوں کہ اس مشن سے زندہ واپسی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، کون رضاکارانہ اس شہادت کے مشن کے لیے تیار ہے؟”
پریڈ گراونڈ کا منظر دیکھنے والا تھا جب دستے کے تمام جوانوں نے بیک وقت آمادگی ظاہر کرنے کے لیے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ افسر تھوڑی دیر کے لیے سوچ میں پڑ گیا۔ پھر وہ منظم انداز میں استادہ دستے کی قطاروں کے درمیان تیز تیز چلنے لگا۔ وہ جس طرف جاتا جوان سینے پھلا پھلا کر اور اپنے بدن کو مزید الف کرتے ہوئے اس کی نظروں میں آنے کی کوشش کرتے۔ ان میں سے کسی کے چہرے پر ابہام یا تحفظات کا سایہ تک نہ تھا۔ کچھ دیر وہ یونہی چلتا رہا پھر اسے احساس ہوا کہ وہ کچھ بے دھیانی کا شکار ہو رہا ہے اور شاید کچھ قطاروں سے دو دو بار گزر رہا ہے۔
اس نے اپنے دائیں ہاتھ کھڑے ایک جوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ "مبارک ہو جوان، کیا تم اس مشن کے لیے تیار ہو”؟
جوان پھیپھڑوں کی پوری قوت سے پکارا "یس سر!”۔
جوان تیرھویں قطار میں آٹھویں نمبر پر کھڑا تھا، اس نے اپنے ارد گرد کھڑے درجنوں ساتھیوں کا دیکھا۔۔۔۔۔۔ "اتنے لوگوں میں آخر میں ہی کیوں ؟” اسے اچانک ایسا لگا جیسے سورج جھک کر پریڈ گرونڈ کے ذرا اور قریب آ گیا ہو، اس کا پسینہ اس کے کپڑے بھگونے لگا، اس کے پٹھے آہستہ آہستہ ڈھیلے پڑے ، آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھایا اور وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر گیا۔
٭٭٭