بگولے ۔۔۔ شموئل احمد

قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی لتیکا رانی اپنے برہنہ جسم کو مختلف زاویوں سے گھور رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مطمئن سی فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں پر اسرار سی چمک۔ ایک ایسی چمک جو شکاری کی آنکھوں میں اس وقت آتی ہے جب وہ اپنا جال اچھی طرح بچھا چکا ہوتا ہے اور ہونٹوں پر ایک مطمئن سی مسکراہٹ لیے ایک گوشے میں بیٹھا شکار کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ لتیکا رانی نے بھی اپنے جال بچھائے تھے اور فتح کا یقین کامل اس کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بن کر رینگ رہا تھا۔ یوں تو لتیکا رانی نے شکار کئی کیے تھے اور کلب میں بڑی شکاری مشہور تھی۔ لیکن یہ شکار اپنی نوعیت کا بالکل انوکھا تھا اور اپنی اس کامیابی پر پھولے نہ سمائی تھی۔ اس نے مس چودھری کی طرح کبھی پیسے کے لیے شکار نہیں کیا تھا۔ اس کے پاس پیسے کی کمی بھی نہ تھی۔ شہر میں کپڑے کی تین تین ملیں تھیں۔ وہ محض جنسی آسودگی کے لیے لوگوں سے رسم و راہ بڑھاتی تھی۔ مس چودھری سے تو اس کو شدید نفرت تھی، کیوں کہ مس چودھری نے ہمیشہ پیسوں پر جان دی تھی اور جاہل اور بھدّے قسم کے لکھ پتیوں کے ساتھ گھومتی تھی جن کے پیلے پیلے بدنما دانتوں سے تو ایسی بو آتی تھی کہ لتیکا رانی کو اُن سے باتیں کرتے ہوئے ناک پر رو مال رکھ لینا پڑتا تھا۔ لتیکا رانی کو اس بات کا فخر تھا کہ اس نے کبھی ایسے ویسوں کو لفٹ نہیں دی۔ پچھلی بار بھی اس کے ساتھ ایک ماہر نفسیات کو دیکھا گیا تھا۔ یہ اور بات تھی کہ وہ پھر جلد ہی ان لوگوں سے اکتا جاتی تھی۔

لتیکا رانی کا مردوں کے متعلق وہی خیال تھا جو بعض مردوں کا عورتوں کے متعلق ہوتا ہے۔ یعنی مردوں کو بستر کی چادر سے زیادہ نہیں سمجھتی تھی کہ جب میلی ہو جائے تو بدل دو اور اس لیے کوئی چادر اس کے پاس ایک ہفتے سے زیادہ نہیں ٹک پاتی۔ اس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ ہمیشہ جوان اور تنو مند ملازم رکھتی ہے اور آئے دن انہیں بدلتی رہتی ہے اور یہ بات سچ تھی۔ آج کل اس کے پاس ایک نوجوان دیہاتی ملازم آ کر رہا تھا جو وقت بے وقت اس کو بڑا سہارا دیتا تھا۔ خصوصاً اس دن تو وہ اس کے بڑا کام آیا تھا جب وہ نوجوان انجینئر اس کے ساتھ بڑی رکھائی سے پیش آیا تھا اور اس کی پیش کش کو ٹھکرا کر مسز درگاداس کے ساتھ پکچر دیکھنے چلا گیا تھا۔ اس دن لتیکا رانی نے حد سے زیادہ پی تھی اور کوئی آدھی رات کو کلب سے لوٹی تھی۔ کلب سے آ کر سیدھی ملازم کے کوارٹر میں گھس گئی تھی اور اس دیہاتی ملازم کو اس نے صبح تک ایک دم نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔ پھر جیسے اس کی تسکین نہیں ہوئی تھی۔ اس انجینئر کو کھونے کا درد اور بڑھ گیا تھا۔ مسز درگا داس کے لیے لتیکا رانی کا دل نفرت سے بھر گیا تھا کیوں کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ مسز درگا داس اس سے زیادہ منجھی ہوئی شکاری تھی اور اس نے اس کے کئی شکار باتوں ہی باتوں میں اڑا لیے تھے۔ اس سے بدلہ لینے کے منصوبے وہ رات دن بناتی رہتی اور اس دن جب مسٹر کھنّہ کے یہاں پکنک کا پروگرام بنانے گئی تو اس نوعمر لڑکے کو دیکھ کر اس کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہے۔ وہ صوفے پر بیٹھا ’’لائف‘‘ کی ورق گردانی میں مصروف تھا۔

’’مسٹر کھنّہ ہیں۔۔۔۔؟‘‘ لتیکا رانی نے اس کو گھورتے ہوئے پوچھا۔

’’جی۔۔۔۔۔ ! وہ تو پونا گئے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے چونک کر لتیکا رانی کی طرف دیکھا اور بڑی معصومیت سے پلکیں جھپکائیں۔ لتیکا رانی کو اس کا اس طرح پلکیں جھپکانا کچھ اتنا اچھا لگا کہ وہ بے اختیار اس کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔

’’آپ کو تو یہاں پہلی بار دیکھا ہے۔‘‘

’’جی ہاں۔۔۔ ایک ملازمت کے سلسلے میں آیا تھا۔‘‘

’’اوہ تو آپ مالتی کے بھائی ہیں۔‘‘ لتیکا رانی نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔

جواب میں اس کی نظریں جھک گئیں اور چہرے پر ندامت کی لکیریں سی ابھر آئیں۔

’’مالتی تو مسٹر کھنہ کے ساتھ گئی ہو گی۔‘‘

’’جی ہاں۔۔۔۔‘‘ اس نے نظریں جھپکاتے ہوئے جواب دیا۔

لتیکا رانی اس کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ آنکھیں خاصی بڑی بڑی اور پر کشش تھیں اور کچھ کہتے ہوئے وہ کئی بار پلکیں جھپکاتا اور بہت سادہ و معصوم نظر آتا۔ مسیں کچھ بھیگ چلی تھیں اور ہونٹ بہت پتلے اور باریک تھے۔ چہرے کے سانولے پن نے اس کو اور زیادہ پر کشش بنا دیا تھا۔ لتیکا رانی کا جی چاہا کہ اس کے ہونٹوں کو چھو کر دیکھے کتنے نرم ونازک ہیں۔ لمحہ بھر کے لیے اس کو اپنی اس عجیب سی خواہش پر حیرت ہوئی اور وہ مسکراتی ہوئی اس کے تھوڑا قریب سرک آئی۔ لڑکے نے کچھ چور نظروں سے لتیکا کی طرف دیکھا اور جلدی جلدی ’’لائف‘ ‘کے ورق الٹنے لگا۔ اس کے چہرے پر پسینے کی بوندیں پھوٹ آئی تھیں اور چہرہ کسی حد تک سرخ ہو گیا تھا۔ لتیکا اس کی اس پریشانی پر مسکرا اٹھی۔ وہ اس کے اور قریب سرک آئی۔ اس کی گھبراہٹ سے وہ اب لطف اندوز ہونے لگی تھی۔ لتیکا کی بھی نگاہیں ’’لائف‘‘ کے الٹے ہوئے صفحوں پر مرکوز تھیں۔ ایک جگہ نیم عریاں تصویر آئی اور لڑکے نے فوراً وہ ورق اُلٹ ڈالا لیکن دوسری طرف بوسے کا منظر تھا۔ اس نے کچھ گھبرا کر لتیکا کی طرف دیکھا اور ’’لائف‘‘ بند کر کے تپائی پر رکھ دیا۔

’’آپ کچھ پریشان ہیں؟‘‘ لتیکا نے شرارت بھری مسکراہٹ سے پوچھا۔

’’جی! نہیں تو۔۔۔۔۔‘‘ اُس کے لہجے سے گھبراہٹ صاف عیاں تھی۔ وہ گھبراہٹ میں اپنی انگلیاں چٹخا رہا تھا۔

’’آپ کی انگلیاں تو بڑی آرٹسٹک ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ یکایک وہ اس کی پتلی پتلی انگلیوں کی طرف شارہ کرتی ہوئی بولی۔

’’لیکن مجھ میں تو کوئی آرٹ نہیں ہے۔‘‘ اس بار وہ بھی مسکرایا اور لتیکا جھینپ گئی۔

’’آپ کو پامسٹری پر یقین ہے؟‘‘ لتیکا جھینپ مٹا تی ہوئی بولی۔

’’تھو ڑا بہت۔‘‘

’’پھر لایئے آپ کا ہاتھ دیکھوں۔‘‘

اور لتیکا اس کے ہاتھوں کی لکیریں دیکھنے لگی۔ اس کی ہتھیلی پسینے سے ایک دم گیلی تھی۔ لتیکا کی انگلیاں اور ہتھیلی بھی پسینے سے بھیگ گئیں اور اس کو عجیب سی لذّت کا احساس ہوا۔ اس کے جی میں آیا لڑکے کی ہتھیلی کو اپنے گالوں سے خوب رگڑے اور اس کی ہتھیلی کا سارا پسینہ اپنے گالوں پر مل لے۔

’’آپ کا ہاتھ تو بڑا نرم ہے۔ ایسا ہاتھ تو بڑے آدمیوں کا ہوتا ہے۔‘‘

’’لیکن میں تو بڑا آدمی نہیں ہوں۔‘‘

’’آپ بہت جلد مالدار ہو جائیں گے۔ یہ لکیر بتاتی ہے۔‘‘

’’لیکن بھلا میں کیسے مالدار ہو سکتا ہوں؟‘‘ اس نے بہت معصومیت سے کہا۔

’’ہو سکتے ہیں۔‘‘ یکایک لتیکا رانی کا لہجہ بدل گیا اور لڑکے نے اس طرح چونک کر اس کو دیکھا جیسے وہ پاگل ہو گئی ہو۔

’’میرے یہاں آیئے تو اطمینان سے باتیں ہوں گی۔ آئیں گے نہ۔۔۔۔؟‘‘

’’جی۔۔۔۔ کوشش کروں گا۔‘‘

’’کوشش نہیں ضرور آیئے۔۔۔۔ یہ رہا میرا پتا۔‘‘ لتیکا رانی اس کو اپنا ملاقاتی کارڈ دیتی ہوئی بولی اور اس کو حیرت زدہ چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ پھر یکایک مڑی اور قریب آ کر بولی۔

’’چلیے کہیں گھومنے چلتے ہیں۔‘‘

’’جی مجھے۔۔۔۔ مجھے ابھی ایک ضروری کام ہے۔‘‘ اس کی آواز کچھ پھنسی پھنسی سی تھی۔

’’آپ اتنے نروس کیوں ہیں؟‘‘ لتیکا نے بڑے پیار سے پو چھا۔ لتیکا کو وہ ایسا ننھا سا خوف زدہ پرندہ معلوم ہو رہا تھا جو اپنے گھونسلے سے نکل کر کھلے میدان میں آ گیا ہو اور جنگلی درندوں کے درمیان گھر گیا ہو۔

’’آ نے کی کوشش کروں گا۔‘‘

لتیکا رانی مسکرائی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ کار میں بیٹھ کر ایک بار دروازے کی طرف دیکھا، وہ گیٹ کے پاس کھڑا پلکیں جھپکا رہا تھا۔ لتیکا کو بے اختیار ہنسی آ گئی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو قریب بلایا۔ جب وہ تھوڑا جھجکتے ہوئے قریب آیا تو بولی۔ ’’آج شام سات بجے انتظار کروں گی۔‘‘

اور پھر مسکراتے ہوئے اس پر ایک آخری نظر ڈالی اور موٹر اسٹارٹ کر دی۔

گھر پہنچ کر وہ سیدھی غسل خانے میں گھس گئی اور اپنے سارے کپڑے اتار دیے۔ ایک دفعہ اپنے عریاں جسم کو غور سے دیکھا اور شاور کھول کر اکڑوں بیٹھ گئی۔ پُشت پر پڑتی ہوئی پانی کی ٹھنڈی پھواریں اسے عجیب لذّت سے ہم کنار کر رہی تھیں۔ وہ بیسیوں دفعہ اس طرح نہائی تھی لیکن ایسا عجیب سا احساس کبھی نہیں ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد تولیے سے جسم خشک کرتی ہوئی باہر نکل آئی۔ اپنے کمرے میں آ کر تولیہ پلنگ پر پھینک دیا اور قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر برہنہ جسم کو ہر زاویہ سے دیکھنے لگی۔

وہ آئے گا ضرور آئے گا۔ اس کا دل کہہ رہا تھا۔ ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ رینگ رہی تھی اور آنکھوں میں پر اسرار خواہشوں کے جگنو رینگ رہے تھے۔

میز کی دراز سے اس نے سگریٹ نکالا اور ایک کرسی کھینچ کر آئینے کے سامنے بیٹھ گئی۔ سگریٹ سلگاتے ہوئے ایک دفعہ اپنا عکس آئینے میں دیکھا۔ اپنے آپ کو وہ سولہ سترہ سالہ لڑکی محسوس کرنے لگی تھی۔ اپنا عکس اس کو عجیب سا لگ رہا تھا۔ آنکھ، ناک، ہونٹ، پیشانی سبھی نئے اور اجنبی لگ رہے تھے۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اس کو بہت برے لگے۔ سنگار میز پر رکھی ہوئی کریم کی شیشی اٹھا کر بہت سا کریم آنکھوں کے نیچے ملنے لگی۔ پھر چہرے پر پاؤڈر لگایا اور سگریٹ کے کش لیتی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا تو صرف پانچ بجے تھے۔ اس کے آنے میں کوئی دو گھنٹے باقی تھے۔ یہ دو گھنٹے اس کو پہاڑ سے لگے۔ اور اگر وہ نہیں آیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خیال کے آتے ہی جیسے اس کے دل نے کہا۔ وہ اس کو ہر قیمت پر حاصل کر لے گی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا لے گی۔ وہ اس کے ساتھ موٹر میں گھومے گا۔ کلب، سنیما گھروں، ہوٹلوں اور دعوتوں میں اس کے ساتھ ساتھ ہو گا۔ اف ! کتنا معصوم ہے وہ۔۔۔۔ بالکل بچوں کی طرح باتیں کرتا ہے اور شرماتا تو ایک دم لڑکیوں کی طرح ہے۔ لتیکا رانی کو یاد آ گیا کہ ’’لائف‘‘ کی ورق گردانی کے وقت جو ایک نیم عریاں تصویر آ گئی تھی تو کس طرح اس کا چہرہ کانوں تک سرخ ہو گیا تھا، لتیکا مسکرا اٹھی تھی۔ وہ آئے گا تو کیسا شرمایا شرمایا سا رہے گا۔ وہ اس کے ایک دم قریب بیٹھے گی اور اس کو ایک ٹک گھورتی رہے گی۔ وہ تھوڑا گھبرائے گا اور اس سے ہٹ کر بیٹھنے کی کوشش کرے گا۔ پھر وہ لکیریں دیکھنے کے بہانے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لے گی۔ اس کی انگلیاں کیسی نرم و سبک سی ہیں۔ جب وہ گھبراہٹ میں اپنی انگلیاں چٹخاتا ہے تو کیسا پیارا لگتا ہے۔ باتوں ہی باتوں میں اس کے ہاتھوں کو اپنے گالوں سے مس کر دے گی۔ اس کی ہتھیلی کا سارا پسینہ اس کے گالوں میں لگ جائے گا اور اس کے گال چپچپے ہو جائیں گے، تب کیسا ٹھنڈا ٹھنڈا لگے گا۔ اور وہ تو ایک دم نروس ہو جائے گا۔ اس کا نرم اور بے داغ جسم تھر تھر کانپنے لگے گا۔ تب اس کو چمکارے گی اور پیار سے کہے گی۔ ’’اتنے نروس کیوں ہو؟ یہ تمہارا ہی گھر ہے۔‘‘ اور پھر روشنی۔۔۔۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔۔۔ اتنی جلدی نہیں۔ وہ ایک دم گھبرا جائے گا۔ پھر شاید کبھی نہ آئے۔ سولہ سترہ سال کا تو ہے ہی۔ ایک دم نادان اور معصوم۔ لتیکا نے سگریٹ کا آخری کش لیتے ہوئے سوچا اور سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے بے چینی سے گھڑی کی طرف دیکھا۔ چھ بجنے میں کوئی دس منٹ باقی تھے اور اس کو اپنے آپ پر غصہ آ گیا۔ آخر یہ کون سی تُک تھی کہ اس نے سات بجے کا وقت دیا تھا۔ خواہ مخواہ ایک گھنٹہ انتظار کرنا ہے۔ اپنی بے چینی پر وہ مسکرا اٹھی۔۔۔۔۔۔ اور ایک مخمور سی انگڑائی لیتی ہوئی پلنگ پر لیٹ گئی۔ اس کا جوڑ جوڑ دُکھنے لگا تھا۔ تکیے کو سینے پر رکھ کر اس نے زور سے دبایا اور گہری گہری سانسیں لینے لگی۔ سارے بدن میں جیسے دھیمی دھیمی سی آنچ لگنے لگی تھی۔ اتنی جلدی یہ سب نہیں کرے گی۔ اس نے سوچا۔۔۔ وہ بالکل نا تجربہ کار اور نادان ہے۔ اس کا جسم بند کلی کی طرح پاک اور بے داغ ہے۔ محبت کا تو وہ ابھی مطلب بھی نہیں سمجھتا ہے۔ وہ اس کو محبت کرنا سکھائے گی۔ ایک نادان لڑکے سے مرد بنائے گی۔ بھرپور مرد۔ اور لتیکا کو اپنے آپ پر بڑا فخر محسوس ہونے لگا۔ یہ سوچ کر اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی کہ وہ پہلی عورت ہے جو اس کو محبت سے روشناس کرائے گی۔

اس نے الماری سے بیئر کی بوتل نکالی اور ہلکی ہلکی چسکیاں لینے لگی لیکن اس کی بے چینی اور بڑھ گئی۔ اس نے گلاس میز پر رکھ دیا اور پلنگ پر لیٹ گئی۔ اس کے جی میں آیا ایک بار پھر غسل خانے میں گھس جائے اور پانی کی ٹھنڈی دھار میں اپنے جلتے ہوئے جسم کو دونوں ہاتھوں سے زور زور سے مَلے لیکن یکایک کال بیل بج اٹھی۔ اس نے چونک کر گھڑی کی طرف دیکھا تو سات بج چکے تھے۔ اپنے عریاں جسم پر سلیپنگ گاؤن ڈالا اور دروازہ کھول دیا۔ وہ پریشان اور گھبرایا سا کھڑا تھا۔

’’اوہ ! گاڈ۔۔۔۔۔‘‘ کم اِن ینگ بوائے !‘‘ لتیکا رانی نے بے اختیار مسکراتے ہوئے کہا۔

لتیکا کو وہ ایسا سہما ہوا معصوم سا بچہ نظر آ رہا تھا جس کو یکایک بھوت کہہ کر ڈرا دیا گیا ہو۔

وہ جیسے ہی اندر آیا، لتیکا نے دروازہ اندر سے بولٹ کر دیا اور مسکراتی ہوئی پلنگ پر بیٹھ گئی۔ اس کی مسکراہٹ میں یقین کا رنگ مستحکم ہو کر فتح اور غرور کی چمک میں تبدیل ہو گیا تھا۔

’’بیٹھو کھڑے کیوں ہو؟‘‘ لتیکا رانی نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

وہ فرماں بردار بچے کی طرح کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ اس کو ایک ٹک گھورنے لگی۔ وہ کرسی کے ہتھے پر انگلیوں سے آڑی ترچھی لکیریں کھینچ رہا تھا۔

’’کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔؟‘‘

’’جی۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘

’’کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔؟‘‘

’’کچھ نہیں۔۔۔۔‘‘

’’کچھ تو ضرور سوچ رہے ہو؟‘‘ لتیکا رانی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

وہ چپ رہا۔

’’لاؤ تمہارا ہاتھ دیکھوں۔۔۔!‘‘ وہ زیادہ صبر نہ کر سکی۔

اس نے چپ چاپ اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔

’’ادھر آ جاؤ پلنگ پر۔ اچھی طرح دیکھ سکوں گی۔‘‘

لمحہ بھر اس نے توقف کیا اور پھر کرسی سے اٹھ کر اس کے قریب ہی پلنگ پر بیٹھ گیا۔ وہ اس کے ہاتھ کی لکیریں دیکھنے لگی۔ کچھ دیر بعد لتیکا نے محسوس کیا کہ وہ آہستہ آہستہ اس کے قریب سرک رہا ہے۔ لتیکا نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کا بایاں ہاتھ لتیکا رانی کی کمر کے گرد بڑھ رہا تھا اور پھر لتیکا نے اپنی کمر پر اس کی انگلیوں کا لمس محسوس کیا۔ اس کو لڑکے کی اس بے باکی پر سخت حیرت ہوئی۔ وہ اس سے تھوڑا ہٹ کر بیٹھ گئی، جیسے اتنی جلدی اس کا بے تکلف ہو جانا اس کو پسند نہ آیا ہو۔ لتیکا نے محسوس کیا کہ وہ پھر اس کے قریب سرک رہا ہے۔ ایک دفعہ لتیکا کو پھر اپنی کمر پر اس کی انگلیوں کا دباؤ محسوس ہوا۔

’’یہ لکیر کیا بتاتی ہے۔۔۔۔؟‘‘ یکایک لڑکے نے جھک کر ایک لکیر کی طرف اشارہ کیا اور اس طرح جھکنے میں اس کا چہرہ لتیکا کے چہرے کے قریب ہو گیا۔ یہاں تک کہ اس کے رخساروں کو لڑکے کی گرم سانسیں چھونے لگیں اور لتیکا کو ایسا لگا جیسے وہ جان بوجھ کر اس کے اتنے قریب جھک گیا ہے۔ جیسے وہ اس کو چومنا چاہتا ہو۔ لتیکا رانی کھڑی ہو گئی اور کچھ ناگوار نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ نہ جانے کیوں اب لتیکا کو اس کے چہرے پر پہلی جیسی معصومیت اور سادہ پن نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ اس کو اور لوگوں کی طرح ایسا ویسا لگ رہا تھا۔

’’بیٹھئے نہ۔۔۔۔۔۔ آپ اتنی نروس کیوں ہیں؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’نروس۔۔۔۔؟ بھلا میں کیوں نروس ہونے لگی؟‘‘ لتیکا رانی نے بڑے طیش میں کہا اور اس کو ایسا لگا جیسے یہ وہ نہیں ہے جو وہ اب تک سمجھ رہی تھی بلکہ یہ تو انتہائی فحش اور گندا انسان ہے۔ یہ کوئی سولہ سترہ سالہ معصوم نادان لڑکا نہیں ہے بلکہ ایک خطرناک مرد ہے۔ بھرپور مرد۔ اس کا جسم کسی بند کلی کی طرح پاک اور بے داغ نہیں ہے بلکہ گندگی میں پلا ہوا کوئی زہریلا کانٹا ہے جو اُس کے سارے وجود کو لہو لہان کر دے گا۔

اور دوسرے لمحہ جیسے لتیکا رانی کا سارا وجود لہو لہان ہو گیا۔ پل بھر کے لیے اس پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ لتیکا کو محسوس ہوا جیسے وہ اس کو ایک دم فاحشہ اور بازاری عورت سمجھتا ہے۔ جیسے اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، جو جب چاہے جس طرح چا ہے استعمال کرے اور لتیکا کا دل اس کے لیے نفرت سے بھر گیا۔ وہ تڑپ کر اس کے بازوؤں سے نکل گئی اور اپنے ہونٹوں کو انگلیوں سے پونچھتے ہوئے چیخ کر کہا:

’’یو باسٹرڈ۔۔۔۔۔ وہاٹ فور یو ہیو کم ہیر۔۔۔۔۔؟‘‘

اس نے حیرت سے لتیکا کی طرف دیکھا۔

’’گِٹ آؤٹ یو سواین۔‘‘ وہ چیخی۔

دروازے کے قریب پہنچ کر لڑکے نے ایک بار مڑ کر لتیکا کی طرف دیکھا اور پھر کمرے سے نکل گیا۔

لتیکا پلنگ پر گر کر ہانپنے لگی۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھی، سلیپنگ گاؤن اتار پھینکا اور غسل خانے میں گھس گئی۔ شاور کھول کر اکڑوں بیٹھ گئی۔ ٹھنڈے پانی کی دھار اس کی ریڑھ کی ہڈیوں میں گدگدی سی پیدا کرنے لگی اور وہ زور زور سے اپنا سارا بدن ہاتھوں سے مَلنے لگی۔

گرتے ہوئے پانی کے مدھم شور میں لتیکا رانی کی گھٹی گھٹی سی چیخیں بھی شامل ہو گئی تھیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے