لینڈ مارک ۔۔۔ قیصر نذیر خاورؔ

اِس شہر کے بہت سے لینڈ مارک گم ہو چکے ہیں، اِس کا تاریخی ’زیرو سنگ میل‘ تک غائب ہے۔ اس کی مرکزی شاہراہ پر اب ’ایس ایم رولو‘ نہیں رہا، ’زیدیز‘ ختم ہو چکا، ‘ ایڈل جی’ اور ’فرنچ وائن سٹور ‘ بھی بند ہو گئے۔ اوپن ائیر ریستوراں ’مال لگژری‘ بھی قصہ پارینہ ہوا، ’شیزان کانٹینینٹل‘ کی جگہ ایک بنک نے لے لی۔ ’کافی ہاؤس‘ اور ’چائنیز لنچ ہوم‘ بھی برباد ہوئے۔ ’فیروز سنز‘ جل کر خاک ہوا، ’نیشنل بک گیلری‘ کی جگہ باٹا کے شو روم نے لے لی، ’کلاسیک‘ بیکری بن چکی ہے، ’بمبئے کلاتھ ہاؤس‘ نہ رہا، جیولری کی دکان ’لیڈیز اون چوائس‘ نہ رہی، ’نرالا‘ کی مٹھائی نہ رہی، ’ریگل‘ جیسے سینما کھنڈر ہوئے یہاں تک کہ وہ چینی جفت ساز بھی اب نہیں رہے جن کے نرم و ملائم جوتے پہننا کبھی ایک شان سمجھی جاتی تھی۔ بٹوارے کے وقت ہندوؤں اور سکھوں کی چھوڑی عمدہ تعمیر والی حویلیاں اور گھر کٹڑیوں میں بدل گئے اور تو اور ان کے گوردواروں اور مندروں میں سے بھی اکثر کو اویکُوئیی پراپرٹی کے کھاتے میں شامل کر کے ان میں مہاجروں کے کئی خاندان بسا دئیے گئے، ان کے شمشان گھاٹ اور مڑیاں بھی ختم ہو چکیں، لے دے کے وہ احاطہ ہی بچا ہے جس میں رنجیت سنگھ کی مڑی ہے۔ بیلی رام کی فارمیسی کو نیشنل فارمیسی میں بدل دیا گیا اور نجانے کیا کچھ بدلا گیا یا بدل گیا ہے اور۔۔ اور نجانے کتنے اور لینڈ مارک یا تو ڈھا دئیے گئے یا پھر وقت کے بے رحم ہاتھوں نے انہیں مِٹا دیا۔

میں اپنے خاندان کی چوتھی نسل سے ہوں جو اب بھی تابوت سازی اور میتیں اُسارنے و سنوارنے کا کام کرتی ہے۔ اس شہر کی آبادی کا بیشتر حصہ ایک ایسے مذہب کا پیروکار ہے جو نہ تو تابوت بنواتا ہے اور نہ ہی میت کو اسارنے اور سنوار کر دفنانے کا قائل ہے، یہ صرف اسے غسل دیتے ہیں اور سفید لٹھے، جسے یہ کفن کہتے ہیں، میں لپیٹ کر دفنا دیتے ہیں۔ میرے مذہب کے لوگ البتہ یہ دونوں کام کرتے ہیں اور ہم اس شہر میں اقلیت ہونے کے باوجود کم نہیں ہیں۔ مجھے اپنے دادا اور پڑ دادا کے بارے میں براہ راست تو کچھ معلوم نہیں، البتہ اپنے والد کی زبانی مجھے یہ ضرور پتہ ہے کہ کبھی اس شہر میں، جب ابھی انگریز کی حکومت تھی تو بہت سے گورے اور اینگلو انڈین بھی شہر کی آبادی کا حصہ تھے۔ تب یہاں کئی لوگ تابوت ساز اور میتیں سنوارنے کے پیشے سے وابستہ تھے جن میں وہ خود بھی شامل تھے۔ مالدار گورے تو تھے ہی لیکن کئی اینگلو انڈین اور دیسی خاندان بھی خاصے امیر اور مسیحی اشرافیہ کا حصہ تھے۔ میرے والد کے بقول میرے پڑ دادا پہلے تھے، جنہوں نے ایک کیتھولک مشنری کے ہاتھوں مسیحیت قبول کی تھی، وہ پیشے کے لحاظ سے ترکھان تھے اور جاتی کے اعتبار سے وِیشواکرم۔ اسی کیتھولک مشنری نے ہی انہیں تابوت سازی کی طرف مائل کیا تھا اور میتیوں کو اُسارنے سنوارنے والے کچھ کاریگر ان کے ساتھ جوڑے تھے۔ جلد ہی میرے پڑ دادا کا نام چل نکلا تھا اور گورا قبرستان کے پاس ان کی ورکشاپ میں دور دور سے نہ صرف کیتھولک آتے بلکہ ہمارے مذہب کے دیگر فرقوں کے لوگ بھی انہی سے اپنی بساط کے مطابق میت کی آرائش و تزئن کرواتے اور تابوت تیار کرواتے۔ میرے والد بتایا کرتے کہ دادا کے زمانے میں ان کا کاروبار اپنے عروج پر تھا لیکن ہندوستان کی تقسیم کے بعد، اس شہر سے گوروں کے چلے جانے کے ساتھ ہی کئی مالدار اینگلو اور دیسی مسیحی بھی ہجرت کر گئے۔ تب سے ہمارا کام زیادہ تر تابوت سازی تک ہی محدود ہو کر رہ گیا اور اب تو میت اُسارنے، سنوارنے اور سجانے کا کام کم سے کم ہوتا جا رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہم مسیحیوں میں سے اکثر کا غریب ہونا ہے۔ گورا قبرستان بھر جانے کے بعد مسیحیوں کے لئے ایک نیا قبرستان قائم ہوا تھا جو اس شہر کی چھاؤنی شروع ہونے سے پہلے آتا ہے۔ ہمارے والد نے پرانی ورکشاپ ایک مسلمان کو بیچ دی جس نے وہاں کریانے اور منیاری کی دکان کھول لی اور ساتھ میں مزارں پر چڑھائی جانے والی ہری چادریں رکھ لیں کہ پاس ہی پیر مکی شریف اور داتا دربار تھا۔ ہمارے والد نے نہ صرف یہ ورکشاپ بیچی بلکہ کچے راوی روڈ پر وہ گھر بھی بیچ دیا جس کو میرے پڑ دادا نے آباد کیا تھا، یوں انہوں نے پرانے لاہور کو خیر آباد کہا اور نئے قبرستان کے نزدیک کنال پارک کے ساتھ بنی نئی بستی میں پلاٹ لے کر پچھواڑے گھر اور اَگواڑے میں ورکشاپ قائم کی۔

میرے والد نے میرے بڑے بھائی اور مجھ خصوصی طور پر میت اسارنے، سنوارنے اور سجانے کی تربیت دی تھی۔ یہ ایک نازک اور پیچیدہ کام ہے۔ ہمیں میت کو نہ صرف سنوارنا اور سجانا ہوتا ہے بلکہ لواحقین کی خواہش کے مطابق کچھ ایسا بھی کرنا ہوتا ہے کہ بندہ، مردہ نہ لگے، کچھ ایسا لگے کہ جیسے وہ سویا ہوا ہے، ایسے میں وہ ہمیں مرحوم یا مرحومہ کی کوئی ایسی تصویر بھی مہیا کرتے ہیں جیسا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں چہرے اور ہاتھوں پر خصوصی توجہ دینی پڑتی ہے کہ تابوت میں یہی نظر آتے ہیں، باقی جسم تو کپڑوں میں ڈھکا ہوتا ہے۔ ہمیں بڑھاپے کے نشانات ختم کرنے پڑتے ہیں اور کچھ ایسا میک اَپ کرنا پڑتا ہے کہ جھریاں، پھولی ہوئی نسیں، دھنسے ہوئے رخسار، کھڈا ہوئی آنکھیں سب اُس شکل میں آ جائیں جیسے وہ تصویر میں نظر آتی ہو، مطلب مرا بندہ یا بندی، ایسے لگے جیسے وہ سویا یا سوئی ہو۔ اگر موت کسی حادثے یا قتل میں ہوئی ہو تو ہمیں اس کے اُن سارے زخموں کو بھی ختم کرنا پڑتا ہے جو اس کے چہرے اور ہاتھوں پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ سب کرنے میں ہمیں یہ احتیاط لازماً برتنا ہوتی ہے کہ ہماری لیپا پوتی، میک اَپ کا تاثر نہ دے۔ لوگ میت کو تو دفنا دیتے ہیں لیکن مرحوم کے جسم، بلکہ چہرے، گردن اور ہاتھوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا، کو ہمارا دیا گیا اُسار برسوں، یاد رکھا جاتا ہے، ایسے ہی جیسے لوگ دلہنوں کے میک اَپ کے حوالے سے آپس میں باتیں کرتے ہیں۔

جس طرح لوگوں کے فیملی ڈاکٹر ہوتے ہیں، اسی طرح ہم بھی کئی خاندانوں کے فیملی تابوت ساز اور میت اُسارنے و سنوارنے والوں میں سے ایک ہیں۔ یہ کہانی ایک ایسے ہی رومن کیتھولک خاندان سے تعلق رکھتی ہے جو ہے تو خالص دیسی چودھری خاندان لیکن اِس شہر کا ایک اہم خاندان رہا ہے اور اس کی میتیں تیاری کے لئے ہمارے ہی پاس آتی رہیں ہیں۔

یہ چند برس پہلے، اپریل کے دوسرے عشرے کی بات ہے کہ اس خاندان میں ایک بہت ہی اداس کر دینے والی موت ہوئی۔ ایک سو چار سالہ باپ زندہ تھا، بڑا بھائی بھی حیات تھا لیکن ایک چھوٹا بیٹے جو لگ بھگ ستر سال کے تھے، فوت ہو گئے، وہ کئی برسوں سے پھیپھڑوں کے کینسر کو جھیل رہے تھے۔ جب ان کا مردہ جسم ہمارے حوالے کیا گیا تو خاصی دیر تک میں اسے پہچان نہیں پایا حالانکہ میں اس سکول میں دس سال پڑھا تھا، جہاں وہ پرنسپل رہے تھے۔ ان کے پورے جسم میں ایک عجیب طرح کا تناؤ تھا، درد کی لہریں پیروں سے چلتی جلد پر اپنے نشان، متوازی طور پر چھوڑتی ماتھے سے ہوتی، جھڑے ہوئے بالوں والے سر سے واپس گھوم کر پیٹھ سے ہوتی پیروں کی طرف لوٹ گئی تھیں۔ کینسر کی ایسی ہی پِیڑھا نے ان لکیروں کو عمودی طور پر کاٹ کر سارے جسم پر باریک جھریوں کے مربعے، مستطیلیں اور بے شکل ڈبے بنا رکھے تھے۔ میرے والد ابھی زندہ تھے۔ انہوں نے چودھری جوئینر کی لاش کو دیکھا۔ میں اور میرا بھائی بھی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ انہوں نے ہم سے لاش کو تین چار بار پلٹوایا اور اسے غور سے دیکھتے رہے۔ وہ خاصے متفکر نظر آ رہے تھے۔ پاس ہی تپائی پر ایک تصویر پڑی تھی جو اُن کی بیوی نے ہمیں دی تھی اور خواہش ظاہر کی تھی کہ ان کے خاوند کا چہرہ ویسا ہی نظر آئے جیسا کہ تصویر میں تھا، یہ تصویر لگ بھگ تیس برس پرانی تھی۔ اس میں چودھری جونئیر، ائیر فورس کی وردی میں ملبوس کراچی کے ساحل پر کھڑے تھے۔ یہ ایک ایسا ’کلوز اپ‘ تھا جس میں ان کا چہرہ واضح اور آدھا دھڑ نظر آ رہا تھا جبکہ پیچھے وسیع و عریض سمندر اور لامتناہی حد تک پھیلے آسمان کا ملاپ تھا، سورج شاید تصویر کھینچنے والے کے پیچھے تھا۔ انہوں نے گروپ کیپٹن کی وردی پہن رکھی تھی۔

ہم نے پہلے بھی بہت سی پیچیدہ نعشوں کو پھر سے اُسارا تھا لیکن یہ ایک انوکھی نعش تھی۔ میرے والد نے ہمیں برف کے ڈھیلے لا کر اس میز، جس پر نعش پڑی تھی، کے چاروں طرف رکھنے کے لئے کہا اور خود ان کتابوں میں کھو گئے جن میں میت اُسارنے اور حنوط کرنے کے سینکڑوں طریقے درج تھے۔ برف کا انتظام کر کے میں ان کے ایک طرف اور میرا بھائی دوسری طرف بیٹھے انہیں کتابوں کے ورق الٹاتے پلٹاتے دیکھتے رہے، ایسے میں مجھے یاد آنے لگا کہ وہ سکول کے پرنسپل بننے سے پہلے پاکستانی ائیر فورس کے ایک جیالے فائٹر پائلٹ تھے اور انہوں نے ایک پڑوسی ملک کے ساتھ دو جنگوں میں شاندار کارکردگی دکھائی تھی اور حکومت نے انہیں کوئی میڈل بھی دیا تھا، ان کی یہ شاندار کارکردگی کیا تھی وہ تو ہم نے صرف اخباروں میں ہی پڑھی تھی لیکن وہ کتنے شفیق اور عمدہ استاد اور پرنسپل تھے، اس کا گواہ میں خود اور میرا بھائی تھا۔

اگلا سارا دن ہمارے والد چودھری جونئیر کی لاش پر کام کرتے رہے اور ہم دونوں بھائی انہیں مختلف قسم کے محلول اور لیپ بنا کر دیتے رہے۔ ہمارے والد نے گردن سے کام شروع کیا لیکن نیچے سے اوپر آتی، منجمد درد کی لہریں، اس لیپ میں، پھر سے دراڑیں ڈال دیتیں، جن کو وہ پھر سے بھرنے کی کوشش کرتے، یہ کچھ ایسا تھا جیسے جسم تو بے جان ہو لیکن کینسر کی پِیڑھا میں ابھی تک جان باقی ہو۔ اگر سیدھی لہریں بند ہو جاتیں تو عمودی انہیں پھر سے کاٹ دیتیں، یا پھر اس کے الٹ ہوتا۔ سہ پہر کے قریب میرے والد نے تب ہمت ہاری جب درد سے اینٹھی یہ لاش ان کے قابو میں نہیں آئی۔ انہوں نے چودھری جونئیر کی بیوی کو فون کیا اور انہیں اپنی مشکل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سروس و تدفین کے وقت کو فی الحال ملتوی کر دیں۔ وہ ایک بار پھر کتابوں میں کھو گئے۔ اپریل کے دوسرے عشرے میں موسم ابھی گرم نہیں ہوا تھا لیکن ہم میز کے گرد برف کے ڈھیلے پگھلنے پر انہیں مسلسل بدلتے رہے۔ سورج غروب ہو گیا، بتیاں روشن ہو گئیں لیکن میرے والد مسلسل کتابوں میں گم رہے۔ گھر کی طرف سے گھنٹی کی آواز آئی، ہماری ماں کی عادت تھی کہ میز پر کھانا لگانے سے پہلے پیتل کی وہ چھوٹی سی چمکیلی گھنٹی بجایا کرتی تھیں کہ اسے سن کر سب کھانے کے کمرے میں پہنچ جائیں۔ ہمیں اندازہ ہوتا کہ گھنٹی کے بجنے کے بعد دس منٹ میں کھانا لگ جانا ہوتا تھا اور اس دوران ان کے پاس نہ پہنچنے کا مطلب ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس گھنٹی کی آواز کو تو ہمارے والد بھی نظرانداز نہیں کرتے تھے لیکن اس روز انہوں نے اسے نظرانداز کیا اور کتاب پڑھنے میں مشغول رہے۔ اس روز پہلی بار ہوا تھا کہ ہماری والدہ نے لگ بھگ پندرہ منٹ کے بعد پھر سے گھنٹی بجائی تھی اور اس کی آواز کی لہروں کے اِرتعاش میں ان کے غصے کو صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ ہمارے والد نے مطالعہ جاری رکھا اور پھر کتاب کے ایک ورقے کا کونہ موڑ کر اسے بند کر دیا۔ انہوں نے نظر بھر کر میز پر پڑی لاش کو دیکھا اور پھر بولے، ’’ساری برف یہاں سے ہٹا دو۔‘‘

”لیکن ڈیڈی۔۔۔۔‘‘، میرا بھائی بولا۔

’’میں جیسا کہہ رہا ہوں، ویسے کرو۔‘‘

ہم نے برف ہٹا دی۔ مجھے لگا جیسے ہمارے والد کو راہ مل گئی ہو۔ وہ اطمینان سے اٹھے اور بولے،

’’چلو کھانا کھاتے ہیں۔ ہم اب اِس پر صبح کام کریں گے۔“

ہم جب ورکشاپ کے پچھلے دروازے کی طرف بڑھے تو ماں جالی والے دروازے کے پٹ کے ساتھ لگی کھڑی تھیں اور ان کے چہرے پر غصہ تھا۔

اگلی صبح ہم ناشتہ کر کے ورکشاپ کے اس کمرے میں آئے جہاں چودھری جونئیر کا لاشہ میز پر پڑا تھا۔ والد صاحب نے ان کے جسم کو کئی جگہ سے ٹٹولا اور منہ ہی منہ میں بولے،

’’اب یہ نرم ہو گئی ہے اور ہم اسے سنبھال لیں گے۔‘‘، وہ کچھ دیر چودھری جونئیر کے مردہ جسم کو دیکھتے رہے۔

اور پھر انہوں نے الماری میں رکھی بوتلوں اور مرتبانوں میں سے چار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمیں ان میں پڑے محلولوں اور کیمیاوی مادوں سے لیپ بنانے کو کہا۔

’’مقداروں کا تناسب کتاب میں اس صفحے پر درج ہے جسے میں نے موڑ رکھا ہے۔ اسے سامنے رکھو۔ ”

ہم نے لیپ تیار کر لیا تو انہوں نے ایک بار پھر ہاتھوں سے لاش کو ٹٹولا اور پھر لیپ کو پسلیوں پر لگانے سے کام شروع کیا، ہمارے لئے یہ بات نئی تھی۔ ہم عام طور پر چہرے، گردن اور ہاتھوں پر ہی اُساری اور آرائش کا کام کرتے تھے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ یہ لیپ گولائی میں لگا رہے تھے جیسے پِیڑھا کی لکیروں کو لیپ کے مساج سے مٹانا چاہتے ہوں۔ انہوں نے ہماری طرف دیکھے بغیر کہا،

’’جسم میں منجمد درد یہیں سے سارے جسم میں پھیلا ہے۔‘‘

ہم دیکھ رہے تھے کہ اب لیپ میں دڑاریں نہیں پڑ رہی تھیں۔ دو گھنٹے کی محنت کے بعد ہمارے والد نے چودھری جونئیر کے پورے جسم کو لیپ سے ڈھانپ دیا اور مجھے کافی لانے کو بولا۔ میں کافی لایا۔ انہوں نے ہاتھ دھوئے اور کرسی پر بیٹھ کر کافی پینے لگے۔ ان کی نظریں مسلسل میز پر جمی ہوئی تھیں۔ کافی ختم کر کے وہ اٹھے، لیپ کردہ جسم کو الٹوا پلٹوا کر تفصیلی معائنہ کیا۔ انہیں جب لیپ لگے جسم پر کوئی دراڑ نظر نہ آئی اور ان کی تسلی ہو گئی کہ لیپ کہیں سے بھی چٹخا نہیں تھا تو انہوں نے چِلمچی میں ایک بار پھر سے ہاتھ دھوئے اور بولے،

’’اب چہرہ، گردن اور ہاتھ تمہارے حوالے ہیں۔ تصویر کو لٹا کر سامنے رکھو اور چہرے کو ویسے ہی اُسار دو۔۔۔۔ پھر گردن، اور ہاتھ آخر میں کرنا‘‘، وہ ہم دونوں سے مخاطب تھے۔

وہ اس میز کی طرف بڑھے جہاں بیکولائٹ کا بنا کالا فون، جس کے ڈائل پر سفید رنگ سے گولائی میں نمبر لکھے ہوئے تھے، پڑا تھا۔ انہوں نے نمبر گھمائے۔ ہم نے چہرے پر کام کرنا شروع کر دیا تھا اور ہم اس پر موم کی ایک مہین تہہ لگا رہے تھے۔

’’ہیلو، گڈ آفٹر نون مسز چودھری، آپ اب تدفین کا اعلان کر سکتیں ہیں۔‘‘

دوسری طرف سے کچھ کہا گیا جو میرے بھائی اور مجھے سنائی نہ دیا۔

’’جی، جی، کل شام چھ بجے چرچ کی سروس اور اس کے بعد تدفین مناسب رہے گی۔‘‘، وہ کہہ رہے تھے۔

ہم اپنے کام میں لگے رہے اور وہ اس کمرے میں چلے گئے جہاں کاریگر میت کے لیے بنے تابوت کو پالش کی آخری گدیاں لگا رہے تھے، ہمارے ہاں بہت عرصے بعد سیاہ آبنوسی لکڑی کا تابوت تیار ہو رہا تھا۔

میرے بھائی نے بھی اسی سکول سے میڑک کیا تھا جہاں چودھری جونئیر پرنسپل رہ چکے تھے۔ جب ہمارے والد نے یہ کہا تھا کہ چہرہ، گردن اور ہاتھ تمہارے حوالے ہیں، تو میں سمجھ گیا تھا کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا تھا، ایک تو ہم اس کام میں ماہر ہو چکے تھے اور دوسرے ہم نے چودھری صاحب کو دس سال تک بہت قریب سے دیکھا تھا، ان کے چہرے کو عام، شفیق، غصے بلکہ ہر طرح کی حالت میں۔ جب ہم پہلی جماعت میں تھے تو وہ اس وقت ائیر فورس سے نئے نئے ریٹائر ہوئے تھے اور کیتھولک چرچ کے بڑوں نے انہیں اس سکول کا پرنسپل بنایا تھا۔ ہمیں ان کے ہاتھوں کی بھی گہری شناخت تھی، وہ ہاتھ جو کبھی بھی کسی طالب علم کو جسمانی سزا کے لیے استعمال نہ ہوئے تھے، ان کی کلائیاں مضبوط، ہتھیلیاں چوڑی جبکہ انگلیاں کسی فنکار کی طرح لمبی اور مخروطی تھیں۔

میرا بھائی اور میں ان کا چہرہ، گردن اور ہاتھ اسارنے میں فخر محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ گھبرائے ہوئے تھے۔ ہمیں یہ کام ایک کڑے امتحان سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ ہمارے والد شام تک اس کمرے میں دوبارہ نہ آئے اور جب وہ کافی کا مگ تھامے ہمارے پاس آئے تو ہم اپنا کام ختم کر چکے تھے اور اُن کپڑوں کو ترتیب دے رہے تھے، جو ان کو پہنائے جانے تھے، یہ اُن کا سب سے بہترین سوٹ تھا، آسمانی رنگ کی بہترین سِلکی قمیض، بہترین نیلی ٹائی، سیاہ چمڑے کی بیلٹ، چاندی کے عمدہ کف لِنگز جن میں یاقوت جڑے تھے، ٹائی پر لگایا جانے والا یاقوت جڑا چاندی کا کلپ، ان کی شادی کا سونے کا چھَلا، سیاہ موزے اور تسموں والے سیاہ ہی جوتے۔ یہ لباس ہمیں اجنبی نہ لگا کیونکہ ہم نے ان کی زندگی میں انہیں ایسے ہی نیوی بلیو ڈبل بریسٹ سوٹ میں کئی بار دیکھا ہوا تھا۔ ہمارے والد نے چودھری جونئیر کے چہرے، گردن اور ہاتھوں کو دیکھا، وہ کچھ دیر ان پر نظر جمائے دیکھتے رہے، بیچ بیچ میں وہ تصویر پر بھی نظر ڈالتے رہے، ہم سے ہونٹوں کی لالی مدھم کرائی اور پھر انہوں نے ہمیں دیکھا، ان کی نظر میں توصیف تھی۔

گھر کے پچھواڑے سورج غروب ہو رہا تھا اور پرندوں کی چہچہاہٹ اس بات کی غماز تھی کہ وہ اپنے اپنے گھونسلوں کو لوٹ رہے تھے اور ہم چودھری جونئیر کو ہر طرح سے سنوار اور سجا کرتا بوت میں لٹا رہے تھے، اس تابوت میں، جس میں لیٹے لیٹے، انہوں نے نئے مسیحی قبرستان تک اپنا آخری سفر طے کرنا تھا۔ تابوت میں لیٹے چودھری جونئیر کی میت کو دیکھ کر یہ احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ کینسر کی پِیڑھا جو ان کے جسم میں تب منجمد ہو گئی تھی، جب انہوں نے آخری سانس لیا تھا اور ان کے چہرے پر کریہہ طور پر نمایاں تھی۔ اب ان کا چہرہ ویسے ہی تر و تازہ اور جوان لگتا تھا جیسا ہم نے، برسوں پہلے، اپنے سکول کے زمانے میں دیکھا تھا۔

یہ آخری میت تھی جو ہمارے والد نے خود اور اپنی نگرانی میں تیار کروائی تھی۔

سال بھی نہ گزرا تھا کہ مارچ کے مہینے میں ہمارے والد صاحب ایک روز سہ پہر کے وقت ہمیں ساتھ لیے چودھری سینئر کے گھر گئے، یہ سکول سے ملحقہ گرجا گھر کے احاطے میں تھا جس میں کبھی چودھری جونیئر بھی ان کے ساتھ رہتے تھے۔

’’کل بڑے چودھری صاحب کی سالگرہ ہے۔ یہ ان کی 105 ویں سالگرہ ہو گی۔‘‘

’’تو ہمیں کل جانا چاہیے۔‘‘، میرے بڑے بھائی نے کہا۔

’’کل ایک طرح کا فیمیلی فنکشن ہو گا۔۔۔۔ بہت سے لوگ ہوں گے، بچے، بچوں کے بچے اور اب تو آگے ان کے بھی بچے ہیں۔ ایسے میں آج جانا ہی بہتر ہے۔‘‘

راستے میں انہوں نے مارکیٹ کے پاس مجھ سے گاڑی رُکوائی اور جب ہم وہاں پھول بیچنے والی ایک دکان سے 105 گلابوں کا گلدستہ تیار کروا رہے تھے تو انہوں نے کہا،

’’لوگ انہیں ایک فوٹوگرافر کے طور پر جانتے ہیں، فوٹوجرنلزم میں ان کے شاگرد انہیں چاچا کہتے ہیں لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ پہلے اسی سکول میں استاد تھے، جہاں تم دونوں بھی پڑھتے رہے ہو۔‘‘

گلدستہ تیار ہوا تو انہوں نے اس کے پھول گنتے ہوئے پھر کہا،

’’یہ تب کی بات ہے جب میں اس سکول میں میڑک کا طالب علم تھا، اس وقت جرمنی میں ہٹلر نے نیا نیا اقتدار سنبھالا تھا اور ہند کی انگریز سرکار دوسری گول میز کانفرنس کی ناکامی پر گھبرائی ہوئی تھی۔ میں نے فزکس اور ریاضی کے مضمون انہی سے پڑھے تھے۔ ’’

پھر وہ سوچ میں پڑ گئے اورانہوں نے گلدستہ بنانے والے کو گلدستہ واپس دیتے ہوئے اسے کہا کہ وہ اس میں سے ایک پھول کم کر دے۔

بڑے چودھری صاحب ہم سے تپاک کے ساتھ ملے۔ والد صاحب نے انہیں گلدستہ پیش کیا اور 104 سال مکمل ہونے پر مبارک باد دی۔ ہم نے کچھ دیر ان کے ساتھ وقت گزارا، چائے کے ساتھ چودھری جونیئر کی مسز کے ہاتھوں کی بنی ہوئی تازہ ’کوکیز‘ اور ’براؤنیز‘ کھائیں جو وہ بڑی تعداد میں اپنی جیٹھانی اور نندوں کے ساتھ مل کر اگلے روز کے لیے تیار کر رہی تھیں، اگلے روز کو جشن کی طرح منانے کے حوالے سے سب ہی اُن کے ہاں اکٹھے تھے اور گھر بھر میں چھوٹے بچوں کے کھیلنے کودنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، وہ لیونگ روم، جہاں ہم بیٹھے تھے، سے ملحقہ باورچی خانے میں گھستے اور ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود کوکیز اور براؤنیز اڑا لے جاتے۔ سورج نے جب خود کو مغرب میں، نیچے تک اترے بادلوں، میں چھپانا شروع کیا تو ہم ان سے اجازت لے کر گھر لوٹے، ہمارے والد نے ان کے پیروں کو چھُو کر ان سے وداعی لی تھی۔

اگلی صبح ہم ابھی ناشتہ کر ہی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ہماری تربیت میں شامل تھا کہ اگر والد صاحب موجود ہوں تو ہم میں سے کوئی فون تب تک نہیں اٹھاتا تھا، جب تک وہ نہ کہتے۔ عام طور پر وہ خود ہی فون اٹھاتے تھے۔ ہماری والدہ اٹھیں اور فون اٹھا کر ان کے پاس لائیں۔ انہوں نے فون اٹھایا،

’’ہیلو، گڈ مورننگ‘‘، انہوں نے بس اتنا ہی کہا اور دوسری طرف سے آتی آواز سنتے ہوئے ’’جی۔۔۔۔ جی“ ہی کہتے رہے۔ اور پھر فون رکھ کر انہوں نے اتنا ہی کہا،

’’بڑے چودھری صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ میت تیار کرنے کے حوالے سے تیاری کر لو۔‘‘، وہ ہم دونوں سے مخاطب تھے۔ مجھے لگا جیسے ان کی آنکھیں نم آلود ہوں۔ انہوں نے ناشتہ ادھورا چھوڑا، چائے کا مگ اٹھایا اور بِنا کچھ کہے کمرے سے نکل گئے۔ ہماری والدہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیں۔

بھائی اور مجھے بڑے چودھری صاحب کی میت اُسارنے، سنوارنے اور سجانے میں چنداں دشواری پیش نہ آئی کیونکہ اتنی عمر کے باوجود ان کا جسم توانا تھا، کسی موذی بیماری نے ان کے جسم کو کھایا نہ تھا اور بڑھاپے نے بھی اِس جسم کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ ان کے چہرے پر ایک ایسا سکون تھا جو ہم نے کم ہی کسی کے چہرے پر دیکھا تھا، ہلکا پیازی غازہ ہی اس پُرسکون چہرے، گردن اور ہاتھوں کو نکھارنے کے لئے کافی ثابت ہوا تھا۔

تدفین کے وقت، جب ہم قبرستان میں تھے تو مجھے پتہ چلا کہ وہ رات کو کھانا کھا کر اپنی آل اولاد کے ساتھ ہنستے کھیلتے رات دیر تک جاگتے رہے تھے۔ انہوں نے رات بارہ بجے اپنے بچوں، پوتوں، پوتیوں، نواسوں، نواسیوں اور ان کے بچوں کا کورس میں گایا ’ہیپی برتھ ڈے۔۔۔۔‘ سنا تھا اور ان سب کے ماتھے چوم کر دُعا دیتے ہوئے سونے کے لیے لیٹے تھے۔۔۔۔ ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اسی روز، لگ بھگ پو پھٹنے کے وقت سوتے میں ہی دم دیا تھا

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے