اے دلِ آوارہ: شموئل احمد کی عمرِ گذشتہ کی کتاب ۔۔۔ صفدر امام قادری

اردو رسائل کے صفحات پر جب یہ شور برپا ہوا کہ شموئل احمد کی خود نوشت شائع ہو رہی ہے تو دوسرے قارئین کی طرح مجھے بھی اس بات کا انتظار تھا کہ ایک ناول نگار اور افسانہ نگار اپنی زندگی کی کتاب کو کس طرح اُدھیڑ تا اور بُنتا ہے۔ کتاب کا نام ’اے دلِ آوارہ‘ سے اور بھی اشتیاق بڑھا کہ اپنے افسانوں کے کرداروں کو جہاں انھوں نے چھوڑ دیا تھا، شاید وہاں سے آگے کا سفر اس کتاب کا حصّہ بنے گا۔ دیدہ زیب طباعت کے ساتھ جب یہ کتاب منظرِ عام پر آئی تو سرورق پر قوسین میں ’ناول‘ لفظ چھپا دیکھ کر ذرا حیرت ہوئی کیوں کہ وہیں یہ بھی لکھا ہوا موجود ہے کہ یہ ’عمرِ گذشتہ کی کتاب‘ ہے۔ یہ ’شتر گُربہ‘ ناشر اور مصنّف دونوں کی غالباً سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ حقائق کی بنیادوں سے اگر آپ باز پُرس کرتے ہیں تو مصنّف نے پہلے سے ہی بچاؤ میں ناول کی تختی لگا رکھی ہے۔ اسی طرح اگر آپ فکشن کے اصولوں کو بنیاد بنا کر جانچ پرکھ کرنا چاہیں تو مصنف کے لیے زرہ کے طور پر پہلے ہی سے خود نوشت کا اعلان موجود ہے۔ سختی سے اس کیفیت کا جائزہ لیں تو کہنا چاہیے کہ کتاب پیش کرتے ہوئے مصنف کے پاس شاید وہ اعتماد نہیں جس کی طاقت پر وہ ڈنکے کی چوٹ کے ساتھ اپنی کتاب کے نفسِ مضمون یا صنف کا اعلان کرتا ہے۔

شموئل احمد اپنے ہم عصروں میں خود سے بعض بہتر لکھنے والوں سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔ تھوڑے سے افسانے، ایک ناول، ایک ناولٹ، چند مضامین اور مُٹّھی بھر تراجم۔ غور کریں تو ان کی ادبی زندگی کے طول کے مقابل مختصر پونجی یہ بتاتی ہے کہ انھوں نے بہت کم لکھا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی ادبی زندگی میں طویل وقفے آئے جن کی وجہ سے انھیں دوبارہ اپنی شناخت کے لیے نئے سرے سے میدان میں اُترنا پڑا۔ ان کی تصنیف و تالیف کی عمر چار دہائیوں سے اوپر ہے لیکن ابتدائی بیس برسوں میں انھیں کبھی قابلِ اعتنا نہ سمجھا گیا۔ ان کے افسانوی مجموعے ’بگولے‘ کو شاید ہی کسی قاری نے اس سنجیدگی سے قبول کیا ہو جس سے یہ بات سمجھ میں آ سکے کہ اس کتاب کا مصنف آنے والے وقت میں اعتبار حاصل کرے گا۔ یوں بھی ابتدائی زمانے میں وہ گنڈے دار افسانہ نگار تھے۔ کہیں کوئی چیز چھپ گئی اور پھر برسوں کسی نئی تحریر کا پتا نہیں جب کہ ان کے دیگر ہم عصروں میں یہ کیفیت نہیں تھی۔ شوکت حیات، سلام بن رزاق، ساجد رشید، حسین الحق، عبد الصمد، شفق وغیرہ کے یہاں تواتر کے ساتھ لکھنے کا ایک انداز قائم رہا ہے۔

۱۹۹۰ء کی دہائی میں شموئل احمد اچانک اہم لکھنے والے کے طور پر ابھرنے لگے۔ خاص طور سے زبیر رضوی ’ذہن جدید‘ سے اور راجندر یادو ’ہنس‘ کی معرفت کچھ اس اہتمام سے شموئل احمد کی ادبی پشت پناہی کرنے لگے جیسے آنے والا وقت اب اسی فنکار کا ہو گا۔ گذشتہ بیس برسوں کا احتساب کیجیے تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی کہ شموئل احمد نے اپنے تمام ہم عصروں کو تواتر کے ساتھ اشاعت اور شہرت کے معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا۔ صارفیت اور تعلقات عامّہ کی کمزور نس پر شموئل احمد نے کچھ ایسی پختگی سے اپنی انگلی رکھی کہ ادبی کامیابیوں کی تمام شاداب فصلیں انھی کے گھر آنگن میں گریں۔ اس دوران انھوں نے اپنے دوسرے ہم عصروں سے کم نہیں لکھا اور جہاں جیسی ضرورت ہوئی، اس انداز کی دیگر قماش کی تحریریں بھی پیش کیں۔ افسانے اور ناول کے علاوہ انھوں نے اردو ہندی دونوں زبانوں میں چند مضامین، خاکے اور متفرقات پیش کر کے اپنے فکشن نگار کو بیرونی طاقت سے استحکام عطا کیا۔ اس کے نتیجے میں ان کی ادبی زندگی میں جو وقفے آئے تھے، ان سب کی بھر پائی بہ احسن ہو گئی اور وہ ہم عصر اردو فکشن کی ایک ایسی شخصیت بن جانے میں کامیاب ہو گئے جس کی خدمات پر گفتگو کیے بغیر ہم عصر ادب کی تاریخ ادھوری رہتی ہے۔

’ذہن جدید‘ میں شموئل احمد کی پہلی تحریر شائع کرتے ہوئے معتبر شاعر اور اس وقت کے مبتدی مدیر زبیر رضوی نے شموئل احمد کا تعارف کچھ اس طور پر کرایا تھا کہ یہ ہمیں بہار کی ادبی سیاست سے باخبر رکھتے ہیں۔ اس وقت تک شموئل احمد مشہور لکھنے والوں میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ کسی اہل قلم کا اس انداز کا تعارف اس کی توصیف ہے یا تضحیک، یہ قابلِ غور ہے۔ اس دوران شموئل احمد کے بعض انٹرویو اور چند ایسے مضامین بھی شائع ہوئے جن سے زبیر رضوی کے اس تعارف کی توثیق ہوتی رہی۔ اپنے ادبی معاملات میں چاق و چوبند اور دوسروں سے ہزار شکایتیں۔ اس انداز کی ان کی ہر تحریر سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کے ادبی مقام سے لوگوں نے سازشاً بے اعتنائی برتی ہے۔ قطر کے انعام کے بعد بھی ان کے بیانات سے ہمیں یہی اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ ان کے عہد نے انصاف نہیں کیا اور ہم عصروں نے تو ہمیشہ حق تلفی ہی کی۔ اردو کا ہر فکشن لکھنے والا نقّاد ان کے تئیں رشک و رقابت کا شکار ہے حالاں کہ حقیقی صورتِ حال ٹھیک معکوسی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ شموئل احمد نے یہ خود نوشت بہت حد تک ادبی سیاست کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے مکمّل کی ہے۔ اس لیے اپنی ادبی، سماجی فتوحات پر بھر پور ارتکاز قائم رکھا گیا ہے۔ ضمنی طور پر ہی دوسروں کے احوال یا ان کے عہد کے معاملات روشن ہوتے ہیں۔ یہاں بھی ادبی مقام کے لیے شکوہ و شکایت کا سلسلہ موجود ہے۔ اپنے بارے میں لکھتے ہوئے گہری باتوں تک پہنچنے کا کچھ زیادہ شوق یا مشقّت شموئل احمد کے یہاں نہیں ہے۔ خواتین کی صحبتوں کی نمک مرچ کے ساتھ تفصیل پیش کرنے میں شموئل احمد کا دل لگتا ہے۔ یہ ان کے افسانوں سے بڑھ کر اس خود نوشت میں موجود ہے۔ ناول کی حیثیت سے تو شاید اس کتاب کے ایک صفحے کو بھی کوئی وقار حاصل نہیں ہو سکتا اور اپنی زندگی کے مرتب احوال کی پیش کش کے اعتبار سے غور کریں تو یہ خود نوشت فلمی اصطلاح میں Rushes کی شکل میں ہی ہمارے سامنے پیش ہوتی ہے۔ شموئل احمد کے افسانوں میں بکھراؤ کی کیفیت کم رہتی ہے اور کرداروں اور موضوعات پر وہ بھرپور ارتکاز قائم رکھتے ہیں لیکن اس خود نوشت میں سب کچھ بکھرا بکھرا اور غیر مرتّب معلوم ہوتا ہے۔ زبان کی ڈور بھی اکثر و بیشتر ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے۔ اپنے عہد کا ایک ممتاز فکشن نویس سیکڑوں صفحات سیاہ کرتا جا تا ہے لیکن ہزار جملوں کے بعد بھی شاید ہی کبھی کوئی ایک اچھا تخلیقی جملہ یا نفیس طرزِ اظہار میسّر آتا ہے۔

ایک قاری کی حیثیت سے یہ بات قابلِ غور ہے کہ شموئل احمد کو اس خودنوشت کے لکھنے کی ضرورت کیا تھی؟ اسے شاید اتفاق کہنا چاہیے کہ ان کی نسل کے کسی اہم لکھنے والے نے اپنی خودنوشت نہیں لکھی۔ ان کے بزرگ افسانہ نگاروں میں عابد سہیل کی خود نوشت پچھلے دنوں آئی اور راشد انور راشد کے سوالوں کے جواب کے وسیلے سے قاضی عبد الستار کی خود نوشت سامنے آئی۔ اردو کی خودنوشتوں کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر لکھنے والوں نے اس کام کو سنجیدگی سے کیا اور کوشش یہ کی کہ اپنی زندگی کے احوال، عہد اور معاصرین کے تناظر میں ترتیب کے ساتھ پیش کریں۔ خاص طور سے جنھوں نے اپنے بزرگوں کی آنکھیں دیکھی تھیں اور نئی دنیا کو بنتے اور بدلتے دیکھا تھا، ان کی جہاں دیدنی کا مظاہرہ ان کی خود نوشتوں میں ہوا ہے۔ ہاں بعض خودنوشتیں چٹخارہ پیدا کرنے کے لیے ہی لکھی گئی تھیں لیکن شموئل احمد ’یادوں کی برات‘ کے کس نشانے کو پار کر سکتے ہیں؟ جوش کی آوارگی کے سامنے ’اے دلِ آوارہ‘ کی آوارگی شرافت اور تہذیب کا بدل ہی ہے لیکن جوش کی جہاں دیدنی، بڑے لوگوں کی صحبتیں اور زبان کا تخلیقی اظہار سب کے حصے میں کہاں سے آئے گا؟۔ باتوں کو صاف صاف کہنے کا بولڈ انداز بھی جوش کی شناخت ہے چاہے وہ واقعہ سچّا ہو یا جھوٹا۔ اس لیے تمام تر چٹخارے کو منہا کر دینے کے باوجود جوش کی خود نوشت اردو کی بڑی کتابوں میں شامل ہے لیکن شموئل احمد کی یہ تصنیف زبان کے پھیکے پن اور تجربات یا جہاں دیدنی کے سرسری ذائقے کے سبب اوسط درجے کی خود نوشت کے طور پر شمار کرنے لائق بھی شاید ہی معلوم پڑے۔

شموئل احمد نے نہ جانے کس عالم میں یہ جملہ لکھا: ’’مجھے وہ لوگ پسند ہیں جو اپنی بدعتی قبول کرتے ہیں۔‘‘ [ص: ۱۴] بدعت اور بدعتی کے اصطلاحی معنیٰ ہر چند کہ الگ ہیں لیکن شموئل احمد نے اس جملے کو اپنی دوست رینو گپتا کے سلسلے سے استعمال کیا ہے۔ رینو گپتا نے خود سے اپنی شراب نوشی کا ذکر اوراقرار کیا۔ اس اعتبار سے شموئل احمد نے بدعتی کے معنیٰ یہ مخصوص کیے کہ سماجی اصول و ضوابط سے پَرے جا کر کوئی کام کرنا اور اس کا بَر ملا اظہار ہی بدعت ہے۔ واقعی یہ ایک باغیانہ صفت ہے اور اس کے سلاسل مجاہدین اور صوفیوں تک پہنچتے ہیں لیکن شموئل احمد اسے نہایت محدود معنوں میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں بدعت یا بغاوت صرف عورت مرد کے آزادانہ رشتوں تک محدود ہے۔ وہاں بھی تذکرے میں لذّتیت اور چٹخارہ زیادہ ہے، زندگی کا کیف یا طبیعت کی ضرورت کی سنجیدگی کبھی کبھی ہی سامنے آتی ہے۔ اس خود نوشت میں عورتیں، لڑکیاں اور معمّر خواتین کے متعدد کردار مصنف کے حلقۂ اثر میں آتے ہیں۔ مصنف اِن سب میں پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔ سگریٹ، شراب، بہ قولِ غالب ’پیش دستی‘ اور کبھی کبھی اس سے آگے کی منزلیں بھی سامنے آتی ہیں لیکن اکثر واقعات ایک جیسے انداز میں شروع اور ختم ہوتے ہیں جس سے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ ان میں حقیقی عنصر کم اور فکشن زیادہ ہے۔

’’اے دلِ آوارہ‘‘ کتاب خاصے افسانوی انداز میں شروع ہوتی ہے۔ ابتدائی جملوں میں مصنف نے خواتین سے اپنی دلچسپیوں کا بڑے لبھاونے انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ شموئل احمد کی زبان سے ہی وہ بات سنیے کہ عورتوں کی گفتگو، سگریٹ اور شراب کی محفلوں میں انھیں کیا حاصل ہوتا ہے:

’’مجھے سگریٹ پینے والی عورتیں اچھی لگتی ہیں۔ ایسی عورتوں میں ایک طرح کا کھُلا پن ہوتا ہے۔ آپ اُن سے بہت نجی باتیں شیئر کر سکتے ہیں۔ کسی رستراں کے نیم اندھیرے گوشے میں مشروبات کی ہلکی ہلکی چُسکیوں کے ساتھ ان سے گفتگو کا لطف کچھ اور ہی ہے۔ میرے افسانوں میں اگر صنفِ نازک کے لطیف احساسات کی دروں بینی ہے تو اس کی وجہ میری اُن سے والہانہ گفتگو ہے جہاں اُن کے ذاتی تجربات سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے۔‘‘ [ص: ۵-۶]

یہاں شموئل احمد کی خصوصی دلچسپیوں کی بہ آسانی پہچان کی جا سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں بہت سارے ایسے شاعر، مصوّر اور بت ساز ملتے ہیں جنھوں نے حقیقی زندگی کے کرداروں کو اپنی تخلیقی قوت سے زندۂ جاوید کر دیا۔ پکاسو کی بہت ساری عریاں تصویریں حقیقی کرداروں کی انھی حالتوں کی عکّاسی ہیں لیکن ہر مصوّر کے پاس نہ پکاسو کی آنکھ ہوتی ہے اور ویسا با کرشمہ مو قلم۔ پکاسو کی نقل کرنے والے صفحۂ قرطاس پر بے روپ لکیریں ہی پیدا کر پاتے ہیں۔ شموئل احمد بھلے اپنی زبان سے اپنے افسانوں میں ’لطیف احساسات کی دروں بینی‘ کی بات کہتے ہوں لیکن یہ بڑی چیز ہے اور اس کا عشرِ عشیر بھی حاصل ہو جائے تو لکھنے والا با اعتبار بن جائے گا۔

شموئل احمد نے چوں کہ کتاب کا نام ’اے دلِ آوارہ‘ طے کیا تھا، اس لیے انھیں اس کیفیت کی وضاحت کرنی ہی تھی لیکن لفظِ ’آوارہ‘ کو انھوں نے اچھے خاصے محدود معنوں میں قید کر دیا حالاں کہ ہمارے بزرگوں نے اس لفظ میں پوری تہہ داری پیوست کر رکھی تھی۔ اب ذرا دیکھیے کہ شموئل احمد ’آوارہ‘ اور ’آوارگی‘ کے کیا مفاہیم طے کرتے ہیں :

’’آوارگی کی عمر نہیں ہوتی۔ آدمی عمر کے ہر حصّے میں کہیں نہ کہیں آوارہ ہے۔ آدمی ختم ہو جاتا ہے، آوارگی بچی رہتی ہے۔ اس کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آوارگی ابدی ہے۔‘‘ [ص: ۱۹]

