ایک ہی راستہ ۔۔۔ ابن کنول

وہ اندر ہی اندر آتش فشاں کی طرح پک رہا تھا اور اُس کے اندر ایک اضطرابی کیفیت موجزن تھی۔ اُس نے اپنے ذہنی اور قلبی سکون کے لیے تمام طریقے اختیار کر لیے تھے لیکن ہر بار ناکام رہا۔ وہ بالکل مایوس ہو چکا تھا اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس عالمِ آب و گل میں چہار جانب اس قدر انتشار پھیلا ہوا ہے کہ صاحبِ چشم نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ہر روز اس کے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوتا تھا کہ آج قیامت کا دن ہو گا اور یہ دنیا نیست و نابود ہو جائے گی کہ اس نے بزرگوں سے قیامت کی نشانیاں سُنی تھیں اور وہ ان تمام علامتوں کو روزانہ دیکھ کر سُن رہا تھا قیامت کے انتظار میں پورا دن گذارنے کے بعد اسے یہ بات بھی مضطرب کرتی تھی کہ موجودہ برائیوں کے علاوہ اب وہ کونسی برائیاں ہوں گی جن کو قیامت کا سبب بتایا جائے گا۔ وہ سوچتا تھا کہ میں کیوں اپنے اطراف کی دنیا کو دیکھ کر پریشان ہوں میں پیغمبر نہیں ہوں کہ اہل دنیا کی نجات کے لیے فکر مند ہوں۔ میں گوتم نہیں ہوں کہ راج پاٹ چھوڑ کر درخت کے نیچے جا بیٹھوں۔ میں عیسیٰ نہیں ہوں کہ دُکھی افراد کے لیے مسیحا بنوں۔ میں بھی ان کروڑوں انسانوں میں سے ایک ہوں جو زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی انہیں مہلت نہیں ہے۔ سب کے چہروں پر بظاہر اطمینان ہے، پھر میں کیوں بے چین ہوں جبکہ میں بھی ان کا ایک حصّہ ہوں۔ وہ ہر لمحہ یہی سوچتا رہتا تھا سوچنا اس کی عادت بن گئی تھی، سچ یہ ہے کہ جو سوچتے ہیں ان کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے۔ وہ بھی اپنے آپ کو تارِ عنکبوت میں اُلجھا ہوا محسوس کر رہا تھا اور جنات کا کوئی راستہ اسے دکھائی نہ دیتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی یہ الجھن غصّہ میں تبدیل ہو گئی تھی۔ وہ اپنے غصّہ کی تپش سے ہر اس برائی کو جلا کر خاک کر دینا چاہتا تھا جو ناقابل برداشت تھی۔ لیکن اس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ بے بس تھا اور لاچاری اس کے اندر آتش فشانی لاوا اکٹھا کر رہی تھی۔

پھر ایک دن وہ گوتم نہ ہوتے ہوئے بھی گوتم کی طرح نکل کھڑا ہوا، گیان کی تلاش میں نہیں بلکہ ایسا غیبی قوت حاصل کرنے کے لیے، جس سے وہ اپنے غصّہ کا اظہار کر سکے۔ اس کا مقصد زندگی سے فرار نہیں تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ کہیں تنہائی میں خدا کو اُکتا دینے والی ریاضت کرے گا تاکہ مجبور ہو کر خدا اس سے معلوم کرے کہ تو کیا چاہتا ہے پھر وہ خدا سے مانگے گا ایک ایسی غیبی قوت جو اس کے غصّہ کا اظہار کر سکے۔ اپنے دل و دماغ میں خدا سے ملاقات کا منصوبہ لے کر وہ موسیٰ کی طرح طور کی تلاش میں چل دیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی خواہش مضحکہ خیز ہے اور اس کی کوشش دیوانگی۔ لیکن کبھی کبھی آدمی دانستہ طور پر بھی جنونی حرکات کرتا ہے۔ غرض کہ وہ بہت عرصہ تک اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ ایک درخت کے سائے میں ناکام و نامراد بیٹھا ہوا تھا کہ ایک سفید ریش بزرگ رونما ہوئے اور فرمایا:

’’اے فانی انسان تو اس چند روزہ زندگی کو کیوں اپنے لیے وبال بنا رہا ہے۔‘‘

اس نے حیرانی سے بزرگ کو دیکھا اور دو زانوں ہو کر کہا۔

’’اے خدا آگاہ میں اس دنیائے فانی میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہ ناقابل برداشت ہے۔ میرے اندر غصے کی ایک آگے پھیلی ہوئی ہے۔ غصہ آنا فطری بات ہے لیکن اس دور کے انسان کو برائی دیکھ کر بھی غصّہ نہیں آتا۔‘‘

’’ہر چیز کی زیادتی احساس کو مار دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان برائی کو پہچانتے ہوئے بھی محسوس نہیں کرتا۔ تم کیوں پریشان ہوتے ہو، تم بھی بے حس ہو جاؤ تمہاری پریشانی دُور ہو جائے گی۔‘‘ یہ مشورہ دیتے وقت بزرگ کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ اُس نے نفی میں سر ہلایا اور کہا۔

’’نہیں —میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں بُرائی ختم کرنا چاہتا ہوں۔ اے پیر و مرشد مجھے ایک ایسی غیبی قوت چاہیے جس سے میں برائی کو ختم کر دوں کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟‘‘

’’تم کس کس برائی کو ختم کرو گے لیکن اگر تم چاہتے ہو تو داہنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دو۔‘‘

بزرگ کے کہنے پر اس نے اپنا داہنا ہا تھا ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ انہوں نے پوری قوت سے اس کی ہتھیلی کو اپنی ہتھیلیوں میں دبایا اور فرمایا:

’’جا اب تیری اس ہتھیلی میں فنا کرنے کی قوت آ گئی ہے تو جس کی طرف بھی ہتھیلی کا رُخ کرے گا وہ جل کر خاک ہو جائے گا۔ لیکن یاد رکھ کہ اس کا استعمال تو صرف ایک بار کر سکے گا۔ جا تجھے دنیا میں جو لوگ سب سے زیادہ بُرے لگیں انہیں جلا کر راکھ کر دے۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ بزرگ اس کی آنکھوں سے روپوش ہو گئے۔ اس نے اپنے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھا۔ خوف اور خوشی کے عالم میں فوراً ہی اس نے ہتھیلی کو چھپا لیا۔ اب وہ خوش تھا کہ اس نے اپنی مُراد پالی تھی۔

جب وہ شہر میں واپس لوٹا تھا تو اس نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی جیب میں چھپا لیا تھا اسے ڈر تھا اگر کسی کو اس کی غیبی طاقت کا علم ہو گیا تو اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس نے اسی لیے اس بات کو کسی کے روبرو ظاہر نہیں کیا تھا کہ بعض باتوں کا اظہار موت کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ اسے یہ بھی خوف تھا کہ کہیں کسی ناقابل برداشت شے کو دیکھ کر اس کا ہاتھ اس طرف نہ اٹھ جائے اسی لیے اس نے ایک دستانہ پہن لیا تھا۔

اب اسے تلاش تھی اس بدترین منظر کی، جو انسانیت کے لیے بد نما داغ ہو، تاکہ وہ اپنے غصّہ کا اظہار کر سکے۔ اُس نے فیصلہ کیا تھا کہ سب سے پہلے کریہہ منظر کے لیے وہ غیبی قوت کو استعمال کرے گا۔ یوں تو ہر جگہ دل کو تکلیف دینے والے منظر دکھائی دے رہے تھے لیکن ان میں سے بیشتر کو دیکھتے دیکھتے وہ بھی نظر انداز کرنے لگا تھا۔ پھر ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک شہر میں مذہب کے نام پر فساد ہو گیا ہے۔ ہر طرف چیخ و پکار مچی ہوئی ہے، ا یک فرقہ دوسرے فرقہ کے افراد کو بے دردی سے قتل کر رہا ہے ایک دوسرے کے گھروں کو آگ لگا رہیں۔ اس بھیانک منظر میں جو بات اُسے غصّہ دلا رہی تھی وہ یہ تھی کہ کچھ دیوانے لوگ جوان لڑکیوں کو گھروں سے نکال کر سڑکوں پر لے آئے تھے اور ان کے کپڑوں کو تار تار کر کے ان کی عزّتیں برباد کر رہے تھے۔ درندگی کے اس عالم کو دیکھ کر وہ تیش میں آ گیا تھا اور چاہتا تھا کہ غیبی طاقت کا استعمال کرے لیکن یہ سوچ کر رُک گیا کہ ابھی اس سے زیادہ گھناؤنے منظر رونما ہوں گے، اس نے اپنے غصّہ کو ضبط کیا اور آنکھیں بند کر کے آگے چل دیا۔

آگے پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک مقام پر مرد عورت اور معصوم بچوں کی بہت سی لاشیں پڑی ہیں پاس ہی ایک خالی بس کھڑی ہوئی ہے اُس نے قریب جا کر معلوم کیا کہ یہ سب کیسے ہوا؟ ایک شخص نے ڈرتے ہوئے اُسے بتایا کہ کچھ وحشی لوگوں نے بس روک کر بغیر کسی سبب کے ان بے گناہوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ یہ سن کر اس کے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کھلنے کے لیے بے چین ہو گئی، اس نے پھر ایک بار ضبط کیا اور آگے بڑھ گیا یہ دیکھنے کے لیے کہ ابھی اور کیا کیا دیکھنا ہے اور پھر اس نے دیکھا کہ اچانک کئی عمارتوں میں بموں کے دھماکے ہوئے اور ان دھماکوں کے ساتھ عمارتیں اور ان کے اندر موجود افراد پرزے ہو کر بکھر گئے، اس نے دریافت کیا، ان کا قصور کیا تھا؟ معلوم ہوا —کچھ نہیں —غصّہ کی حالت میں اس کا ہاتھ جیب سے باہر آ گیا۔ لیکن اس نے پھر ضبط کیا۔

اس کی بے چینی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی، اب اس کی پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے پاس غیبی طاقت کے استعمال کا صرف ایک موقع تھا اور ہر منظر اسے بدترین دکھائی دے رہا تھا، اسی پریشانی کے عالم میں اس نے پھر دیکھا کہ کچھ سپاہی ایک آدمی کو گرفتار کر کے لے جا رہے ہیں معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ آدمی مسلسل اپنی بیٹی کی عصمت لوٹتا رہا تھا، دوسری جانب اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک دو سالہ معصوم بچی کی لاش کو ہاتھوں پر اٹھا کر لے جا رہے ہیں جب اس نے موت کا سبب معلوم کیا تو ایک شخص نے بتایا کہ ایک ظالم نے اس معصوم کو اپنی ہوس کا شکار بنایا، جس کے صدمے سے اس کی موت ہو گئی۔ اس نے اپنے غصّہ کو دبانے کے لیے اپنی انگلیوں کو بھینچ لیا اور تیزی سے آگے بڑھا، ایک مکان کے قریب اسے نسوانی چیخیں سنائی دیں، اس نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا ایک نوجوان عورت کو کچھ لوگ جلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ تیرے کم جہیز لانے کی سزا ہے تیرے جلنے سے لوگ عبرت حاصل کریں گے اور اپنی بیٹیوں کو کم جہیز دے کر رخصت نہیں کریں گے۔‘‘

اس کا چہرہ غصّہ سے تمتمانے لگا وہ تیزی سے جنگل کی طرف بھاگا کہ انسانوں کے اس شہر میں حیوانی معاشرہ پل رہا تھا۔ وہ بہت دیر تک سوچتا رہا کہ سب سے بدتر اور گھناؤنا منظر کون سا تھا لیکن اُسے سب ہی منظر گھناؤنے اور قابلِ نفرت لگے۔ وہ سب کو جلا کر راکھ کر دینا چاہتا تھا لیکن یہ نا ممکن تھا۔ بالآخر اُسے ایک ہی راستہ سُجھائی دیا بہت غور و فکر کے بعد اُس اپنے داہنا ہاتھ جیب سے باہر نکالا، ہاتھ چڑھے ہوئے دستانے کو اُتار اور اپنے غصہ کا اظہار کرنے کے لیے اپنی ہتھیلی کا رُخ اپنی ہی جانب کر دیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے