ابن کنول کا پس حقیقت کو کسب کرنے کا فن ۔۔۔ پروفیسر عتیق اللہ

ادب، زندگی اور زندگی کی سریت کو گرفت میں لانے کی ایسی کوششوں سے عبارت ہے جسے ہربار ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ سعی لاحاصل ہی مزید جستجوؤں کو مہمیز کرنے اور تعاقب کی مہم کو سرگرم رکھتی ہے۔ میں نے زندگی کی سریت سے قبل زندگی کا حوالہ دیا ہے اور وہ بھی محض اس خیال کو ملحوظ رکھ کر کہ کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ جسے عام معنوں میں زندگی کا نام دیا جاتا ہے اس کے گوناگوں ٹھوس متعلقات سے میں انکاری ہوں۔ زندگی کا حوالہ اس سریت کے ساتھ مشروط ہے جس کے تجربے سے ہم بہر قدم اور بہر لحظہ دوچار ہوتے رہتے ہیں۔

حقیقت سے زیادہ پس حقیقت کو کسب کرنے اور اسے علم کا حصہ بنانے کا میلان صرف ادب ہی کے ساتھ خصوصیت نہیں رکھتا، فلسفہ، نفسیات، اور مذہب نے بھی اپنے اپنے طور پر یہ کام کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ادب کی لچک پذیری ان تمام صیغوں اور علوم سے استفادہ کرنے کی نسبتاً زیادہ اہل ہے۔ مختلف علوم کے لئے ادب ممکن ہے کوئی خاص معنی نہ رکھتا ہو، اور ادب کی موجودگی اور عدم موجودگی سے ان علوم کی صحت پر شاید ہی کوئی مثبت یا منفی اثر پڑے۔ برخلاف اس کے ادب کے لئے ہر وہ علم مفید مطلب ہے، جس کا مسئلہ انسان ہے، ادب نے ہمیشہ ان علوم کی یافت سے روشنی اخذ کی ہے اور اپنے کو ثروت مند بنایا ہے۔ مذہب کا سارا مابعد الطبیعیاتی نظام پس حقیقت کی سریت کے ساتھ مشروط ہے۔ اور ادب کا بھی اپنا ایک مابعد الطبیعیاتی نظام ہے جس کے محرکات کے دائرے میں مکان ہی نہیں لامکان کی خاص قدر ہے۔ یہی وہ قدر ہے جو ابن کنول کے افسانوں کو ایک دوسرے معنی کے ساتھ مربوط کر دیتی ہے۔

ابن کنول کے افسانوں کو اسی معنی میں writerly یعنی مصنفانہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فکر سے زیادہ ہمارے وجدان کو حرکت میں رکھتے ہیں۔ بہ ظاہر یہ جتنے لب کشا ہیں بہ باطن ہی اتنے گمبھیر اور خود کوش۔ تخلیقی شرکت کے وسیلے ہی سے قاری کسی حدت ان کے بطون میں اتر سکتا ہے۔ کسی حد تک اس لئے کہ مصنفانہ تخلیق ہمیشہ open ended ہوتی ہے۔ اس کی گرہیں جتنی اندر کھلتی ہیں اتنی ہی الجھتی بھی جاتی ہیں۔ ابن کنول کے افسانوں کی ما بعد الطبیعیاتی دنیا کا رخ اندر کی طرف ہے۔ اس وجہ سے دھند آمیز ہے۔

“ہوا یوں تھا کہ ایک روز جب آفتاب کی روشنی عالم آب و گل کو منور کر چکی تھی، بازار اور دکانیں معمول کے مطابق پر رونق ہونے لگی تھیں کہ فضا میں ایک عقاب تیز رفتار پرواز کرتا ہوا نظر آیا۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس کے پنجوں میں ایک مار سیاہ لٹکا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک وہ عقاب بازار کے اوپر منڈلاتا رہا۔ پھریوں ہوا کہ وہ سانپ بازار میں خرید و فروخت کرتے ہوئے ایک شخص کی گردن پر جا پڑا۔ اس سے پہلے کہ وہ آدمی کسی کو مدد کے لئے پکارتا سانپ نے اپنے زہریلے ڈنک سے اس کی پیشانی کو داغ دیا۔ ابھی کوئی دوسرا شخص اس کے قریب بھی نہ پہنچا تھا کہ عقاب زمین کی طرف جھپٹا اور سانپ کو اپنے پنجوں میں دبا کر غائب ہو گیا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ کوئی شخص بھی کوئی رائے قائم نہ کر سکا اور اس کو محض ایک اتفاق سمجھا گیا۔ ”

(ہمارا تمہارا خدا بادشاہ)

“پھر یوں ہوا کہ جب دوسرے دن مقراض آفتاب نے دامن شب تار تار کیا تو چاروں سمت چار گھوڑسوار نظر آئے، وہ چاروں ہی بادشاہ کے معتمد خاص تھے۔ جنہیں چھ ماہ قبل بادشاہ نے ایک امتحان کے لئے رخصت دی تھی۔ خواص و عوام نے ان کا خیر مقدم کیا۔ وہ چاروں اس خیرمقدم سے خوش ہوئے کہ ان کے اندر شاہانہ تمکنت بیدار ہونے لگی تھی۔ شہر میں داخل ہونے کے بعد چاروں وزیر قلعۂ شاہی میں پہنچے اور بازیابی کی اجازت چاہی۔ بادشاہ نے کہ ان کا منتظر تھا انہیں دیوان خاص میں حاضر ہونے کی اجازت عطا کی۔ چاروں نے بادشاہ کے قریب پہنچ کر کورنش ادا کی اور بادشاہ کا اشارہ پا کر اس کے روبرو مسند پر بیٹھ گئے۔ چند لمحوں کے بعد بادشاہ نے ابو عقیل سے دریافت کیا۔

’اے ابو عقیل! تم بیان کرو کہ اس چھ ماہ کے عرصے میں تم پر کیا گذری؟‘‘ (وارث)

’’بعد کئی صدیوں کے زید بن حارث کی آنکھوں میں آفتاب کی کرنیں چبھنے لگیں۔ اس نے آہستہ آہستہ پلکوں کو حرکت دی اور اپنے گرد دیکھا۔ روشنی دھیرے دھیرے غار کے اندر داخل ہو چکی تھی۔ اس نے اپنے خوابیدہ ساتھیوں پر نظر ڈالی اور محسوس کیا کہ ان کی پلکوں کے نیچے تپش پھیلنے لگی ہے۔ اور عنقریب یہ وا ہو جانا چاہتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ اس کا کوئی ساتھی اپنی پلکوں کو وا کرتا اور آفتاب کی روشنی آنکھوں میں اتار لیتا۔ اس نے آوازی۔

’’ساتھیو! کیا تم اپنی آنکھوں میں روشنی کی چبھن محسوس نہیں کرتے؟‘‘ اور اس آواز کے ساتھ سب کی آنکھوں میں آفتاب اتر گیا۔ ان سب نے اپنے جسموں کو حرکت دی اور نیم دراز ہوئے۔ ابو سعد کف دست سے اپنی آنکھوں کو ملتا ہوا یوں گویا ہوا:

’اے حارث کے بیٹے، کیا ہم سوئے ہوئے تھے‘

’ہاں شاید ہم سب ہی سو گئے تھے۔‘ زید بن حارث نے جواب دیا اور استفسار کیا۔

’اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ ہم نے کتنا عرصہ غفلت میں گذارا‘

’صرف ایک شب‘

(صرف ایک شب کا فاصلہ)

میں نے یہاں حوالۂ بالا تین افسانوں کے اقتباسات ہی پر اکتفا کیا ہے۔ میرا مقصود یہ بتانا ہے کہ ابن کنول کے افسانوں کی جو مثالی دنیا ہے اور اتنی تحیر خیز کیوں ہے۔ ابن کنول نے جن کرداروں کے نام دیے ہیں۔ جو صورت حالات خلق کی ہے اور جن توقع شکن وقوعوں سے اپنے بیانیہ کو ایک خاص تنظیم دی ہے، ان کا کیا کوئی محل، کوئی معنویت، کوئی منطق ہے؟ ظاہر ہے یہ افسانے کی دنیا سے جو واقعی سے زیادہ تخیلی، استعاراتی، یا تمثیلی دنیا ہے اور یہ دنیا کسی خارجی سند یا جواز کی محتاج نہیں ہوتی۔ ان افسانوں اور ان کے علاوہ بند راستے کے تقریباً تمام افسانوں میں بڑی فن کارانہ مہارت کے ساتھ کام میں لیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ افسانے سیاسی طنز کی مثال بھی ہیں۔ جیسے موجودہ پورا نظام انسانیت اخلاقی زوال کا شکار ہے۔ ’ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘ کے بادشاہ کی فکر مندی، وارث کے بادشاہ وقت کا ابو شاطر کو ولی عہد بنانے اور‘ صرف ایک شب کا فاصلہ’ میں خاتون بادشاہ وقت کی اجتماعی نس بندی کے اطلاق کے پیچھے ہمارے وقتوں کی سنگدلانہ سیاست کا آسانی کے ساتھ نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ابن کنول کی خلق کردہ ان نامانوس دنیاؤں کی دو یا دو سے زیادہ معنوی سطحیں ہیں، ان کا تعلق کس حد تک ہمارے وقتوں کے افسانوں کی دو چہرگی سے ہے یا جس حاکم وقت خاتون اور اس کے بیٹے کا تذکرہ ہے ان کے اصل نام کیا ہیں۔ ابن کنول نے تخصیص کو تعمیم کے رنگ میں پیش کر کے اپنی کہانیوں کو ہر طرف سے کھلا رکھا ہے۔ اپنے قاری کو یہ چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ اپنے طور پر اور اپنی بساط کے مطابق انہیں معنی دے سکتا ہے۔ یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب متن TEXT کے اندر کوئی دوسرا متن کار فرما ہو۔ جسے SUB-TEXT کا نام دیا جاتا ہے۔ تحت المتن مصنف کے شعور یا لا شعور کا خلق کردہ ہوتا ہے جسے دریافت کر سکتا ہے قاری۔ گویا ابن کنول اپنے قاری کو اپنی تخلیقیت کے جوہر کو آزمانے کہ مہلت فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے طور پر ان امکانات کو تلاش کر سکتا ہے جو بہ ظاہر نگاہوں سے اوجھل اور UNSTATED ہیں، میرے نزدیک ابن کنول کی کہانیوں کا مطالعہ اسی نہج پر کرنے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے