غزلیں ۔۔۔ دانیال طریر (مرحوم)

ہوا کیا سانس بھی میری نہیں تھی
تری تھی زندگی میری نہیں تھی

کسی کی تھیں وہ آنکھیں اور پلکیں
کسی کی تھی نمی میری نہیں تھی

مرے تو کھیت تھے، سپنے تھے، گھر تھے
زمیں چیخوں بھری میری نہیں تھی

پرستاں خواب تھا میرا ہی لیکن
وہاں کوئی پری میری نہیں تھی

مری تھیں سب دشائیں اور برگد
سمے کی شانتی میری نہیں تھی

دیا میرے لہو سے جل رہا تھا
فضا کی روشنی میری نہیں تھی

مرے تھے سبز مٹی کے پرندے
مگر چھاؤں گھنی میری نہیں تھی
٭٭٭

یہ معجزہ بھی دکھاتی ہے سبز آگ مجھے
پروں بغیر اڑاتی ہے سبز آگ مجھے

میں آیتوں کی تلاوت میں محو رہتا ہوں
ہر اک بلا سے بچاتی ہے سبز آگ مجھے

ہر ایک شاخ پہ رکھتی ہے زرد قندیلیں
پھر اس کے بعد جلاتی ہے سبز آگ مجھے

میں آب سرخ میں جب خواب تک پہنچتا ہوں
تو میرے سامنے لاتی ہے سبز آگ مجھے

حنائی پاؤں رگڑتے ہوئے نہ گھاس پہ چل
تجھے خبر ہے کہ بھاتی ہے سبز آگ مجھے

میں جب بھی جلتے ہوئے کوئلوں پہ سوتا ہوں
تو آسماں سے بلاتی ہے سبز آگ مجھے

زمیں پہ ناگ ہیں اور ان کے منہ میں خواب کی لو
کہانیوں سے ڈراتی ہے سبز آگ مجھے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے