باگمتی جب ہنستی ہے ۔۔۔ شموئل احمد

باگمتی جب ہنستی ہے تو علاقے کے لوگ روتے ہیں۔

اس بار بھی باگمتی بارش میں کھلکھلا کر ہنس پڑی ہے اور لوگ رو پڑے ہیں۔  ہنستی ہوئی باگمتی مویشی اور جھونپڑیاں بہا لے گئی ہیں۔۔۔۔۔ دور تک جل تھل ہے۔۔۔۔۔۔

در اصل یہ علاقہ دو طرف سے باگمتی کی بانہوں سے گھرا ہے۔  ایک طرف لکھن دئی بھی اس کے پاؤں چھوتی ہوئی گذرتی ہے۔ شمال کی جانب پہاڑیوں سے بھی بارش میں اکثر پانی کا ریلا آتا ہے اور باگمتی کو چھیڑ دیتا ہے، تب باگمتی خوب اچھلتی ہے، بل کھاتی ہے، مچلتی ہے اور پورے علاقے کو اپنی بانہوں میں لپیٹ لیتی ہے اور دور تک جل مگن ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔

بابو کامتا پرشاد راحت کارج میں جی جان سے لگے ہیں۔  وہ ہمیشہ دیش سیوا میں رت رہتے ہیں۔  انہوں نے اپنے علاقے میں وکاس کا کارج خوب کرایا ہے۔ گلی گلی میں پکّی سڑکیں بن گئی ہیں۔  گاؤں گاؤں بجلی پہنچ گئی ہے، پانی کے نل لگ گئے ہیں۔  ان کی پہنچ راجدھانی تک ہے۔  وہ جو چاہتے ہیں ہو جاتا ہے۔  پچھلی بار جو بی ڈی او یہاں آیا تھا اس کو اپنی کرسی کا بھرم تھا، اکڑ کر چلتا تھا لیکن کامتا پرشاد جی کے آگے اس کی ایک نہ چلی۔  چھ مہینے میں ہی اس کا تبادلہ ہو گیا تھا۔  کہتے ہیں کسی افسر کو تعینات کرنے سے پہلے کامتا پرشاد جی سے پوچھ لیا جاتا ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی راحت کارج فضائی پرواز سے شروع ہو رہا ہے۔  راج دھانی سے لوگ پہنچ گئے ہیں۔  ڈاک بنگلہ میں گاڑیوں کی قطار لگ گئی ہے۔  مقامی افسران بھی جٹے ہوئے ہیں۔

کامتا پرشاد جی کے قریب حسب معمول بھیڑ اکٹھی ہونے لگی ہے۔  ان کے علاقے کے خاص خاص لوگ ان کو حلقہ میں لیے کھڑے ہیں کیوں کہ راجدھانی والے آئے ہوئے ہیں اور خاص لوگوں کا خاص مسئلہ ہے۔ سمنٹ کی پرمٹ، دکان کا لائسنس، کھاد اور تیل کی ڈیلر شپ، وردھا پنشن بینک سے لون۔۔۔۔۔ وہ سب مسئلے چٹکیوں میں حل کرتے ہیں۔  ان کا پی اے بھی ان کے قریب کھڑا ہے۔ کبھی کچھ نوٹ کرتا ہے، کبھی کہیں ٹیلی فون ملاتا ہے کبھی ڈرافٹ لکھتا ہے۔  پی اے گھاگ ہے۔ سمجھتا ہے کب کیا نوٹ کرنا ہے کیا نہیں؟کہاں چٹھی سے کام ہو گا؟ کہاں ٹیلی فون کی ضرورت پڑے گی!

کامتا پرشاد جی بہت خوش ہیں۔  بی ڈی او نے ڈاک بنگلہ میں انتظام بہت عمدہ کیا ہے۔  پرانا آدمی ہے۔ جانتا ہے کب کیا کرنا چاہیے۔  مانس ہاریوں کے لیے الگ پربندھ ہے اور شاکاہاریوں کے لیے الگ۔

’’سر ایک دم تازہ مچھلی کے کیٹ لٹ ہیں۔‘‘

’’سر ایک پیس اور۔۔۔۔۔‘‘

’’سر یہ چکن سوپ۔۔۔۔۔۔‘‘

’’سر تھوڑی سی سلاد اور۔۔۔۔۔‘‘

’’سر یہ دہی بڑا تو آپ نے چکھا ہی نہیں۔‘‘

’’سر یہ مربّہ یہاں کی خاص چیز ہے۔‘‘

’’سر۔۔۔۔۔‘‘

’’سر۔۔۔۔۔۔‘‘

راجدھانی والے انکساری سے کام لیتے ہیں۔  تھوڑی تھوڑی ہر چیز چکھتے ہیں۔  مچھلی کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ تب بی ڈی او عاجزی سے کہتا ہے کہ مچھلی باڑھ گرست پانی کی نہیں ہے۔  مکھیا جی کے نجی تالاب سے منگوائی گئی ہے۔ جہاں باڑھ کا پانی نہیں پہنچتا ہے۔

کامتا پرشاد جی مطمئن ہیں کہ بھبیہ سواگت ہوا ہے۔  راجدھانی سے بھاری مدد ملے گی کیوں کہ اب خیمہ بھی ایک ہی ہے۔  پچھلی بار ان کی راجدھانی والوں سے ٹھن گئی تھی۔  ان کو خیمہ بدلنا پڑا تھا لیکن اس بار پھر پرانے خیمہ میں آ کر انھوں نے سوجھ بوجھ سے کام لیا ہے۔

فضائی پرواز ہوتا ہے۔  ساتھ میں کامتا پرشاد جی بھی ہیں۔  وہ ایک ایک چپہ دکھا رہے ہیں۔  بہت قریب سے معائنہ ہو رہا ہے۔  راجدھانی والوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ جان و مال کا کافی نقصان ہوا ہے۔  علاقہ باڑھ گرست گھوشت کر دیا جاتا ہے۔

بی ڈی او نے فہرست بنا لی ہے کہ کتنے لوگ مرے، کتنے گھر گرے، کتنے مویشی مرے، کیا کیا ضرورت ہے۔  بی ڈی او تجربہ کار آدمی ہے، جانتا ہے فہرست کس طرح بنائی جاتی ہے۔  فہرست لمبی ہونی چاہیے۔

چوڑا_____ ایک ہزار کوئنٹل

گڑ_____ ایک سو کوئنٹل

ماچس_____ دس ہزار

موم بتی_____ دس ہزار

پو لی تھن_____ دس ہزار میٹر

راحت کا کام تیزی سے چل رہا ہے۔  کلکٹر سے لے کر سپر وائزر تک بے حد مصروف ہیں۔  بی ڈی او کبھی اِدھر جاتا ہے کبھی اُدھر۔ کہیں ناؤ سے، کہیں گاڑی سے، کہیں پیدل۔۔۔۔۔۔

لوگ قطار در قطار کھڑے ہیں۔  فہرست ملائی جا رہی ہے، دستخط لیے جا رہے ہیں۔

چوڑا_____ پانچ کلو

گڑ _____دوسو گرام

ماچس _____؟

موم بتی_____؟

بلاک آفس کے قریب ایک دکان پر ہنگامہ ہو رہا ہے۔

’’ہماری پنچایت میں چوڑا ابھی تک کیوں نہیں بٹا۔۔۔۔؟‘‘

’’وہاں پہنچنے کا کوئی سادھن نہیں ہے۔ بی ڈی او صاحب کہتے ہیں چوڑا اسی جگہ بٹے گا۔‘‘

چوڑا بانٹنے والا سپر وائزر اطمینان سے جواب دیتا ہے۔  پرانا آدمی ہے۔ جانتا ہے، ایسے موقع پر اس طرح کے ہنگامے ہوتے رہتے ہیں۔

’’ہماری پنچایت کا چوڑا اس دکان میں کیسے پہنچ گیا۔۔۔۔؟‘‘ ہریا چیخ کر پوچھتا ہے۔ ہریا۔۔۔۔ گاؤں کا کڑیل نوجوان۔۔۔۔۔۔۔

’’سپر وائزر چور ہے _____‘‘ بھیڑ سے آواز آتی ہے۔

’’مارو سالے کو۔۔۔۔۔‘‘

سپر وائزر چپکے سے کھسک جاتا ہے۔ ہریا برابر چیخ رہا ہے۔

’’اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ کوئی جنتا کی آنکھوں میں دھول جھونک دے گا۔‘‘

’’بی ڈی او صاحب سے کمپلین کرو۔‘‘

بی ڈی او، بھی ڈی او کو کہہ کر کیا ہو گا۔۔۔؟سب کی ملی بھگت ہے۔‘‘

’’میں مکھ منتری کو لکھوں گا۔۔۔۔۔۔‘‘

بات کامتا پرشاد تک پہنچتی ہے۔  کامتا پرشاد جی مسکراتے ہیں۔  ان کا ہرکارہ ہریا کو ڈاک بنگلہ بلا کر لاتا ہے۔  ہریا۔۔۔۔۔ گاؤں کا کڑیل نوجوان۔۔۔۔۔ آج تک اس کو کبھی مکھیا نے نہیں بلوایا تھا۔۔۔۔۔ اس کو کامتا جی بلواتے ہیں۔۔۔۔۔ ہریا کے لیے بڑی بات ہے۔

’’ہری بابو۔۔۔۔۔۔۔ آپ جیسے سجگ نوجوان کی دیش کو ضرورت ہے۔‘‘

’’ہری بابو۔۔۔۔۔۔‘‘

ہریا کے کانوں میں ہری بابو کا لفظ عجیب کیفیت پیدا کر رہا ہے جیسے کامتا پرشاد جی دیسی مشین پر ولایتی پرزے لگا رہے ہوں۔

’’ہری بابو ! تھوڑی بہت چوری تو یہ لوگ کرتے ہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘کامتا پرشاد جی مسکرا کر کہتے ہیں۔

ہریا چپ ہے اب کیا کہے؟وہ ہریا سے ہری بابو بن گیا ہے۔

’’ویسے بی ڈی او آدمی اچھا ہے۔  آپ کی بھی مدد کرے گا۔‘‘

ہریا حیران ہے۔ بھلا بی ڈی او اس کی کیا مدد کرے گا اور اس کو بی ڈی او کی مدد کی ضرورت کیا ہے؟

پھر کامتا پرشاد جی ہریا کو سمجھاتے ہیں کہ غریبی ہٹانے کے لیے سرکار کی کیا کیا یوجنائیں ہیں۔ مثلاً این آرپی، اے آرپی، مرغی پالن، گرامین بینک سے لون، بیس سوتری کارج کرم۔۔۔۔۔۔۔

ہریا ان کی باتیں خاموشی سے سن رہا ہے۔

’’ہری بابو !آپ ڈبّا پل پر ناؤ چلانے کا ٹھیکہ کیوں نہیں لے لیتے ہیں؟‘‘

ناؤ کا ٹھیکہ؟ ہریا کا سر چکرانے لگتا ہے۔

’’جب تک ڈبّا پل کا نرمان نہیں ہو جاتا، بی ڈبلو ڈی والوں کو ناؤ کی بیوستھا رکھنی ہے۔  پینتالیس روپیہ روز بھگتان کرتے ہیں۔‘‘

ہریا کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔

’’آپ ایک ناؤ بنوالیجئے۔  دو ہزار میں بن جائے گی۔  میں پی ڈبلو ڈی کے انجینئر سے کہہ دوں گا آپ کو ٹھیکہ مل جائے گا۔‘‘

ہریا کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ دو ہزار روپے کا انتظام۔۔۔۔۔۔۔

کامتا پرشاد جی اس کی یہ مشکل بھی آسان کر دیتے ہیں۔

’’آپ کو گرامین بینک سے دوہزار روپے لون مل جائیں گے۔  غریبی ریکھا سے اوپر اٹھانے کی یہ بڑی اچھی یوجنا سرکار نے بنائی ہے۔‘‘

’’ لیکن ایک بات ہے۔‘‘کامتا جی مسکرا کر کہتے ہیں۔

ہریا ان کو چونک کر دیکھتا ہے۔

’’بی ڈی او، بیس پرسنٹ کمیشن لے گا اور بینک والے دس پرسنٹ۔  چھ سو روپے میں آپ کا کام ہو گا۔‘‘

’’ایک بات اور۔۔۔۔ پی ڈبلو ڈی کا اورسیر پندرہ روپے کاٹ کر تیس روپے بھگتان کرے گا اور پینتالیس روپے پر دستخط لے گا۔۔۔۔۔۔‘‘ کامتا پرشاد جی مسکراتے ہیں۔

’’اب اورسیر بھی کیا کرے۔۔۔؟ اس کے اوپر اسسٹنٹ انجینئر ہے۔‘‘

’’اور اسسٹنٹ انجینئر بھی کیا کرے؟ اس کے اوپر ایکزکیوٹیو انجینئر ہے۔۔۔۔۔۔‘‘

’’اور ایکزکیوٹیو انجینئربھی کیا کرے؟ اس کے اوپر۔۔۔۔۔۔۔

ہریا کی سمجھ میں اب بات آہستہ آہستہ آنے لگی ہے کہ ڈوبّا گھاٹ پر اس کے گاؤں کو شہر سے جوڑنے والا لکڑی کا کچّا پل ابھی تک لکڑی کا ہی کیوں ہے؟

کامتا پرشاد جی بدستور مسکراتے ہوئے کہتے ہیں:

اب دیکھیے نا۔۔۔۔۔ تھوڑی بہت چوری تو یہ لوگ کرتے ہی ہیں۔  اب ضلع سے کلکٹر صاحب اناج کی جو بوریاں بھیجتے ہیں تو ہر بوری میں دس کلو اناج کم رہتا ہے۔  اب بی ڈی او بیچارہ کیا کرے؟ وہ بھی سپروائزر کو پانچ کلو کے تھیلے میں ایک کلو اناج کم دیتا ہے۔ ایماندار آدمی سب کو ملا جلا کر چلتا ہے۔

’’سب سے اوپر ٹوپی ہے۔‘‘ ہریا مسکرا کر اس کی کھدّر کی ٹوپی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

’’بس۔۔۔۔ بس۔۔۔۔ یہی بات ہے۔۔۔۔‘‘ کامتا پرشاد جی ہنسنے لگتے ہیں۔

’’اب دیکھیے نا اگر جنتا مجھے ووٹ نہیں دیتی تو میں باڑھ کے لیے کچھ نہیں کر پاتا۔  اگر دوسرے خیمے کا ٹوپی دھاری یہاں ہوتا تو بھلا منتری مہودے یہاں کیوں آتے؟ یہاں تک کہ اس چھیتر کو باڑھ گرست بھی گھوشت نہیں کیا جاتا اور منتری مہودے نہیں آتے تو راحت کارج کے لیے اتنا فنڈ کہاں سے ملتا۔۔۔۔۔؟‘‘

’’اور فنڈ بھی یونہی تھوڑے ہی ملتا ہے۔  سب کو خوش کرنا پڑتا ہے۔‘‘

’’بالکل۔۔۔۔۔ بالکل۔۔۔۔۔ ! اب دیکھیے نا۔ ٹوپی بچانے کے لیے الیکشن میں کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا۔  اگر یہ لوگ مدد نہیں کریں تو کہاں سے ہو؟ الیکشن کا خرچ کتنا بڑھ گیا ہے اور یہ لوگ بھی تو جیب سے نہیں دیتے۔  ہم لوگ وکاس کے کارج کے لیے اتنا فنڈ جو دلاتے رہتے ہیں۔ سب کو خوش رکھنا ہی پڑتا ہے۔  بیوستھا ہی ایسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

کامتا پرشاد جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالتے ہیں۔  ایک سگریٹ ہریا کی طرف بڑھاتے ہیں۔

’’اب سپروائزر نے دو من چوڑا بیچ ہی دیا تو کیا ہوا۔۔۔؟آخر ہنسی خوشی راحت کا کارج چل رہا ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔ اور پھر سپر وائزر سب کو خوش رکھنے والا آدمی ہے۔  آپ اس سے مل لیں وہ آپ کو خوش کر دے گا۔۔۔۔۔۔۔‘‘

ہری بابو سگریٹ کا لمبا کش لگاتے ہوئے باہر نکلتے ہیں۔ دکان پر ابھی بھی بھیڑ جمع ہے۔

ہری بابو کے قدم سپروائزر کے کوارٹر کی طرف بڑھ گئے ہیں۔  تھوڑی دیر بعد ہری بابو نکلتے ہیں۔  آنکھوں میں نشہ ہے، چال میں مستی اور چہرے پر اعتماد۔

ایک لمحہ کے لیے وہ دکان کے قریب رکتے ہیں۔  دکان کے قریب گاؤں کے سیلاب زدہ لوگوں کی بھیڑ اُن کو بہت ناگوار معلوم ہوتی ہے۔  وہ سگریٹ کا ایک لمبا کش لگاتے ہوئے کہتے ہیں:

میری سپروائزر سے بات ہوئی ہے۔ اپنی پنچایت کا چوڑا کل بٹے گا۔‘‘

ہری بابو کو لگتا ہے۔ ان کا یہ اعلان کسی شاہی فرمان سے کم نہیں ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے