دُکھ ۔۔۔ شاہین کاظمی

سانپ نے اپنے منہ میں رکھا موتی اُگلا، زہریلے پرکاش کی تیکھی کِرنیں آنکھ کی پُتلیاں چاٹ گئیں ،بصیرت کی تفہیم اُلٹی تو شعوری قرطاس پر رقم تحریروں کے الفاظ باغی ہو گئے،
فولادی غار سے نمودار ہونے والے جنگلی نے جنت نظیر بَن میں چَرتی معصوم سی نیل گائے کو دیکھا، زَقند بھر کر پہلو میں لٹکی برقی تلوار سے اُس کے کولہے سے گوشت کا ایک بڑا پارچہ الگ کر لیا ، لہو لہان گائے جان کنی میں مُبتلا ڈکراتی ہوئی جنگل کی اُور بھاگ نکلی،اِسی اَثنا میں جنگلی کی نظر چوکڑیاں بھرتے ہرن پر پڑ چکی تھی، اِس نے ہاتھ میں پکڑا لہُو ٹپکاتا گو شت کا پارچہ پھینکا اور ہرن پر پَل پڑا،کھچاک سے گرم بدن میں اُترتی تلوار کا ہر وار کہیں اندر طمانیت بھر رہا تھا۔ وہ بہت مشّاقی سے ہر جانور پر اپنی تلوار کے جوہر آزمانے لگا،خوف کی دھند اتری تو زندگی روٹھنے لگی، جھرنوں کی نغمگی نوحوں میں ڈھل گئی، بادل دھرتی کا راستہ بھول چکے تھے ،دریاؤں کا پانی خشک ہو گیا لیکن سورج کی پیاس نہ بجھی، الہام کی فصیلوں پر جلتے دئیوں سے ابہام کا دھواں اٹھنے لگا، جبلت کراہ اٹھی،زمین مر رہی تھی۔
سانپ کی چمکدار آنکھوں میں اک عجب سا سرور اُتر آیا، نیا جہاں تخلیق ہو چکا تھا، وقت نے دھرتی کی کوکھ میں سماتے ہوئے لہو کو دیکھ کر آہ بھری اور آنکھیں موند لیں ، اِسے صدیوں کے لمبے سفرکی رائیگانی کا دکھ رلا رہا تھا
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے