’صحرا کا گلاب‘ ۔۔۔ طارق نعیم

 

نام کتاب: صحرا کا گلاب

شاعر: سعید خان

تبصرہ: طارق نعیم

 

جب سے شاعری وجود میں آئی ہے زندگی نے خود اپنے اندر جینے کا ایک دلفریب انداز سیکھ لیا ہے۔ جو شاعر اپنی شاعری میں زندگی سے جتنا قریب ہوتا ہے اس کی شاعری اتنی ہی خوبصورت ہوتی جاتی ہے۔ زندگی کو شاعری کے پہناوے میں لانا اگرچہ مشکل ہے مگر اس میں ایک دلنشینی کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ محبت کرنے والے دلوں کے راستے آسان کر دیتی ہے ورنہ شاعری دُوری کی کھونٹی سے ٹنگی رہ جاتی ہے۔

’’صحرا کا گلاب‘‘ والا شاعر سعید خان زندگی سے محبت کرنے اور زندگی کو ہر دم بدلتا دیکھنے کی آرزو رکھتا ہے۔ وہ زندگی کے زنداں میں پہلے پہل اکیلا تھا مگر اب اِس زنداں میں اُسے ایک اور زنجیر بھی چھنکتی سنائی دیتی ہے۔ اُسے لگتا ہے کہ سرِ شام اس کے پہلو میں کوئی اور بھی ایک نیا زندان نامہ تحریر کر رہا ہوتا ہے۔ رفاقت کے لمس کی خنکی وہی محسوس کر سکتا ہے جس نے تپتے صحرا میں گلاب کاشت کرنے کا عمل جاری رکھا ہو۔ سعید خان کا غزالِ دشت اصل میں صحرا کا گلاب ہے اور یہ گلاب کبھی اتنی آسانی سے دکھائی دیتا ہے نہ ہاتھ آتا ہے۔ اس گلاب تک پہنچنے کے لیے خاروں سے انگلیاں فگار کرنا پڑتی ہیں۔ ہاں اگر جو بھی اِس کتاب کو دل کی آنکھ سے پڑھے گا تو صحرا کا گلاب اس کے لیے خود ہی دامن کشا ہو گا۔

بعض کتابوں کی اپنی کنجیاں ہوتی ہیں وہ اپنے پڑھنے والوں پر یوں ہی نہیں کھل جاتیں۔ پڑھنے والے کو اگر اس کی کنجی کا معلوم ہو تو وہ آسانی سے اس کے در کھول سکتا ہے۔ ’’صحرا کا گلاب‘‘ میں تو کئی در ہیں۔ میرے خیال میں یہ کتاب ’’عروسِ ماورا‘‘ کی کنجی سے کھل سکتی ہے۔ یہ نظم اِس طلسم کے اسم کا پتا دیتی ہے جس سے تفہیم کا دروازہ خود بخود کھلنے لگتا ہے۔ عروسِ ماورا کی ساحرہ ہی اسم کا طلسم ہے۔ اگرچہ یہ کتاب پوری کی پوری شاعر کے اظہارِ ذات کا منظر نامہ ہے جس میں ساحرہ مسلسل اپنی جھلک دکھاتی رہتی ہے۔ وہ احساس دلاتی رہتی ہے کہ وہ بھلا دینے والی نہیں اس لیے وہ خود بار بار شعروں میں اپنی یاد دلاتی رہتی ہے۔ یہ شاعری پڑھ کر گماں ہوتا ہے کہ اب اِس کتاب میں شاعر کے علاوہ کوئی اور بھی ہے۔ وہ کوئی اور احساس سے زیادہ نازک اور خیال سے زیادہ خوبصورت ہے۔

محبت خوف بھی ہے اور طاقت بھی اس سے بڑا حوصلہ دینے والا کوئی نہیں اور اس سے زیادہ اندر سے توڑ پھوڑ کرنے والا ابھی سطحِ احساس پر نمودار نہیں ہوا۔ مصیبت یہ ہے کہ محبت کی شکست فتح سے بھی زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ ایسے میں انسان بے اختیار ہو کر کسی کا ہو جاتا ہے۔

داغستان کی ایک کہاوت ہے کہ ’’شاعری انسان کی پیدائش سے سو سال پہلے پیدا ہوئی تھی‘‘ تو پھر کیا انسان سے شاعری ہی کا پہلا مکالمہ ہوا ہو گا۔ اگر یہ مکالمہ ہوا بھی ہو گا تو وہ صحرا میں ہوا ہو گا کیونکہ صحرا میں آواز دور تک جاتی ہے اور دیر تک رہتی ہے۔ صحرا کا اپنا ایک طلسم ہوتا ہے۔ ہر دم حیران کر دینے والا۔ ایسا بدن گریز کہ ہر آن اپنی صورتیں بدلتا رہتا ہے۔ بے سمت، بے کراں آزاد اور پُر فریب، صحرا کے رنگوں اور موسموں کا راستہ پوچھنا ہو تو ’’صحرا کا گلاب‘‘ آپ کو بآسانی یہ راستہ سمجھا سکتا ہے۔ صحرا کا گلاب کے کئی دروازے ہیں جہاں دستک دیئے بغیر کوئی بھی باریابی کا شرف حاصل نہیں کر سکتا۔ پہلا باب عقیدت کا ہے جس میں حمد، نعت، منقبت اور سلام کے چھوٹے چھوٹے باغیچے ہیں۔ آخر میں ہمارے دوست اور خوبصورت شاعر پیر نصیر الدین نصیر کے لیے بھی ایک چھوٹی سی کیاری میں کچھ عقیدت کے پھول کھلائے گئے ہیں۔ ’’غزالِ دشت نے زنجیر کر لیا ہے مجھے‘‘ یہ اس کتاب کا دوسرا دروازہ ہے جس میں اکتیس غزلیں مسلسل باہم گفتگو کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ’’چاند قربت کی خبر لایا ہے‘‘ یہ تیسرا دروازہ ہے جس میں تیئس نظموں کا ایک چمنستان مہک رہا ہے۔ چوتھا دروازہ ’’کچھ سوا یار کے مشکل سے نظر آتا ہے‘‘ اِس میں کچھ اور غزلیں اپنے ہونے کا احساس دلا رہی ہیں۔ یہ پچیس غزلیں اپنا الگ رنگ اور لہجہ رکھتی ہیں۔ آخر میں ’’سُن روہی کی رانی‘‘ والے دروازے میں کچھ اور گیارہ نظمیں ہیں۔ عہد ساز شاعر فراز کے فراق میں لکھی گئی نظم کے ساتھ یہ کتاب اپنے سارے دروازے کھول دیتی ہے۔

یہ کتاب ’’صحرا کا گلاب‘‘ سعید خان نے اپنی شریکِ سفر نوشی گیلانی کے نام کی ہے۔ ایک خوش خیال شاعر نے ایک پُر جمال شاعرہ کے حضور محبت نامہ پیش کیا ہے جس کی ہر سطر سے جذبوں کی سچائی چھلکتی نظر آتی ہے۔ اس کتاب میں ہر طرح کے شیڈ دکھائی دیتے ہیں۔ نظموں میں اپنی ایک رمزیت اور بنت کی خوبصورتی ہے۔ روہی کی رانی والی نظموں میں فراق نے اپنا ایک الگ جہاں آباد کیا ہوا ہے۔ سعید خان نے گزشتگاں کو بھی یاد رکھا ہے اور ہم سفروں کی بھی دل کھول کر پذیرائی کی ہے۔ سعید خان نے دیارِ غیر میں بھی گھر کو اپنے دل میں آباد کیا ہوا ہے۔ ایسا گھر جس میں پورا آسٹریلیا آ سکتا ہے مگر وہ گھر شاید پورے آسٹریلیا میں بھی نہیں سما سکتا۔ اُس نے وسعت کی اس ویرانی میں بھی اپنے لیے تھوڑی سی بات یہ ہے کہ گلاب کو بھی اس بات کا احساس ہے۔ زندگی میں ایسے لمحے کم آتے ہیں کہ انسان جس چیز کی خواہش کرتا ہے وہ اسے مل بھی جاتی ہے۔ یہ خواہش پوری کرنے والے کے اپنے فیصلے ہیں اور کتنے خوبصورت فیصلے ہیں۔

شاعری ہماری تہذیبی روایت ہے اور سعید خان نے اس روایت کو پورے خلوص سے تقویت دینے کی کوشش کی ہے۔ اُس کے خیال میں سچائی اور مضامین میں خلوص ہے۔ اس نے شعر کے ساتھ تصنع نہیں برتا بلکہ شاعری کو دوست کی طرح اپنے ساتھ رکھا ہے۔ یہ کتاب جذبوں کی ایک دستاویز ہے جسے پڑھ کر مسافرانِ محبت اپنا سفر آغاز کیا کریں گے اور اب آخر میں ’’صحرا کا گلاب‘‘ سے کچھ شعر دیکھتے چلئے:

شکست مان کے تسخیر کر لیا ہے مجھے

غزال دشت نے زنجیر کر لیا ہے مجھے

میں منتشر تھا کسی عکس رائیگاں کی طرح

نگاہ شوق نے تصویر کر لیا ہے مجھے

بکھر گیا تھا سر شہرِ نا شناسا میں

کسی کے ربط نے تعمیر کر لیا ہے مجھے

نکل کے جاؤں کہاں میں حصار گردش سے

سفر نے پاؤں میں زنجیر کر لیا ہے مجھے

سکوت غم سے بدن خاک ہو چلا تھا مگر

طلسمِ لمس نے اکسیر کر لیا ہے مجھے

مرے سخن میں سما کر کتاب رو نے مری

خود اپنے حسن کی تفسیر کر لیا ہے مجھے

میں اک خیال سر رہ گزار شب تھا سعیدؔ

کسی کے خواب نے تعبیر کر لیا ہے مجھے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے