قدرت نے مجھے عجیب پیدا کیا۔ اس نے تو ہر وجود کو عجیب پیدا کیا۔ جیسا ایک کو پیدا کیا، پھر دوسری تخلیق کو منفرد ہی رکھا۔ گویا تخلیق کر کے سانچہ ہی توڑ دیا۔ عجیب ہونا اور ہے عجیب ہونے کا ادراک اور ہے۔ لڑکپن ہی سے مجھے گھومنے پھرنے، سیر کرنے، کھنڈرات کے بولتے سناٹوں میں گم ہو جانے اور آوازوں کے سناٹوں کو محسوس کرنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ گولکنڈہ قلعے کی دیواروں پر کوئی بیل اگ آتی تو پتھروں کے درمیان درز میں اپنے بیل ڈورے پیوست کر کے اوپر کو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ میرے محلے میں ایک سنگ بستہ حویلی تھی‘ بہت اونچی، پُر شکوہ، عالیشان، تراشیدہ، سرخی مائل پتھروں سے بنی ہوئی، لیکن اس میں کوئی نہیں رہتا تھا۔ البتہ حویلی کے باہر صحن کے ایک کونے میں ایک سفال پوش کمرہ تھا، جس کا دروازہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے ادھ کھلا رہتا تھا۔ اس میں ایک بوڑھا شخص رہا کرتا تھا۔ میلا کچیلا، بکھرے بال، بے ترتیب داڑھی، محلے والوں کا خیال تھا کہ یہ حویلی آسیب زدہ ہے۔ کبھی کبھی میں اس حویلی میں چلا جاتا۔ خود رو پودے، بے ترتیب جھاڑیاں اور درمیان میں سوکھا ہوا حوض، خشک فوارہ۔ اس حوض کے کنارے میں چپ چاپ بیٹھا رہتا، کبھی کبھی میں اپنی ماں کی نظریں بچا کر ایک روٹی اور تھوڑا سالن کاغذ میں لپیٹ کر لے جاتا اور اس بوڑھے کو دے دیتا، اپنے جھریوں بھرے ہاتھوں سے روٹی لیتے ہوئے وہ مجھے خالی خالی نظروں سے دیکھتا میں پوچھتا پانی لا دوں۔ وہ کچھ نہ کہتا۔ کبھی میں خود ہی محلے کے نل سے اس کی صراحی بھر لاتا، کسی کو پتہ نہیں تھا کہ حویلی کے اندر کیا ہے، دروازے پر ایک بہت بڑا تالا پڑا ہوا تھا جو زنگ آلود ہو چکا تھا۔ حویلی کی ایک دیوار پر دو بیلیں تھیں اور دونوں بیلوں کے درمیان ایک دریچہ تھا، بس یہی دو بیلیں تھیں جو ہری بھری تھیں۔ سرسبز شاداب، ایک بیل موٹی اور مضبوط تھی۔ زمین سے دریچے تک رسی کی طرح بٹی ہوئی، پھر اوپر سے جھولتی ہوئی شاخیں اور بیل ڈور سے۔ دوسری نسبتاً پتلی دریچے کے اس کنارے، وہ بھی دریچے تک رسی کی طرح بٹی ہوئی، لیکن لگتا تھا یہ ریشم کی بٹی ہوئی، نازک لچھے دار مضبوط، وہ سوت کی طرح کھردری، ریشہ دار اور تنومند۔
بارش کے موسم میں ان پر بہار آ جاتی۔ ساون میں مینہ برستا تو یہ ادھر جھولتی۔ وہ اُدھر جھوم جھوم کر سینہ پھلائے ہوئے۔ کبھی کبھی دونوں کے بیل ڈور ے ایک دوسرے کی طرف بڑھتے۔ ہوا کا کوئی شریر جھونکا دونوں کو ایک دوسرے کے لمس سے سرشار کر دیتا، کبھی قریب سے گذر کر آس بڑھا دیتا، پیاس بڑھا دیتا۔ خوشبو پڑوس ہی میں ہو تو نہ سونے دیتی ہے، نہ جاگنے دیتی ہے۔ کھلی آنکھیں، بند ہوا چاہتی ہیں کہ آؤ خواب بنیں۔ پھر کسی کھنک کا مژدہ لئے اور کبھی پیرہن کی خوشبو کا تحفہ لئے کھلے دریچے سے ہوا، پاس سے گذر جاتی ہے اور بند آنکھوں کو کھول کر دیدۂ حیراں کر جاتی ہے۔ نا مراد ظالم ہوا، مہربان بھی، نا مہربان بھی۔
سرکاری نل سے پانی بھرنے والیوں میں سے کسی نے بوڑھے کی صراحی بھر کر لے جاتے مجھے دیکھ لیا اور میری ماں سے کہہ دیا کہ تمہارا بیٹا آسیبی حویلی میں نل سے صراحی بھر کر لے جاتا ہے۔ اس وقت میری عمر کوئی پانچ برس رہی ہو گی۔ میں گھر پہنچا تو میری ماں نے مجھے خوب پیٹا۔ وہ بہت غصہ میں تھی۔ جب مجھے پیٹ پیٹ کر تھک گئی تو رونے بیٹھ گئی۔ میری ماں بھی بڑی عجیب تھی، غصہ میں ہوتی تب بھی روتی تھی۔ مجھے روتا ہوا دیکھ کر بھی رو دیتی تھی۔ شام کو ابو دفتر سے لوٹے تو ماں نے ان سے میری شکایت کر دی۔ ’’تم سنبھالو اپنے لاڈلے کو۔ مجال ہے جو کبھی بھولے سے اس کو کچھ کہا ہے۔ نہ جانے کہاں مارا مارا پھرتا ہے۔ کئی دن سے آسیبی حویلی میں پانی لے کر جاتا ہے۔ جانے وہاں جن ہوں کہ آسیب میرے بچے پر نظر کر لی ہے۔ مولا میرے بچے کو بچا لو۔ تمہیں سے لوں گی میں اپنے مرادوں والے کو۔ اسے کسی سیانے کو بتلاؤ۔ میں روز نادِ علیؑ اور آیت الکرسی پڑھ کر اس پر دم کرتی ہوں۔ جانے کس کی نظر کھا گئی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگ گئی۔ ابو نے مجھے قریب بلا کر سینے سے لگا لیا۔ میری ہچکیاں بندھی دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا۔ میرے آنسو پوچھتے ہوئے انہوں نے کہا ’’بیٹا! اس ویران حویلی میں کیوں جاتے ہو؟۔ تمہاری ماں گھبراتی ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’ابو! وہاں ایک بوڑھا رہتا ہے۔ ٹوٹے سے کمرے میں، صرف ایک چٹائی ہے اس کے پاس، بے چارہ۔ کبھی کبھی میں اسے روٹی لے جا کر دیتا ہوں۔ کبھی اس کے لیے نل سے پانی لا دیتا ہوں۔ پھر حوض کے کنارے بیٹھ کر دیوار سے لپٹی ہوئی بیلوں کو دیکھتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے یہ بیلیں آپس میں باتیں کر رہی ہیں۔ کچھ کہہ رہی ہیں، لیکن میں سن نہیں پاتا ہوں۔‘‘ ابو مجھے غور سے دیکھنے لگے۔ شاید ان کو میرے چہرے پر معصومیت کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیا۔ دوسرے دن وہ مجھے حویلی میں لے گئے۔ بوڑھے کا کمرہ خالی تھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ چٹائی بھی نہیں، صراحی بھی نہیں، ابو نے پوچھا تم کونسی بیلوں کی بات کر رہے تھے۔ میں نے دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ان ہی دو بیلوں کی۔‘‘ ابو غور سے دیوار کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر مجھ سے کہا ’’چلو گھر چلتے ہیں۔‘‘ ابو کچھ خاموش ہو گئے۔ کئی سال بعد مجھے پتہ چلا کہ آسیبی حویلی کی ان بیلوں میں جو بیل نازک تھی اور جو ریشم کی رسی کی طرح مڑی ہوئی تھی، اسے ظالم ہاتھ نے نوچ کر اس کے تار پود بکھیر دیئے تھے اور پھر اس کی رگ حیات منقطع کر دی تھی۔ کچھ دنوں تک تو دوسری بیل رہی، پھر آہستہ آہستہ مرجھاتی چلی گئی اور آخر میں دیوار کی درازوں سے بیل ڈور سے چھوٹ گئے تو وہیں ڈھ گئی جہاں وہ نازک بیل تھی۔ اس کے بعد حویلی پر نحوست سی چھا گئی اور اس کے مکینوں نے نقلِ وطن کر لیا، تب سے یہ آسیبی حویلی کہلاتی ہے۔
دو دن بعد انہوں نے میری ماں سے کہا ’’بہت دن ہو گئے تمہیں مدراس گئے ہوئے۔ کچھ دنوں کیلئے ہو آؤ۔‘‘ میری ماں کا تعلق مدراس سے تھا، لیکن بچپن ہی میں وہ حیدر آباد آ گئی تھیں۔ سال دو سال میں ایک مرتبہ وہ مدراس جا کر اپنے عزیر و اقارب سے مل آیا کرتی تھیں۔
مدراس کے جس محلے رائی پیٹ میں میرے ماموں رہتے تھے، وہیں آرکاٹ کے نواب کا امیر محل بھی واقع تھا۔ وسیع زمین پر واقع یہ محل پُر شکوہ بھی تھا، آرکاٹ کے نواب انگریزوں کے پسندیدہ افراد میں تھے۔ انگریزوں نے انہیں ’’والا جاہ‘‘ کا خطاب بھی دے رکھا تھا۔ مدراس ویسے بھی انگریزوں کی عملداری میں تھا۔ امیر محل کے عقبی راستے پر لکڑی کا پھاٹک تھا اور اسی سے متصل چوکیدار کی رہائش بھی تھی۔ ایک دن میں ادھر نکل گیا اور چوکیدار سے کہا۔ ’’میں یہ محل دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ چوکیدار نے غور سے مجھے دیکھا، پوچھا ’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘۔ میں نے کہا ’’حیدرآباد سے، قاسم علی خان میرے ماموں ہیں، ان ہی کے گھر آئے ہیں۔‘‘ چوکیدار نے کہا ’’آپ اندر نہیں جا سکتے، لیکن یہاں میرے گھر کے پاس کھڑے ہو کر دیکھ لو۔ نواب صاحب نے بچوں کو ادھر کھیلنے کی اجازت دے رکھی ہے۔‘‘
’’اتنی بڑی زمین!‘‘ میں نے سوچا، ہمارا گھر تو بہت چھوٹا ہے، آنگن بھی۔ یہاں تو گیند پھینکو تو دوسرے سرے تک جا ہی نہیں سکتی۔ جہاں میں کھڑا تھا، وہیں قریب میں آم کا ایک پیڑ تھا، بہت بڑا تو نہیں تھا لیکن امیر محل کے پس منظر میں بہت خوبصورت دکھائی دے رہا تھا، بہت ہی گھنا، سایہ دار، اوپر سے چھتری کی طرح، مجھے لگا، وہ پیڑ مجھے بلا رہا ہے، میں اس سے لگ کر بیٹھ گیا۔ دو چار بچے گیند سے کھیل رہے تھے، مجھے دیکھ کر انہوں نے مجھے بھی ساتھ کھیلنے کو کہا، میں نے منع کر دیا۔ مجھے لگا ہوا شاخوں سے کچھ سرگوشیاں کر رہی ہے، اس سے کھیل رہی ہے، ڈالیوں کی سرسراہٹ میں ایک نغمگی سی تھی۔ کوئی معصوم سی لے، جیسے کوئی گنگناہٹ، میں نے سوچا یہ گنگناہٹ ہوا کی ہے یا شاخوں کی؟۔ کون کس سے باتیں کر تا ہے۔ جب تک ہم مدراس میں رہے، روز اس پیڑ کے پاس جا کر بیٹھ جاتا۔ مجھے لگتا جیسے یہ پیڑ میرا دوست ہے۔ پھر ہم حیدرآباد آ گئے، میں اسکول جانے لگا، دو تین برس میں کبھی ہم مدراس جاتے تو میں دن کو اس پیڑ سے ملنے چلا جاتا۔ شام کو سمندر سے ملاقات کو نکل جاتا۔ مجھے دونوں اچھے لگتے تھے۔ پیڑ بھی، سمندر بھی۔ میں سوچتا انسان کو اس پیڑ کی طرح تو ہونا چاہیے۔ گھنا، سایہ دار، ثمر دار۔ سمندر کو دیکھ کر میں سوچتا، آدمی کے اندر اتنی وسعت اور گہرائی تو ہونی چاہیے، اتنا سکون، اتنی اچھال اور اتنی شوریدہ سری نہ ہو تو زندگی کیا ہے؟۔ اس لیے یہ دونوں مجھے دوست لگتے تھے۔
میں تیرہ برس کا ہو گیا۔ ایک شام جب میں گھر لوٹا تو ابو آ چکے تھے۔ مجھے دیکھ کر پوچھا ’’کہاں سے آ رہے ہو؟۔‘‘ میں اماں سے سو جھوٹ بولتا تھا، لیکن ابو سے صرف سچ کہتا تھا۔ اماں جھوٹ پر اعتبار کر لیتیں، ابو کو سچ پر یقین آ جاتا۔ میں نے کہا ’’اسکول کے بعد ندی کے گھاٹ پر گیا تھا۔‘‘ ’’وہاں کیوں؟۔‘‘ ابو نے پوچھا۔ میں نے کہا ’’کبھی کبھی میں جاتا ہوں، کبھی ناول پڑھنے، کبھی شاعری۔‘‘ ’’تم یہ سب پڑھنے لگے ہو؟۔‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’کس کس کو پڑھتے ہو؟۔‘‘ میں نے کہا’’ شاعری میں ساحرؔ، علی سردار جعفری، جوشؔ، کبھی اخترؔ شیرانی، مخدومؔ،، ناول کرشن چندر، پریم چند، عادل رشید اور گلشن نندہ کے اچھے لگتے ہیں۔‘‘ ابو نے کہا ’’میرؔ، غالبؔ، سوداؔ، ڈپٹی نذیر احمد اور محمد حسین آزاد کو پڑھا ہے؟۔‘‘ میں نے کہا ’’ہاں، پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔‘‘ ابو نے پوچھا ’’کچھ یاد ہے؟۔‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا، کہا سناؤ۔ میں نے ساحر ؔ کی تاج محل سنائی۔ ابو مجھے ٹک دیکھ رہے تھے۔ ابو نے میری پیشانی کو بوسہ دے کر سینے سے لگا لیا اور کہا ’’تم گھر میں کیوں نہیں پڑھتے؟۔‘‘ میں نے کہا ’’میں صرف کورس کی کتابیں میز پر پڑھتا ہوں، یہ کتابیں مجھ سے میز پر پڑھی نہیں جاتیں۔ یہ تو پلنگ پر لیٹ کر پڑھی جاتی ہیں یا کھلے آسمان کے نیچے۔ سو میں چلا جاتا ہوں۔‘‘ ’’تم جیسے چاہو کیا کرو، میں تمہارے لیے سائیڈ لمپ لا دوں گا۔‘‘
میں سترہ برس کا ہوا تو ایر فورس میں چلا گیا، اب میں آزاد تھا۔ مجھے پر لگ چکے تھے۔ ہوا میری دوست تھی، میں ہوا باز تھا۔ آسمان میرے لیے کھلی کتاب تھا۔ زمین مجھ سے کہتی تم کہیں رہو، میرا تم سے رشتہ اٹوٹ ہے۔ میری آغوش تمہارے لیے کھلی ہے۔ تم آسمان کے بیٹے نہیں ہو، تم میرے بیٹے ہو، زمین کے فرزند۔ میں بائیس برس کا ہوا تو جنگ کے بعد میرا تبادلہ مدراس ہو گیا۔ میری شادی ہو گئی۔ میں بیوی کو ساتھ لے کر مدراس چلا گیا۔ ایک دن میں نے بیوی سے کہا چلو میں تمہیں میرے ایک پرانے دوست سے ملواؤں۔ ہم پہلے ماموں کے گھر گئے، پھر میں اسے امیر محل میں اس پیڑ کے نیچے لے گیا۔ دونوں خاموش کھڑے تھے۔ مجھے لگا، پیڑ کی ڈالیاں جھک رہی ہیں، اپنے سائبان میں ہمیں سمیٹ رہی ہیں۔ ہوا ڈالیوں کو چھیڑ رہی تھی۔ اور شاید ہمیں بھی۔ میری بیوی پلکیں جھکائے کھڑی تھی، نہیں معلوم اس نے پلکیں جھکائی تھیں یا پلکیں خود بو جھل ہو گئی تھیں۔ ہوا ڈالیوں سے گذر کر کوئی نغمہ چھیڑ رہی تھی۔ لیکن شاید وہ نغمہ نہیں تھا، کوئی گیت تھا، شاید گیت بھی نہیں، کوئی راگ یا پھر راگنی۔ نرم، شیریں، مدھر، کومل۔ دیر تک ہم ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے رہے۔ جب ہم لوٹے تو شام گہری ہو چکی تھی، شبنم ہمیں ڈھک رہی تھی۔ میرے کوارٹر کے لان پر سبزے میں نمی سی تھی، لیکن دونوں خاموش تھے۔ خاموشی بھی ایک گیت ہوتی ہے۔
4؍ دسمبر 2017ء کو شام کی پرواز سے میں مدراس پہنچا۔ مجھے تین تقریریں کرنی تھیں۔ میرے ماموں زاد بھائیوں نے منتظمین سے کہہ دیا تھا کہ وہ میری رہائش کے لیے کسی ہوٹل کی زحمت نہ کریں، میں ان کے گھر ٹھہر جاؤں گا۔ وہ مجھے ایئر پورٹ سے سیدھے اپنے گھر لے گئے، میرے لیے رہائش سب سے بالائی منزل طے کی گئی تھی۔ اس میں پُر تکلف فلیٹ کے ساتھ ٹیرس بھی تھا۔ شام کی چائے کا انتظام بھی اسی ٹیریس پر تھا۔ یکایک میری نظر اٹھی، سامنے ہی امیر محل تھا، اور وہ پیڑ اسی طرح کھڑا تھا۔ بلند و بالا، گھنا، سایہ دار۔ میرا جی چاہا کہ میں اس سے لپٹ جاؤں۔ وہ اس وقت ممکن نہیں تھا۔ میں تنہائی میں اس سے ملنا چاہتا تھا۔ دوسرے دن شام کو وہاں پہنچا۔ پیڑ کے قریب پہنچا تو مجھے آواز آئی ’’کیسے ہو؟۔‘‘ میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ آواز آئی ’’یہ میں ہوں تمہارا بچپن کا دوست‘‘ میں اس سے لپٹ گیا۔ میں اس کی چھال پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ بوڑھی چھال کھردری ہو گئی تھی۔ کہیں کہیں سے ادھڑی ہوئی۔ میں نے کہا ’’یہ کیا حال کر لیا ہے اپنا۔‘‘ اس نے کہا ’’زندگی صرف سکھ کا نام نہیں ہے۔ زخموں کا بھی نام ہے۔ کچھ دنیا کے لگائے ہوئے، کچھ اپنوں کے اور کچھ اپنی ذات کے۔ کسی کی یاد کے۔ بیتے ہوئے لمحات کے۔ تمہیں یاد ہے کبھی تم اپنی شادی کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ آئے تھے۔ اسی طرح بے شمار لڑکے لڑکیاں آرزوؤں کے چراغ آنکھوں میں لیے یہاں آتے رہے۔ کچھ اب بھی آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو منزل مل جاتی ہے۔ کچھ مل کے بچھڑ جاتے ہیں۔ سب ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی قسم کھاتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی آ کے مجھ سے پوچھتا ہے۔ وہ آئی تھی؟۔ لیکن میری خاموشی ان کو مایوس کر دیتی ہے۔ انسان نے اونچی اونچی عمارتیں بنائی ہیں۔ شاید آسمان کو چھو لینا چاہتے ہوں۔ زمین تنگ ہو گئی ہو۔ اب مجھ میں پھل نہیں لگتے، صرف چھاؤں باقی ہے۔ میری چھوڑو، کسی دن کاٹ دیں گے مجھے، وہی لوگ جو میری جو میری چھاؤں میں پناہ لیتے تھے۔ وہی ہتھیار بدست ہوں گے۔ جوانی بڑھاپے کو کہاں برداشت کر تی ہے۔ تم بتاؤ کیسے ہو؟۔‘‘ میں چپ رہا اب میرے خاموش رہنے کی باری تھی۔ لیکن خاموشی کی بھی آواز ہوتی ہے۔ وہ اسے سنائی دے گئی۔ اس نے کہا ’’میں جانتا ہوں، تم اکیلے ہو گئے ہو۔ دیواروں سے باتیں کرتے ہو۔ قبرستانوں کی ٹوٹی ہوئی قبروں سے بکھرنے والی ہڈیوں کو دیکھ کر سوچتے ہو اس میں امیر کی ہڈی کونسی ہے، فقیر کی کونسی۔ اپنی آنکھیں کھولو، پہلو میں دیکھو۔ کون کھڑا ہے۔‘‘ میں نے مڑ کر دیکھا، وہ کھڑی تھی۔ اسی لباس میں جیسے میرے ساتھ آئی تھی۔ وہی جھکی جھکی سی پلکیں، وہی خوشبوئے پیرہن۔
رات جب میں لوٹ رہا تھا تو اس نے مجھے ڈھک لیا تھا۔
٭٭٭