انوکُل ( Anukul) ۔۔۔ ستیہ جِت رے

اردو قالب۔ قیصر نذیر خاورؔ

 

’’کیا اس کا کوئی نام بھی ہے یا نہیں؟“، نیکنج بابو نے پوچھا۔

’’او ہاں، بالکل ہے۔‘‘

’’کیا ہے؟“

’’انوکُل۔‘‘

چورنگی میں چھ ماہ پہلے ہی رو بوٹ مہیا کرنے کی ایک ایجنسی کھلی تھی۔ نیکنج بابو ہمیشہ سے چاہتے تھے کہ انہیں ایک میکانکی نوکر مل جائے۔ اب ان کا اپنا کاروبار خوب چل نکلا تھا اس لیے وہ اپنی اس ننھی سی خواہش کو پورا کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔

نیکنج بابو نے رو بوٹ کا معائنہ کیا۔ یہ ایک ’اینڈرائیڈ‘ تھا، مطلب یہ کہ وہ مشین ہونے کے باوجود، دیکھنے میں ایک عام آدمی جیسا دِکھتا تھا۔ وہ دِکھنے میں دلکش اور لگ بھگ بائیس کا لگ رہا تھا۔

’’یہ رو بوٹ کس قسم کے کام کر لے گا؟“، نیکنج نے پوچھا۔

کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے سیلز مین نے سگریٹ سلگایا اور جواب دیا،

’’یہ کم و بیش وہ سارے کام کر لے گا جو ایک عام نوکر کرتا ہے۔ یہ بس کھانا پکانا نہیں جانتا۔ باقی، یہ کپڑے دھو سکتا ہے، صفائی کر سکتا ہے، بستر بنا سکتا ہے، چائے بنا سکتا ہے، دروازے اور کھڑکیاں کھول سکتا ہے۔۔ مطلب سبھی کچھ لیکن آپ اسے باہر مت بھیجیں۔ گھر میں تو یہ سب کچھ کر لے گا، لیکن باہر جانا اور خریداری کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اور۔۔ ہاں آپ کو اس سے شائشتگی سے بات کرنا ہو گی۔ یہ توقع کرتا ہے کہ اس سے بات کرنے والا بندہ، اسے ’پلیز‘ اور ’تھینک یو‘ کہہ کر بات کرے۔

’’مجھے امید ہے کہ یہ بدمزاج تو نہیں ہو گا؟ اور غصہ بھی نہیں کھاتا ہو گا؟“

’’نہیں، بالکل نہیں۔ یہ آپ کے لیے تب ہی مصیبت کھڑی کرے گا جب آپ اس پر ہاتھ اٹھائیں گے۔ ہمارے رو بوٹ مار برداشت نہیں کرتے۔‘‘

’’اول تو ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں لیکن پھر بھی، اگر کوئی اسے تھپڑ مار دے، تو یہ کیا کرے گا؟“

’’یہ اس کا بدلہ لے گا۔‘‘

’’کیسے؟“

” ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ کی بڑی انگلی استعمال کرے۔ وہ اس انگلی سے بجلی کا ایک شدید اور طاقتور جھٹکا دے سکتا ہے۔‘‘

” کیا اس کے نتیجے میں موت واقع ہو سکتی ہے؟‘‘

” یقیناً ہو سکتی ہے۔ اور قانون اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ ایک عام آدمی کی طرح، ایک رو بوٹ کو سزا نہیں دی جا سکتی۔۔ لیکن میں آپ کو یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ ابھی تک ایسا کوئی واقع پیش نہیں آیا۔‘‘

” کیا یہ رات میں سوتا ہے؟“

” نہیں۔ رو بوٹ سوتے نہیں ہیں۔‘‘

” تو پھر یہ ساری رات کیا کرتا ہے؟‘‘

” یہ آرام سے، اور خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا رہتا ہے۔ رو بوٹوں میں تحمل، برداشت اور صبر کی کمی نہیں ہوتی۔‘‘

” کیا اس کا دماغ ہے؟“

” بسا اوقات رو بوٹ کچھ ایسی باتوں کا احساس کر اور انہیں سمجھ سکتے ہیں، جو انسان نہیں سمجھتا۔۔ لیکن ایسا بھی ہے کہ سارے رو بوٹ اتنے حساس بھی نہیں ہوتے۔ در اصل یہ قسمت کی بات ہے۔ یہ وقت ہی بتاتا ہے کہ ایک رو بوٹ اتنا باصلاحیت ہے کہ نہیں۔‘‘

نیکنج بابو رو بوٹ کی طرف مڑے اور بولے،

” انوکُل، تمہیں میرے ساتھ کام کرنے میں کوئی اعتراض تو نہیں ہے، یا ہے؟‘‘

” مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟“، انوکُل نے انسانوں سی عام آواز میں جواب دیا۔ اس نے نیلی دھاری دار قمیض اور کالی نیکر پہن رکھی تھی۔ اس کے بال ترچھی مانگ کے ساتھ اچھی طرح سنورے ہوئے تھے۔ اس کی رنگت صاف تھی۔ دانت صاف، چمکیلے اور اس کے منہ پر ہلکی سی مسکان تھی۔ اس کے سارے حلیے سے ایسا اعتماد جھلک رہا تھا جسے دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔

” چلو پھر چلتے ہیں۔‘‘

نیکنج بابو کی ماروتی وین باہر کھڑی تھی۔ انہوں نے انوکُل کی ادائیگی بذریعہ جیک کی اور اسے ساتھ لیے باہر نکل آئے۔ انوکُل کی حرکات و سکنات عام انسانوں سے بالکل مختلف نہ تھیں۔

نیکنج بابو ’سالٹ لیک‘ میں رہتے تھے۔ وہ شادی شدہ نہیں تھے۔ شام میں ان کے کچھ دوست تاش کھیلنے آ جاتے۔ انہیں پہلے ہی ایک میکانکی نوکر کی بابت بتا دیا گیا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ نیکنج بابو نے انوکُل کو حاصل کرنے سے پہلے کچھ تحقیق کی تھی۔ کولکتہ کے اونچے طبقوں کے کئی لوگوں نے پہلے ہی گھر کے کام کاج کے لیے رو بوٹ رکھے ہوئے تھے۔ مانشوخانی بابو، گریج بوس، پنکھج دت رائے، چہبریا بابو۔۔ سب ہی نے کہا تھا کہ وہ مطمئن تھے اور ان کے رو بوٹ نوکروں نے ان کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہیں کی تھی۔

” ہمارا جیون لال، جسے جو بھی کہا جائے وہ سارے کام جھٹ پٹ کر لیتا ہے۔‘‘، مانشوخانی بابو نے کہا تھا۔ ” میں تو اس بات کا قائل ہو گیا ہوں کہ وہ مشین ہے ہی نہیں۔،، اس کے پاس یقیناً ایک دماغ اور دل ہے۔‘‘

سات دنوں میں ہی نیکنج بابو کی بھی یہی رائے بن چکی تھی۔

انوکُل کے کام کرنے کا طریقہ اُتم تھا۔ لگتا تھا کہ وہ ایک کام اور دوسرے کام کے درمیان منطقی تعلق کو سمجھتا تھا۔ اگر نیکنج بابو اس سے یہ پوچھتے کہ کیا ان کے نہانے کا پانی تیار تھا، تو وہ فوراً ہی، نہ صرف پانی مہیا کرتا بلکہ صابن، تولیہ اور ساتھ میں اور جو کچھ ضروری ہوتا، وہ بھی اپنے مالک کے لیے لے آتا۔ اس کے بعد وہ اپنے مالک کے کپڑے، جوتے اور دیگر لوازمات، جن کی نیکنج بابو کو ضرورت ہو سکتی تھی، ان کے لیے تیار رکھتا۔ وہ یہ سارے کام اتنی خوش دلی اور لگن سے کرتا کہ اس کے ساتھ ناشائستہ رویہ اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

نیکنج بابو کے دوستوں، خاص طور پر وِنے پرکاشی، کو انوکُل کا عادی ہونے میں کچھ وقت لگا۔ وہ اپنے نوکر سے بھی اکثر کھردرے اور درشت لہجے میں بات کرتا تھا اور ایک بار وہ انوکُل کے ساتھ بھی قدرے درشتی سے مخاطب ہوا۔ انوکُل نے اپنی متانت برقرار رکھی۔

” دیکھئے، بڑے میاں، اگر آپ مجھ سے درشتی سے پیش آئیں گے۔‘‘، اس نے آرام سے کہا، ” تو میں بھی آپ کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آؤں گا!“

وِنے بابو نے یہ غلطی پھر نہ دوہرائی۔ نیکنج بابو نے انوکُل سے بہت اچھے تعلقات استوار کر لیے تھے۔ اس نے ان کے لیے، ان کے کہے بغیر، ان کے سارے کام کرنا شروع کر دئیے۔ نیکنج بابو کے لیے یہ سب حیرانی کا باعث تھا لیکن انہیں پھر یاد آیا، ’رو بوٹ مہیا کرنے والی ایجنسی میں سیلز مین نے یہ کہا تھا کہ کچھ خاص رو بوٹوں میں دماغ جیسا کچھ ہوتا ہے اور وہ سوچ سکتے ہیں۔ انوکُل یقیناً اسی قسم کا لگتا ہے۔‘

یہ، البتہ، سمجھنا اور یقین کرنا بہت ہی مشکل تھا کہ انوکُل بالکل بھی نہ سوتا۔

’وہ جس طرح اصلی انسانوں کی طرح کام کرتا ہے، اسے لازمی طور پر رات میں کچھ دیر تو سونا ہی چاہیے۔‘، نیکنج بابو نے یہ سوچ کر ایک رات اس بات کی پڑتال کرنا چاہی۔ وہ جیسے ہی انوکُل کے کمرے میں جھانکے، انہوں نے اسے کہتے سنا، ” جناب، کیا آپ کو کسی شے کی ضرورت ہے؟“

نیکنج بابو نے خجالت محسوس کی اور بولے، ” نہیں۔‘‘ اور الٹے قدموں لوٹ گئے۔ انوکُل کے ساتھ بہت سے موضوعات پر بات کرنا ممکن تھا۔ لگتا تھا کہ اسے کھیلوں، سنیما، تھیئٹر اور ادب پر اچھی خاصی جانکاری تھی۔ ایسا بھی لگتا تھا کہ وہ اپنے مالک کے مقابلے میں بہت سی چیزوں کے بارے میں زیادہ اور بہتر معلومات رکھتا ہو۔ نیکنج بابو اس کے علم کے پھیلاؤ اور رو بوٹ بنانے والوں کے ہنر اور مہارت پر حیران ہوتے۔

اور پھر یوں ہوا کہ ساری اچھی باتیں ایک روز ختم ہو گئیں۔

نیکنج بابو سے اپنے کاروبار میں کچھ غلط فیصلے ہو گئے۔ انوکُل کے آنے کے بعد، سال بھر میں ہی ان کی مالی حالت پتلی ہو گئی۔ وہ انوکُل کا کرایہ، جو دو ہزار روپے ماہانہ تھا، ادا کرتے رہے۔۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ وہ کس وقت یہ ادائیگی نہ کر سکتے اگر ان کی مالی حالت اسی طرح رہتی؟ ایجنسی نے انہیں کہا تھا کہ ماہانہ ادائیگی نہ ہونے پر انہوں نے رو بوٹ واپس لے لینا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ نیکنج بابو کو اپنے پیسوں کے بارے میں خاصا محتاط رویہ اختیار کرنا پڑنا تھا۔

تبھی، اس سمے کچھ ایسا ہوا جس نے نیکنج بابو کے سارے ارادوں پر پانی پھیر دیا۔

ایک صبح، نیکنج بابو کے چاچا آ دھمکے۔ ” میں چندن نگر میں اکیلے رہتے رہتے اکتا گیا تھا۔۔ میں نے چنانچہ یہ سوچا کہ میں کچھ دن تمہارے ساتھ گزاروں۔‘‘، انہوں نے آتے ہی کہا۔

نیکنج بابو کے یہ چاچا، جن کا نام، نبرن بنرجی، تھا، کبھی کبھار آتے تھے اور اپنے بھتیجے کے ساتھ رہتے۔ نیکنج بابو کے والد کو فوت ہوئے عرصہ ہو گیا تھا اور نبرن، تین بھائیوں میں سے واحد تھے جو اب تک زندہ تھے۔ وہ بوڑھے ہونے کے ساتھ ساتھ چڑچڑے بھی تھے۔ کہا جاتا تھا کہ انہوں نے بطور وکیل بہت مال بنایا تھا، البتہ ان کے رہن سہن سے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہ تھا۔ وہ یقیناً ایک کنجوس آدمی تھے۔

” چاچا جی، مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ میرے ہاں رہنے کے لیے آئے ہیں۔‘‘، نیکنج بابو نے کہا، ” لیکن میں آپ کو ایک بات ابھی سے صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں۔ میں نے اب ایک میکانکی نوکر رکھ لیا ہے۔ آپ نے سنا ہی ہو گا کہ اب کولکتہ میں کمپنیاں رو بوٹ بنا رہی ہیں۔‘‘

” ہاں، میں نے ان کے اشتہار دیکھے ہیں لیکن یہ بتاؤ تمہارا نوکر کہاں سے ہے؟ تمہیں پتہ ہی ہے کہ میں اس معاملے میں خاصا دھیان رکھتا ہوں۔ کیا تمہارا نیا نوکر کھانا بھی بناتا ہے؟“

” نہیں، نہیں، بالکل نہیں۔‘‘، نیکنج بابو نے انہیں یقین دلایا، ” میرے پاس ابھی پرانا والا باورچی ہے۔ آپ کو اس لیے چِنتا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس نئے والے کا نام انوکُل ہے۔۔ اور۔۔ ہاں آپ اس کے ساتھ شائستگی سے بات کریں گے۔ اسے یہ پسند نہیں کہ لوگ اس پر چیخیں۔‘‘

” اسے پسند نہیں، یہ کیا بات ہوئی؟“

” میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اسے یہ پسند نہیں۔‘‘

” کیا مجھے اس کی پسند اور ناپسند کے مطابق چلنا پڑے گا؟‘‘

” یہ صرف آپ کے لیے ہی نہیں ہے۔ اس کا اطلاق سب پر ہوتا ہے لیکن آپ کو اس کے کام سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔

” لیکن تم اس سارے جھنجھٹ میں کیوں پڑ گئے ہو؟“

” میں نے آپ کو بتایا ہے نا۔۔ وہ ایک بہت اچھا نوکر ہے۔‘‘

” خیر، اسے بلاؤ۔ میں بھی تو دیکھوں کہ وہ کیسا ہے۔‘‘

” انوکُل!“، نیکنج بابو نے آواز دی۔ انوکُل فوراً ہی ان کے پاس آیا۔

” میرے چاچا جی سے ملو۔‘‘، نیکنج بابو نے کہا، یہ کچھ عرصہ ہمارے ہاں رہیں گے۔‘‘

” بہت اچھی بات ہے، جناب۔‘‘

” ہے بھگوان۔۔ یہ تو آدمیوں کی طرح بولتا ہے۔‘‘، نبرن بینرجی حیران ہو کر بولے، ” ٹھیک ہے، کیا تم میرے لیے گرم پانی کا بندوبست کر سکتے ہو؟ میں نہانا چاہتا ہوں۔ بارشوں کے بعد کچھ سردی سی ہو گئی ہے۔۔ لیکن میں دن میں دو بار نہانے کا عادی ہوں۔‘‘

” جی، جناب۔‘‘

انوکُل ان کے حکم کی تعمیل بجا لانے کے لیے چلا گیا۔

نبرن بابو کے آنے سے، نیکنج بابو کی مالی حالت میں تو کوئی بہتری نہ ہوئی، البتہ اس کے دوستوں نے شام میں آنا چھوڑ دیا۔ چاچا کے سامنے ’رَمی‘ یا ’پوکر‘ کھیلنا مناسب نہ تھا۔ دوسرے یہ بات بھی تھی کہ اب نیکنج بابو کے لیے پیسوں کی شرط لگانا ممکن بھی نہیں رہا تھا۔

یہ کہنا مشکل تھا کہ نیکنج بابو کے چاچا اس بار کتنی دیر کے لیے رہنے آئے تھے۔ وہ جب بھی آتے تو اپنی مرضی سے ہی جاتے۔ اس بار ایسا لگتا تھا جیسے وہ قدرے لمبے عرصے کے لیے رہنے آئے تھے۔۔ اور اس کی وجہ انوکُل تھا۔ یہ میکانکی نوکر ان کے لیے دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ ناگواری کا باعث بھی تھا۔ وہ اس بات سے تو انکار نہیں کر سکتے تھے کہ انوکُل کی بطور نوکر کارگردگی کا کوئی مقابلہ نہ تھا، لیکن ساتھ ہی ایسا بھی تھا، وہ اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ محض ایک نوکر کے لیے وہ اپنے رویوں کے بارے میں محتاط رہیں۔

ایک دن انہوں نے اپنے بھتیجے سے کہا، ” نیکنج، تمہارا یہ نوکر بعض اوقات میرے لیے مصیبت کا باعث بن جاتا ہے۔‘‘

” کیوں، کیا ہوا؟“، نیکنج بابو نے پریشان ہو کر پوچھا۔

” کل میں گیتا کا پاٹ کر رہا تھا تو تمہارے اس خبیث نوکر نے میری اصلاح کرنے کی جرا ٔت کی۔ اگر میرے الفاظ غلط بھی تھے تو اس کا یہ کام نہیں کہ میری اصلاح کرے۔ کیا ایسا ہوتا ہے کہ نوکر منہ کو آئے؟ یہ کچھ زیادہ ہی نہیں۔،،؟ میرا دل کیا کہ میں اسے کَس کے ایک تھپڑ رسید کروں۔،، لیکن پھر میں نے خود پر مشکل سے ہی قابو پایا۔‘‘

” نہیں، چاچا جی، آپ نے ایسا کبھی نہیں کرنا اور اس پر ہاتھ تو بالکل بھی نہیں اٹھانا۔۔ اس کا اثر اور نتیجہ بہت بھیانک نکل سکتا ہے۔ مجھے اس کی کمپنی والوں نے ایسا ہی بتایا تھا۔ بہتر یہ ہو گا کہ جب وہ آس پاس ہو تو آپ گیتا کا پاٹ مت کیا کریں۔‘‘

نبرن بابو بُڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔

جیسے جیسے دن گزرتے گئے، نیکنج بابو کی آمدن اور بھی کم ہوتی گئی۔ اس کے لیے انوکُل کا کرایہ ہر ماہ دینا مشکل ہونے لگا۔ ایک روز نیکنج بابو اس کا ذکر انوکُل سے کیے بغیر نہ رہ سکے۔

” انوکُل، میرا کاروبار کچھ اچھا نہیں چل رہا۔‘‘

” مجھے معلوم ہے۔‘‘

” ہاں، شاید تم جانتے ہو۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں ان حالات میں تمہیں کتنا عرصہ اپنے پاس رکھ سکوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ تمہیں خود سے الگ کروں لیکن۔۔‘‘

” مجھے اس بارے میں غور کرنے دیں۔‘‘

” کس کے بارے میں؟“

” یہی کہ اس مسئلے کا شاید کوئی حل ہو۔‘‘

” تم میری مدد کرنے کے حوالے سے کیا سوچ رہے ہو؟ کاروبار کیسے چلایا جا سکتا ہے، یہ تم کیا جانو، یا جانتے ہو؟“

” نہیں، لیکن مجھے کوشش تو کرنے دیں۔‘‘

” ٹھیک ہے۔ لیکن میں تمہیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں۔،، میرے لیے تمہیں زیادہ دیر رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔‘‘

” جی، جناب۔‘‘

دو مہینے گزر گئے۔ یہ اتوار کا دن تھا۔ نیکنج بابو کے محتاط حساب کتاب کے مطابق وہ انوکُل کو بس دوماہ مزید رکھ سکتا تھا۔ اس کے بعد اسے کسی بندے کو نوکر رکھنا پڑنا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ اس نے یہ تلاش شروع بھی کر دی تھی۔ اس صورت حال نے اس پر ایسا ذہنی دباؤ ڈالا تھا جو ختم ہونے کو ہی نہ آتا۔ اوپر سے معاملات کو اور خراب کرنے کے لیے بارشیں تھیں کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔

نیکنج بابو نے اخبار ایک طرف رکھا اور وہ انوکُل کو آواز دے کر بلانے ہی والا تھا کہ وہ انہیں چائے کی ایک پیالی بنا کر دے، وہ خود ہی آ گیا۔

” انوکُل، کیا بات ہے؟“

” جناب، ایک حادثہ ہو گیا ہے۔‘‘

” حادثہ؟ کیا ہوا؟“

” آپ کے چاچا کھڑکی کے نزدیک کھڑے ٹیگور کا بارش کے بارے میں ایک گیت گا رہے تھے۔ ان کے منہ سے کچھ الفاظ غلط نکلے تو میں نے اپنا یہ فرض جانا کہ ان کی درستی کر دوں۔ میں نے انہیں درست الفاظ بتائے، اس پر وہ اتنا برہم ہوئے کہ انہوں نے مجھے تھپڑ مار دیا۔ مجھے جواباً ان سے حساب برابر کرنا پڑا۔‘‘

” ان سے حساب برابر کرنا پڑا؟ کیا مطلب؟“

” جی، مجھے ان کو بجلی کا ایک شدید جھٹکا دینا پڑا۔‘‘

” اس کا مطلب۔۔،؟‘‘

” جی، وہ مر چکے ہیں۔ لیکن جس وقت میں نے انہیں بجلی کا جھٹکا دیا تھا تو اسی وقت آسمانی بجلی بھی چمکی تھی۔‘‘

”ہاں، بجلی کڑکنے کی آواز تو میں نے بھی سنی تھی۔‘‘

” اس لیے آپ کو ان کے مرنے کی اصل وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

” لیکن۔۔‘‘

” آپ فکر نہ کریں، جناب۔ آپ کے چاچا کا مرنا آپ کے لیے اچھا ثابت ہو گا۔‘‘

اور پھر ایسا ہی ہوا۔ چاچا کی موت کے دو دن بعد، نیکنج بابو کو چاچا کے وکیل، بھاسکر بوس کا فون آیا۔ نبرن بابو نے اپنی ساری جائیداد اپنے بھتیجے کے نام چھوڑی تھی۔ اس کی مالیت دس لاکھ سے اوپر ہی تھی۔

[ یہ کہانی پہلی بار 1986ء میں بنگالی میں شائع ہوئی تھی۔ اسے گوپا معجدمدار نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ یہ” The Collected Short Stories by Satyajit Ray‘‘ میں شامل ہے۔ اسے پینگوئن رینڈم ہاؤس، انڈیا نے 2012ء میں شائع کیا۔

2017ء میں اس کہانی پر اسی نام سے ہندوستانی فلم ڈائریکٹر ’سوجوئے گھوش‘ نے 21 منٹ کی ایک مختصر فلم بنائی۔ ہم عصر زمانے میں بنی اس فلم کا ماحول بھی 21ویں صدی کی دوسری دہائی کا ہی دکھایا گیا ہے۔ اس فلم میں نیکنج بابو کو ہندی کا ایک استاد دکھایا گیا ہے جبکہ کہانی میں وہ ایک بزنس مین ہے۔ کہانی میں ’گیتا‘ کا ذکر ضمنی ہے جبکہ فلم کا ’premises‘ اس کے گرد کھڑا کیا گیا ہے۔ فلم میں نیکنج بابو کے چاچا کا کردار بھی پس منظر میں گیا ہوا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا کردار رتن جو نیکنج بابو کا کزن ہے، کھڑا کیا گیا ہے۔ فلم میں رو بوٹسvs انسانی محنت بھی فلم کا موضوع ہے جبکہ کہانی میں اس تضاد کا کوئی ذکر نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سوجوئے گھوش نے اپنے تئیں ستیہ جِت رے کو 21ویں صدی میں بھی زندہ رکھنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ فلم میں نیکنج بابو کا کردار سہرابھ شُکلا نے جبکہ انوکُل کا، پارم برات چٹوپادھے نے ادا کیا ہے۔ پارم برات چٹوپادھے نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز ’رے‘ کے بیٹے سندیپ کی فلم میں ’رے‘ کے ہی کردار ’ٹوپشی‘ سے کیا تھا۔]

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے