آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ادبی تخلیق کے لئے اشتہاری عنوان کی کیا ضرورت تھی(حالانکہ ادب میں اشتہار بازی کوئی نئی بات نہیں!)۔ لیکن جب تخلیقی عمل کاروباری صورت اختیار کر لے تو اشتہار فطری طور پر لازمی ہو جاتا ہے۔میری مراد ادبی تخلیق سے بالکل نہیں ہے جیسا کہ آپ سوچ رہے ہیں۔میرا اشارہ میڈیکل ترقی سے ہونے والی ایتھیکل (ethical) تنزلی کی طرف ہے۔
ایک زمانہ تھا جب گود ہری ہونے کی تصدیق ہوتے ہی گود بھرائی کی رسم کی تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں۔آج کی جدّت زدہ، دولت کی ماری خواتین گود ہری ہونے سےاتنی ’’ڈری‘‘ رہتی ہیں کہ گود بھرائی کی بجائے گود ’’پرائی‘‘ کرنے میں لاکھوں روپئے خرچ کر ڈالتی ہیں۔یہ کوئل صفت خواتین کوئل کی طرح کوّے سے فریب کرنے کی بجائے ’’پرائی گود‘‘ کا پورا کرایہ ادا کر کے یہ ثابت کر دیتی ہیں کہ ان میں اب بھی ’’انسانیت‘‘ باقی ہے۔
کوکھ کی اس ’’outsourcing‘‘ کا سہرا ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے اسٹارس کے سر جاتا ہےجو اپنی مصروف شوٹنگ شیڈول اور کیرئیر کو اوّلیت عطا کرنے کے باعث کوکھ بھی کرایے پر لینے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔بعض اداکاراؤں نے زچگی کی تکلیف کو پُر خطر ایکشن تصور کرتے ہوئے ’’اسٹنٹ وُمَن (Stunt woman)‘‘ کا سہارا لینے کا اچھا خاصا جواز ڈھونڈ لیا ہے۔ ان فلم اسٹارس اور دیگر کروڑ پتیوں نے ’’گوداگری کے دھندے‘‘ کو ان اونچائیوں پر پہنچا دیا ہے کہ اب جھگی جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے ملاقاتیوں میں این جی اوز کے لوگوں کی monopolyختم ہو کر رہ گئی ہے۔
آئیے، اس نئے رجحان سے پیدا شدہ کچھ ممکنہ صورتِ حال کا جائزہ لیں۔
بہت جلد جھگی جھونپٹریوں کے دروازوں پر سائن بورڈ لکھا ملے گا: ’’کرائے کے لئے خالی ہے۔ صحت مند، تجربہ کار۔آج ہی رجوع کریں‘‘۔ اور جب آپ چھُپتے چھُپاتے دو روز بعد ملاقات کریں گے تو جواب ملے گا:
’’معاف کیجئے گا آپ نے دیر کر دی۔ کل ہی اُٹھ گئی۔ اب اگلے نو مہینے سے پہلے ممکن نہیں۔ ویسے آپ ایڈوانس بکنگ کر سکتے ہیں۔ اس میں کچھ ڈسکاؤنٹ بھی ملے گا۔‘‘
’’کتنا ؟‘‘ آپ تذبذب کے عالم میں پوچھیں گے۔
’’ایک لاکھ کا…یعنی چار لاکھ کے بدلے صرف تین لاکھ روپئے میں!‘‘
’’تت …تین لاکھ؟‘‘ آپ کی آواز حلق میں ہی اٹک کر رہ جائے گی۔’’کچھ اور کم نہیں ہو سکتا؟‘‘
پاس کھڑی بڑی بی آپ کو سر سے پیر تک بغور دیکھتے ہوئے ایک پان منہ میں ڈالیں گی اور یوں گویاہوں گی:
’’صورت شکل سے غریب لگتے ہو، اور ضرورت مند بھی۔ چلو، پچاس ہزار کا اور چھوٹ دئیے دیتے ہیں۔ لیکن ایک بات کہے دیتی ہوں۔ اگر سیزیرین کرنا پڑے تو ساری ڈسکاؤنٹ کینسل۔ بولو، منظور؟‘‘
’’سوچ کر بتاؤں گا۔‘‘ اور آپ پیشانی کا پسینہ پونچھتے ہوئے جھونپڑی سے باہر نکل آئیں گے۔
فلم اسٹارس اور کروڑ پتیوں کی یہ اولادیں جب بڑی ہو کر اپنی خود نوشت سوانح عمری لکھیں گی تو اس کی ابتدا کچھ یوں ہوگی:
’جب میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا کہ میرے سر سے ماں کی کوکھ کا سایہ اُٹھ گیا۔ کسی غیر عورت کی کوکھ میں لات مارنا سیکھا۔نو مہینے کی عمر کو پہنچا تو مجھے دائی کے حوالے کر دیا گیا جس نے میرا ہر طرح سے خیال رکھا۔ میرے نیپیز بدلنے کے ساتھ ساتھ مجھے نہلانا، مالش کرنا، کپڑے پہنانا، کھلانا گھمانا، سلانا غرض کہ سب کچھ کرتی تھی۔ ٹین اور ڈبّے کا پاؤڈر دودھ پی پی کر بڑا ہوا۔ پھر گوَرنس کے زیرِ نگرانی پرورش پائی جو روزانہ مجھے بستر پرسلاتے وقت پریوں کی بجائے میرے والدین کی اچھی اچھی کہانیاں سناتی تھی۔میں جب بھی پوچھتا کہ میرے والد دیکھنے میں کیسے ہیں تو وہ ایک ہی جواب دیتی: ’’بالکل تمہاری طرح!‘‘ اس کے بعد بورڈنگ اسکول میں ڈال دیا گیا جہاں کے وارڈن نے والدین کا رول نبھایا اور میری تعلیم اور تربیت کا خاص خیال رکھا۔اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد منیجمنٹ کی پڑھائی کے لئے انگلینڈ بھیج دیا گیا۔ وہاں کسی سیمینار میں اسٹیج پر ایک انکل کو دیکھ کر میں چونک گیا۔ ان کی شکل مجھ سے بہت ملتی تھی۔اس قدر مماثلت کہ میں بڑھاپے میں بالکل ویسا ہی دکھائی پڑتا۔ میں نے نوٹ کیا کہ وہ انکل بھی نظریں بچا کر بار بار مجھے ہی دیکھ رہے تھے۔ پھر سیمینار کے اختتام پر وہ میری طرف آئے اور میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
’’کیسے ہو بیٹے؟‘‘
’’ارے انکل، آپ؟‘‘ میں چونک کر احتراماً کھڑا ہو گیا۔
’’انکل نہیں، پاپا کہو بیٹے۔‘‘
’’دیکھئے، شکل و صورت میں مشابہت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ میرے ساتھ گفتگو میں تمام تہذیبی اور اخلاقی حدیں پار کر جائیں۔‘‘ میں نے خشک لہجے میں جواب د یا۔
وہ انکل ایک دم سے سکتے کے عالم میں آ گئے۔
پھر دوسرے روز مجھے پرنسپل کے روم میں بلوا گیا۔ میں نے دیکھا وہی ہم شکل انکل سرجھکائے خاموش بیٹھے تھے۔ مجھے پتہ تھا کہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ ضرور معافی مانگنے آئیں گے۔ لیکن پرنسپل نے کرسی سے اُٹھ کر ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا:
’’ ان سے ملئے، یہ ہیں آپ کے صاحب زادے ، اور یہ ہیں آپ کے والد محترم۔‘‘
اس بار میں سکتے میں آ گیا۔ فوراً معافی مانگی اور اس طویل de-adoption کے بعد اچانک نمودار ہونے کی وجہ دریافت کی۔انہوں نے بتایا کہ وہ مجھے اپنے کچھ بزنس پارٹنرس سے ملوانا چاہتے ہیں کیوں کہ منیجمنٹ کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد مجھے اپنے بایولوجیکل والد کی بزنس سنبھالنی تھی۔
زندگی میں پہلی بار میں نے اپنے آپ کو ’’برانڈڈ جوتا‘‘ محسوس کیا جس کی پروڈکشن چھوٹے اور غیر معروف کارخانوں میں ہوتی ہے لیکن کوالیٹی ٹسٹنگ کے بعد اس پر برانڈڈ کمپنی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔‘
ان جھگی جھونپٹریوں میں رہنے والی عورتیں ایک دن دنیا کی عظیم ترین ماں ہونے کا دعویٰ کرنے کا مجاز بھی ہوں گی کہ ان کی کوکھ سے نہ جا نے کتنی بڑی بڑی شخصیات جنم لے چکی ہوں گی!
نئی سماجی قدریں بھی تشکیل پائیں گی۔بیٹا ماں سے کہے گا:
’’نو مہینے تو میرا بوجھ اُٹھا نا گوارا نہیں ہوا، اور چاہتی ہیں کہ میں آپ کے بڑھاپے کا سہارا بنوں؟‘‘
’’لیکن تیری رگوں میں میرا خون دوڑ رہا ہے۔‘‘
’’غلط، بالکل غلط، میری رگوں میں امول کمپنی کا دودھ خون بن کر دوڑ رہا ہے۔‘‘
’’ایسا نہیں کہتے بیتے، میں نے بھلے ہی تمہیں اپنا کوکھ نہ دیا ہو، لیکن تمہاری پرورش تو ہم نے ہی کی ہے نا…‘‘
’’غلط، یہ بھی غلط۔ میری پرورش میں رحیمن بوا، رامو چاچا اور رابن انکل کا ہاتھ ہے۔‘‘
’’لیکن انہوں نے مفت میں یہ کام نہیں کئے۔ ان کی خدمات کے پورے پورے پیسے دئیے تمہارے پاپا نے۔‘‘
’’کوئی مفت میں کام نہیں کرتا۔مجھ پر خرچ کی گئی رقم بھی انوسٹ منٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔اِن فیکٹ ، رامو، رابن اور مجھ میں کوئی فرق نہیں، سوائے اس کے کہ وہ لوگ پوسٹ پیڈ ملازم تھے اور میں پِری پیڈ!‘‘
ماں کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہوگا مگر وہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے کہے گی: ’’بیٹا، تو کوکھ کو اتنی اہمیت کیوں دے رہا ہے؟ ذرا ان بچوں کے بارے میں سوچ جن کی مائیں کوکھ تو دیتی ہیں لیکن اس کے بعد ان کے نصیب میں یا تو مندر کی سیڑھیاں ہوتی ہیں یا پھر کوڑے دان!‘‘
’’لیکن وہ راہ گیروں یا پجاریوں کے ہاتھوں بالآخر کسی نہ کسی گھر میں پہنچ ہی جاتے ہیں جیسا کہ میں رحیمن، رامو اور رابن کے ہاتھوں ہوتا ہوا اس گھر تک پہنچا ہوں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرا روٹ طے شدہ اور محفوظ تھا جب کہ انہیں غیر یقینی اور پُر خطر راستے سے گزرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’تم بھول رہے ہو کہ پولی تھین کے تھیلوں کو کتے بھی گھسیٹ کر لے جاتے ہیں… کھانے کے لئے۔‘‘ماں اپنے لہجے کی تلخی چھپاتے ہوئے کہے گی۔
’’آپ 2014 کے’ کرائم پَیٹرول دستک‘ کی بات کر رہی ہیں جب کہ میں 1974 کی ہندی فلموں کی بات کر رہا ہوں جب میں پیدا ہوا تھا۔‘‘
ماں لا جواب ہو جائے گی۔ اس کا رول ختم ہونے پر باپ کا کیریکٹر داخلہ لے گا جو چہرے پر ندامت اور پشیمانی طاری کئے یوں گویا ہوگا:
’’بیٹا، ہو سکے تو اپنی ماں کا وہ دودھ بخش دو جو کبھی اس کی چھاتیوں میں اُترا ہی نہیں۔میں جانتا ہوں ایسی ماؤں کے قدموں تلے جنّت نہیں، ہوٹلوں اور نائٹ کلبوں کے فرش پر گھسےباٹا کے سینڈلس ہوتے ہیں۔لیکن بیٹا، تمہاری ماں اب اتنی بُری بھی نہیں۔ اس نے بہت خدمت کی ہے روزیؔ کی۔اسے روز اپنے ہاتھوں سے دوائیں کھلاتی تھی۔اس کے آرام کا خاص خیال رکھتی تھی۔ڈاکٹروں کے یہاں ریگولر چیک اپ کے لئے لے جانا، ایمرجنسی حالت میں ڈاکٹروں کو بلا کر گھر لے آنا،کیا کیا تکلیفیں نہیں سہیں اس نے۔ اس کی قربانیوں کا تمہیں کیا پتہ، میں چشم دید گواہ ہوں۔ایک بار دیر رات روزی درد سے کراہ رہی تھی تو تیری ماں اپنی سہیلیوں کے اصرار کا خیال نہ کرتے ہوئے نائٹ کلب کی تفریح درمیان میں ہی چھوڑ کر گھر چلی آئی…اور یہ قربانی اس نے ایک بار نہیں، تین تین بار دی ہے۔ یہ بات میں اس لئے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ تینوں موقعوں پر گرچہ میں میٹنگ کے سلسلے میں غیر ممالک میں تھا لیکن لگاتار فون پر اَپ ڈیٹ لیتا رہتا تھا۔‘‘
’’کیا میں اپنی کنٹریکچوَل ماں کے بارے میں جان سکتا ہوں؟‘‘
’’کیوں نہیں بیتے، ضرور ، مگر وعدہ کرو تم اسے صرف دور سے دیکھو گے۔ ملنے کی کوشش نہیں کرو گے۔‘‘
اور پھر ایکچوَل ماں بالکنی سے کنٹریکچوَل ماں کی طرف اشارہ کرے گی جو سامنے فٹ پاتھ کی نل پر پانی بھرتی ہوئی نظر آئے گی۔
پھر وَرچوَل بیٹا جب چھپ چھپا کر اس سے ملنے جائے گا اور گلو گیر آواز میں ’ماں‘ کہے گا تو وہ چونک کر اسے سر سےپیر تک دیکھے گی۔ پھر فوراً ہی سنبھالا لے کر پیار سے اس کے گال میں چٹکی لے گی اور ہنس کر بولے گی: ’’ائیر بتا ائیر، میں کس کس کو پہچانے گی!‘‘
٭٭٭