’’آوارگی میری طاقت بھی ہے اور میری تخلیقیت کا منبع بھی۔۔ تھوڑی بہت آوارگی تو فن کار میں ہونی ہی چاہیے۔۔ بہت محفوظ زندگی جینے والوں کی تخلیقیت آہستہ آہستہ مرنے لگتی ہے۔‘‘ [ص: ۶]

جب آوارگی ان کی تخلیقیت کا منبع ہو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ آخر اس سے ان کے یہاں کس انداز کا فیض پہنچتا ہے۔ فنکار کہاں کہاں سے اپنی کہانیاں تلاش کرتا ہے اور حقیقی کرداروں کو کس انداز سے کاغذ پر اتارتا ہے۔ پہلے شموئل احمد کی زبانی یہ سنیے کہ ان کے افسانے اور کردار کہاں کہاں سے انھیں میسّر آئے:

’’میں کہانی سوچ کر نہیں لکھتا، مجھے کہانی سوجھتی نہیں ہے۔ مجھے کہانی مل جاتی ہے۔۔ ’بگولے‘ رانچی جانے والی بس پر ملی۔۔ کہانی ’سنگھار دان‘ مجھے راحت کیمپ میں ملی۔‘‘ [ص: ۷-۹]

’’اسی جذبے کو لے کر میں نے کہانی ’بگولے‘ لکھی۔ کہانی ہِٹ ہوئی۔ اس کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ پٹنہ کے ایک ہندی ادیب نے کہانی چوری کر لی۔ میں نے پریس کانفرنس کی اور چوری کی خبر ہر جگہ چھپی۔‘‘ [ص: ۸-۹]

’’میں نے امام کی کہانی لکھی– ’اونٹ‘ جس کا خمیر شمعون کی کار گزاریوں سے تیّار کیا۔‘‘ [ص: ۸۵]

’’میں نے اپنی کہانی ’اونٹ‘ میں سکینہ کے جسم کا جو بیان کیا ہے، وہ اسی چڑیل (بنگلہ دیشی مہاجر) کا جسم ہے۔‘‘ [ص: ۹۲]

شموئل احمد نے اپنی آوارگی سے تخلیقی تنو مندی حاصل کرنے کی تفصیل پیش کرنے میں زیادہ توجہ دی ہے لیکن خود نوشت میں اپنے بعض دوستوں یا دوست نما رشتے داروں کے بہانے جو واقعات جمع کیے گئے ہیں، وہاں ان کا دلِ آوارہ بڑے قرار سے دھڑکتا ہے۔ بیان میں دوسروں کے سہارے لذّتیت کا ایک ایسا ہنر آزمایا گیا ہے جیسے شموئل احمد صرف آنکھوں دیکھے واقعات پیش کر رہے ہیں لیکن ان کے چند مختصر اقتباسات اس طور پر ملاحظہ کیجیے کہ وہ باتیں کتنے Involvement کے ساتھ پیش کرتے ہیں :

’’(رینو گپتا) کہتی ہے کہ بہت حسین بیوی نہیں ہوتی۔ بہت حسین طوائف ہوتی ہے۔‘‘ [ص: ۱۴]

’’اس (رینو گپتا) کی نظر میں میاں بیوی کا رشتہ مالک اور غلام کا رشتہ ہے جس میں مالک کوئی نہیں ہے، دونوں غلام ہیں۔‘‘ [ص: ۱۴]

’’کچھ دن بعد شمعون بھی بھاگل پور آیا۔۔ میں نے ایسا ڈان جیوآن ٹائپ آدمی کہیں نہیں دیکھا۔ وہ مجھے اپنے (اپنی؟) فتوحات کے قصّے سناتا کہ کہاں کس لڑکی کے ساتھ ہم بستر ہوا۔ اس کی فہرست میں زیادہ تر شادی شدہ عورتیں تھیں۔ اس کی منطق تھی کہ شادی شدہ عورتوں سے رومانس میں ہر طرح کا تحفّظ ہے۔ اگر انھیں حمل بھی ٹھہر جائے تو کریڈٹ اُن کے شوہروں کو جاتا ہے۔۔ وہ چھوٹے موٹے اخراجات بھی پورے کرتی رہتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتا تھا کہ کچھ لڑکیاں ہوتی ہیں جن سے عشق کیا جا سکتا ہے، شادی نہیں کی جا سکتی اور کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ شادی کی جا سکتی ہے، عشق نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ایسی لڑکی سے شادی کا مشورہ دیتا جو ہنس مُکھ ہو اور ایک سے ایک کھانا پکانا جانتی ہو۔‘‘ [ص: ۷۷]

’’میں سمجھتا ہوں، ہر آدمی کے اندر ایک ڈان جیوآن ہوتا ہے جو حالات کے اعتبار سے اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ میں ایک افسانہ نگار کی مثال دینا چاہوں گا۔ میں پہلے اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ میں نے جنس کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور مرد و زن کے تعلّقات کو سمجھتا ہوں لیکن اس شخص سے ملنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں احمق ہوں۔ میرے پاس کتابی گیان تھا اور اس کے پاس تجربہ تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے افسانوں میں سیکس کہیں نہیں ہے۔‘‘ [ص: ۸۸]

اسی سلسلے سے شموئل احمد کے چند اور تاثرات بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جہاں وہ عورتوں کے بارے میں بعض جملے تخلیقی شان اور آن بان کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہاں وہ افسانہ نگار اور صنفِ نازک کی نفسیات کے شناور کی طرح سامنے آتے ہیں۔ ایسی مثالیں زیادہ تو نہیں لیکن جب کبھی ان کا قلم رنگ پہ آتا ہے تو ایسے جملے سامنے آتے ہیں :

’’مجھے لگتا ہے، عورت اور بلّی دونوں ہی ایک پیار بھرے لمس کے لیے ہمیشہ ہی ترستی ہیں۔‘‘ [ص: ۵۳]

’’لومڑی کی طرح چالاک اور شیر کی طرح نڈر آدمی ہی پرائی عورت کو اپنی بانہوں میں بھر سکتا ہے۔‘‘ [ص: ۸۲]

’’جس سے شادی ہوتی ہے، وہ بیوی ہوتی ہے اور جو محبوبہ ہوتی ہے، وہ عورت ہوتی ہے۔‘‘ [ص: ۸۶]

’اے دلِ آوارہ‘ خود نوشت ہے، اس لیے دوسروں کے جلوؤں کے ساتھ شموئل احمد نے اپنی کیفیات کے لیے بھی تھوڑی سی جگہ رکھی۔ بڑا حصہ تو واقعات پر مشتمل ہے لیکن کہیں کہیں نفسیاتی توجّہ کے ساتھ اپنے آپ کو پہچاننے اور سمجھنے کی کوشش بھی ملتی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ خود شناسی اور دروں بینی کا یہ عمل ضمنی طور پر ہی درجِ گزٹ ہوا ہے ورنہ شموئل احمد اپنی فتوحات اور دوسروں کی زندگی کے چٹخارے میں ہی زیادہ الجھے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ چند اقتباسات سے ایک ایسے شموئل احمد کو تلاش کیا جا سکتا ہے جو اِس کتاب سے پہلے لوگوں کی نظر میں نہیں آیا تھا۔ ملاحظہ ہو:

’’گھر میں سبھی خوب صورت تھے۔ حسن سب سے کم میرے ہی حصّے میں آیا۔‘‘ [ص: ۲۳]

’’مجھ میں پرتبھا (صلاحیت) کی کمی رہی ہے۔۔ میں اپنی راہ الگ نہیں بنا سکا۔‘‘ [ص: ۲۱]

’’آلوک دھنوا کی یہی آگ شاعری کے سانچے میں ڈھلی ہے۔۔ مجھ میں یہ آگ نہیں ہے۔ یہ جلائی نہیں جا سکتی۔ یہ آگ پیدا ہوتی ہے۔ آدمی اسے لے کر پیدا ہوتا ہے۔ مجھ میں ایک طرح کا ٹھنڈا پن ہے۔‘‘ [ص: ۳۰]

’’میں کمزور ہوں۔ مجھے سہارا چاہیے۔ ماچس کی ڈبیا بھی نیچے گِر جاتی ہے تو میں دیکھتا ہوں، کوئی اٹھانے والا ہے یا نہیں؟ کہیں جاتا ہوں تو بیٹھنے کی جگہ پہلے تلاشتا (تلاش کرتا؟) ہوں۔‘‘ [ص: ۳۷]

’’میں مقصد کے پیچھے بھاگ نہیں پاتا۔ ناکامی ملنے پر کونا پکڑ لیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں، کوئی چیز آسانی سے مل جائے۔‘‘ [ص: ۳۰]

شموئل احمد نے اپنے اندر دو شخصیتوں کی شناخت کی ہے۔ ماہرِ علمِ نجوم اور تخلیقی فنکار کو انھوں نے متوازی حیثیت عطا کی ہے۔ وہاب اشرفی نے اپنی خود نوشت میں شموئل احمد کا ذکر کرتے ہوئے ان کی دوسری حیثیت پر بھی گفتگو کی ہے۔ شموئل احمد کی اختر شناسی پر غور کرنے سے پہلے وہاب اشرفی کی خود نوشت سے ایک اقتباس ملاحظہ کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا:

’’غالب کی زبانی عیاشی کی پیروی میں انھوں نے ماہ رخوں کے لیے مصوری تو نہیں سیکھی لیکن پامسٹری اور اسٹرولوجی سے رابطہ ضرور قائم کیا اور عام طور سے خواتین کا ہوروسکوپ بناتے رہتے ہیں۔ مردوں کے ہوروسکوپ مرتب کرنے میں بھی تکلّف نہیں کرتے۔ پیشین گوئیاں بھی علم نجوم کے سہارے کرتے رہتے ہیں۔ ایک زمانے میں رانچی میں انھوں نے حساب کتاب کر کے مجھے بتایا کہ میں پانچ سال تک وہاں سے نہیں نکل سکتا۔ اتنی مدت کے بعد ہی وہ جگہ چھوڑ سکوں گا، تب ہی دوسری جگہ جانے کی صورت نکلے گی لیکن عجب اتفاق کہ اس پیشین گوئی کے دو ماہ بعد مجھے ہمیشہ کے لیے رانچی کو خیر باد کہنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے علم کا نقص نہیں بلکہ میں نے ہی تاریخ پیدایش غلط بتائی ہو گی۔‘‘ [قصّہ بے سمت زندگی کا: وہاب اشرفی، ص: ۲۳۸]

لیکن شموئل احمد نے خود کو ایک پرو فیشنل نجومی اور ماہر اختر شناس کے طور پر پیش کرنے کی اس خود نوشت میں بہ تفصیل کوشش کی ہے۔ حالاں کہ انھوں نے بر سبیلِ تبصرہ اپنی اس مہارت یا علمِ نجوم کو کیسا گورکھ دھندا مانا ہے، یہ انھی کے چند جملوں میں ملاحظہ کیجیے:

’’ہندستانی معاشرے میں اندھ وشواس اتنا گہرا ہے کہ اسے آسانی سے ختم نہیں کر سکتے۔ جیوتش ہندستانی تہذیب کا حصّہ ہے۔‘‘ [ص: ۹۸]

’’میں جہان آباد میں تانترک مشہور ہو گیا۔ اس دن سے کسی نیتا نے مجھے پریشان نہیں کیا بلکہ مجھے سے صلاح لینے کے لیے آنے لگے۔ کسی کا بیٹا بیمار۔۔ کسی کو اولاد نہیں۔۔ کسی کو جائداد کا جھگڑا۔۔ میں سب کو جنتر بنا کر دیتا اور پیسے لیتا۔ جب تک بیوقوف زندہ ہے (ہیں؟)، عقل مند بھوک نہیں مر سکتا۔‘‘ [ص: ۱۱۱]

اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود شموئل احمد گہرے طور پر اس علم سے خود کو متعلق سمجھتے ہیں اور ان کا یقین ہے کہ ان کی تخلیقیت اور اختر شناسی دونوں کا زندگی زندگی کا ساتھ ہے۔۔ انھوں نے خود نوشت کے آغاز میں ہی اپنی اس مہارت کا بھر پور انداز میں تعارف کرا دیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

’’میرے اندر دو شخصیتیں ہیں۔ ایک جیوتشی، دوسرا فن کار۔ دونوں میں جنگ ہوتی رہتی ہے۔ کبھی کہانی کار حاوی ہو جاتا ہے، کبھی جیوتشی۔۔ کہانی کار حاوی ہوتا ہے تو کہانی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جیوتشی حاوی ہوتا ہے تو زائچے بنانے لگتا ہوں۔ میں جانتا ہوں، دونوں کی جنگ میں مرے گا کوئی نہیں۔،، دونوں لہولہان ہو کر بھی زندہ رہیں گے۔‘‘ [ص: ۱۷]

’’علمِ نجوم کے بہت سارے اسرار میرے سینے میں دفن ہیں۔‘‘ [ص: ۱۸]

’’مجھ میں ایک بُری عادت ہے۔ میں کسی سے ملتا ہوں تو اس میں ستارے ڈھونڈتا ہوں۔ کس گرہ کا آدمی (ہے)؟‘‘ [ص: ۳۵]

’’میں نے بھاگل پور میں اپنے گھر پر ہی جیوتش کاریالیہ کا بورڈ لگا دیا اور آفس سے آنے کے بعد شام کو پیشے ور نجومی کی حیثیت سے بیٹھنے لگا۔ میں نے بھُٹّو کی پھانسی کی پیشین گوئی کی جو حرف بہ حرف صحیح نکلی اور میرا کاریالیہ چل پڑا۔‘‘ [ص: ۹۷]

شموئل احمد نے شاید درست ہی لکھا ہو کہ ان کا جیوتش کا کاریالیہ چل نکلا۔ خود نوشت میں اس پیشے کے متعلق طرح طرح کے واقعات اور کرداروں کی کیفیات اور ماہر اختر شناسی کی طرح ان کی کار کردگی وغیرہ معاملات پر بھر پور روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہاں بھی خواتین اور ان کی وفا شعاری یا بے وفائی کے احوال بھرے پڑے ہیں۔ بھلے وہاب اشرفی کی نقلِ مکانی کے بارے میں وہ غلط پیشین گوئی کر بیٹھے۔ ان کا یہ متوازی کام رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ علمِ نجوم کے امور میں وہ کچھ اس قدر گہرے اترتے چلے گئے کہ اب اگر ذیل کے ان کے مشاہدات ملاحظہ کیجیے اور یہ یاد کیجیے کہ وہ تعلیم اور پیشے سے انجینئرنگ سے وابستہ رہے اور اس لیے سائنسی بصیرت لازمی طور پر ان کی زندگی کا حصّہ ہو گی تو آپ کی حیرت کی انتہا نہ ہو گی:

’’علمِ نجوم کے کچھ ویدک نظریات ایسے ہیں جسے (جنھیں) سائنس نے محض صحیح ثابت کیا ہے۔ اس سے آگے کوئی نئی بات نہیں کر سکا۔‘‘ [ص: ۹۸]

’’سائنس کی حد جہاں ختم ہوتی ہے، علم نجوم کی حد وہاں سے شروع ہوتی ہے۔‘‘ [ص: ۹۹]

’’سائنس زحل کے جسم میں ہی اُلجھا رہا لیکن نجومی اس کی روح میں اترا۔‘‘ [ص: ۹۹]

شموئل احمد جب ادبی اور علمی موضوعات یا اپنے عہد کے بڑے سوالوں پر دانش ورانہ گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں کلیم الدین احمد کا سید احتشام حسین کے سلسلے سے پیش کردہ وہ ریمارک یاد آتا ہے جو انھوں نے آلِ احمد سرور کے انداز کی نقل کے سلسلے سے کہا تھا: ’’جب وہ احتشام حسین اس طرز میں لکھتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ہاتھی خوش فعلیاں کر رہا ہے‘‘ [اردو تنقید پر ایک نظر، ص: ۳۰۴]

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی بات کے سرسری نتائج سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتے۔ صفحہ۱۵۱ سے ۱۶۳ تک وہ اردو ہندی افسانوں کی تاریخ پر گفتگو کرتے ہیں جو اس بات کا بھر پور ثبوت ہے کہ شموئل احمد ادبی تاریخ کے معمولی طالبِ علم ہیں اور حقائق سے نتائج اخذ کرنے کے معاملے میں مشّاق لکھنے والے کے بجائے سرسری گزرنے والے محرّر کا ہی فریضہ انجام دے پاتے ہیں۔ فرقہ واریت، تقسیمِ ملک، فسادات اور ہجرت جیسے معاملات میں ان کی گفتگو ایک نگاہِ طائرانہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ حالاں کہ سابقہ مشرقی پاکستان کے متاثرین سے ان کی قرابت داری رہی اور انھوں نے اس خود نوشت میں ایسے چند کرداروں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شموئل احمد خواتین کی گفتگو اور ان کی تجربات میں جس انہماک اور دل جمعی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، اس انداز سے وہ عصرِ حاضر کے علاقائی، قومی اور بین الاقوامی معاملات پر گہرائی سے توجہ نہیں کرتے۔ وہ ذاتی طور پر تاریخ اور سماجیات کو وسیع تناظر میں تجزیے کا حصّہ نہیں بنا تے۔ اسی لیے وقت اور تاریخ کے پیچیدہ معاملات میں بھی کچھ ایسے سرسری احوال سامنے آ جاتے ہیں کہ ہمیں اس بات کا ثبوت مل جا تا ہے کہ اپنے وقت کا با اعتبار افسانہ نگار اور ناول نویس علمی اعتبار سے کتنا کچّا ہے؟

صفحہ ۸۹ پر بنگلہ دیش اور صفحہ ۹۶ پر پاکستان یا ہند پاک رشتوں کے بارے میں جس سرسری اور طفلانہ انداز میں گفتگو کی گئی ہے، وہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ شموئل احمد کا یہ خاص میدان نہیں۔ سید حامد نے اپنے ایک مضمون میں مولانا وحید الدین کے بارے میں اپنے نتائج پیش کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ مذہبی امور سے الگ جیسے ہی مولانا سیاسی معاملات پر راے زنی کرتے ہیں، انھیں پتا ہی نہیں چلتا کہ کب وہ عالمانہ سے طفلانہ انداز میں مبتلا ہو گئے۔ منٹو نے عورتوں کی کج مج زندگی کے بارے میں شموئل احمد سے کچھ کم نہ لکھا ہو گا۔ وہ بھی خواتین کے رسیا مانے جاتے ہیں۔ جہاں گنجائش ہوتی ہے، شموئل احمد کی طرح ہی لذّت کوشی میں بھی مبتلا ہونے سے منٹو کو کوئی گریز نہیں لیکن سیاسی اور سماجی بصیرت یا ملک اور اقوامِ عالم کے مسائل پر منٹو کے مضامین یا افسانوں میں جو اشارے ہیں، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ باخبر ذہن رکھنے والا تخلیق کار تھا لیکن شموئل احمد کا مطالعۂ کائنات اتنا سمٹا ہوا ہے کہ کوشش کر کے اگر وہ اس سے باہر بھی نکلتے ہیں تو انھیں منہ کی ہی کھانی پڑے گی۔ ان کی اعلا تعلیم اور جہاں دیدنی پتا نہیں کیوں ان کی تحریروں میں شان و شکوہ کے ساتھ موجود نہیں۔

خود نوشت کے صفحہ ۱۶۱ پر شموئل احمد نے اردو زبان کی شُد بُد کے بارے میں بڑی صفائی سے ایک بات لکھی ہے۔ سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران شاید انھیں اردو پڑھنے کا درسی اعتبار سے زیادہ موقع ہاتھ نہ آیا ہو گا لیکن اردو میں اپنی استعداد بڑھانے کے لیے انھوں نے کس طرح مشقت کی، اس کا انداز یہ ہے:

’’میں نے اردو باقاعدہ نہیں سیکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سے املا کی غلطیاں ابھی بھی ہوتی ہیں۔ میں نے اردو خط پڑھ کر سیکھی۔ گھر میں کوئی خط پڑھ کر سناتا تو مجھے مضمون یاد ہو جاتا تھا۔ پھر میں خط اٹھا کر دیکھتا کہ ’جناب‘ اس طرح لکھا ہوا ہے، ’والد‘ اس طرح لکھا ہوا ہے۔‘‘ [ص: ۶۱]

یہ حقیقت ہے کہ شموئل احمد کی زبان کا ڈھانچا مستحکم نہیں ہے۔ فکشن نویس کو اکثر یہ آزادی اور فراغت حاصل ہوتی ہے کہ اسے اپنے ماحول کی ترجمانی کے لیے کرداروں کی زبان کا استعمال کرنا پڑتا ہے لیکن ’اے دلِ آوارہ‘ میں راوی خود شموئل احمد ہیں۔ اس لیے زبان کی ساری ذمہ داریاں بھی انھی کی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہر نثر نویس ماہرِ زبان اور انشا پرداز نہیں ہو سکتا لیکن شموئل احمد کا قاری ان سے کیا اتنی بھی توقع نہیں رکھے کہ وہ ایسی غلطیوں سے بچیں جن پر اسکول کے بچوں کو اُن کے اساتذہ سزا دیتے ہیں۔ تذکیر و تانیث کا نظام تو درست ہونا ہی چاہیے۔ آپ جو لفظ استعمال میں لاتے ہیں، ان کے معنیٰ اور موقعِ استعمال سے بھی واقفیت رکھنا کون سی بُری بات ہے؟ پھر یہ سوال کہ جب کسی ایک زبان میں ہزاروں صفحات لکھنے اور شائع کرنے یا لاکھوں کے انعام یافتہ ہونے کے بعد کیا اس زبان میں قواعد و انشا کے ابتدائی مسائل درست نہ ہو جانے چاہییں۔ ایسی مثالوں سے یہ کتاب بھری پڑی ہے لیکن چند عبرت آمیز مثالیں ذیل کے جملوں سے ملاحظہ ہوں اور ہم ماتم کریں کہ کس سطحِ زبان کو اپنے عہد کا معتبر افسانہ نگار اپنی خود نوشت میں پہنچتا ہوا ملتا ہے:

’’دونوں میں چھتیس کا آنکڑہ تھا۔‘‘ [ص: ۳۴]

’’مسجد کی مینار گری۔‘‘ [ص: ۴۴]

’’اصل میں اس گھرانے سے ہم لوگوں کے بہت دیرینہ تعلّقات نہیں تھے۔‘‘ [ص: ۶۵]

’’ان میں ملّت اتنی تھی (جس کی) مثال دی جاتی تھی۔‘‘ [ص: ۶۶]

’’ان کی ایک لڑکی میرے محلّے میں ایک رشتے دار سے بیاہی تھی۔ وہ ایک دم آخری دنوں میں اُن کے پاس رہنے لگیں۔‘‘ [ص: ۷۱]

’’سقوطِ ڈھاکہ کے بعد زائرین بھاگ بھاگ کر ہندستان آنے لگے۔‘‘ [ص: ۷۲]

ایسا نہیں کہ ’’اے دلِ آوارہ‘‘ میں مصنف کی تخلیقی زبان کا کوئی وصف ہی سامنے نہیں آیا۔ لکھتے لکھتے دستِ ہنر کے ناخن اُگ ہی آتے ہیں اور تخلیق کار سے خدا کسی عالمِ جذب میں کچھ ایسے جملے بھی ادا کرا دیتا ہے جو پڑھنے والوں کے ذہن پر نقش ہو جائیں۔ شموئل احمد کے افسانوں میں ایسے جملے ہمیں بار بار نئی معنویت کے ساتھ ملتے ہیں لیکن اس خود نوشت میں بھی ان کے قلم کی روشنائی پوری طرح سے خشک نہ ہو سکی ہے اور تخلیق کار کی زبان کا پُر لطف ذائقہ ہماری سیری کے لیے کافی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

’’عادتیں پرانے غلاموں کی طرح اپنا حصّہ مانگتی ہیں۔‘‘ [ص: ۳۷]

’’جنّت میں غصّہ حرام ہے۔‘‘ [ص: ۱۷]

’’محکمہ کوئی بھی ہو، منسٹر سے لے کر چپراسی تک سبھی چاندی کی زنجیر سے بندھے ہوتے ہیں۔ یہ زنجیر بہت لطیف ہے۔ یہ نظر آتی بھی ہے اور نہیں بھی۔ یہ کھنکتی ہے کھن․․․کھن․․․کھن․․․ آزادی سے پہلے اس کی آواز دھیمی تھی، اب بہت تیز ہے۔‘‘ [ص: ۴۳]

’’ساری زمین پر سب سے بھدّا منظر ہے روتا ہوا آدمی۔‘‘ [ص: ۴۷]

’’در و دیوار پر دھول کی پرتیں مستقل وہم کی طرح جمی ہوئی تھیں اور شام کا اندھیرا پاؤں پسار رہا تھا۔‘‘ [ص: ۶۹]

’’جب دو ملکوں میں جنگ ہوتی ہے تو جیت کسی کی نہیں ہوتی۔ دونوں ہی ہارے ہوئے ہوتے ہیں۔‘‘ [ص: ۷۲]

’’اُن کے چہرے پر قسمت کی نارسائی کا ماتم تھا اور آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی تھیں۔‘‘ [ص: ۷۲]

’’اس کے چہرے پر بیتے موسم کا کوئی دُکھ نہیں تھا۔‘‘ [ص: ۷۲]

’’جمہوریت کی پَری بیٹھ گئی بالاخانے پر۔ بازار میں اپنے لیے گنبد بنا لیا اور اٹھائی گیرے سے ہم بستر ہوتی ہے۔‘‘ [ص: ۲۷]

’’اس بلا نوش سے میری ملاقات رانچی کے سادھنا لاج میں ہوئی۔۔ دھند کی اگر آنکھیں ہوتی ہیں تو اس کی آنکھوں جیسی ہوں گی۔۔ اور دھند کا اگر چہرا ہوتا ہے تو اس کا چہرا بھی۔‘‘ [ص: ۱۲۱]

’’جب سپنے چوری ہوتے ہیں تو دل کے مقام میں ننھا سا سوراخ ہو جاتا ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔‘‘ [ص: ۱۲۴]

یہ خود نوشت بہت عجلت میں ترتیب دی گئی ہے، اس لیے ہر جگہ ایک بکھراؤ کا عالم ہے۔ شموئل احمد نے باضابطہ طور پر اپنی ترجیحات طے نہیں کیں۔ افسانے کے بعض ماہرین اس بات پر بڑے سنجیدہ ہوتے ہیں کہ کسی اچانک موڑ سے افسانے کا شروع ہونا اور اسی طرح ختم ہو جانا اس کی خاص صفت ہے۔ شموئل احمد کی اس خود نوشت میں کہنے کو تو بارہ بے عنوان ابو اب متعین ہیں لیکن مشکل سے دو تین ایسے ابو اب ہیں جہاں سلسلے سے کوئی بات شروع ہوتی ہے اور وہ منطقی انجام تک پہنچتی ہے۔ اپنے فضائل و کمالات کے جادو میں وہ کچھ اس طرح مبتلا ہیں جیسے انھیں اپنے معاصرین کی اہمیت بہت کم سمجھ میں آتی ہو۔ اپنے بزرگوں یا معتبر مصنفین کے بارے میں تو انھوں نے برائے نام ہی لکھا۔ رانچی کے چند افراد کسی طرح چند صفحات میں جگہ پا گئے لیکن عظیم آباد بہت حد تک خالی ہے۔ ان کے مدیران جنھوں نے ان کی ادبی پشت پناہی کی، ان کا سرے سے کوئی ذکر نہیں۔ انعامات کے پیچھے کھیل تماشے پر وہ چند جملے بھی نہیں لکھتے جب کہ حصولِ انعام کے بعد کی کیفیت اور سرشاری پر اس کتاب میں بڑے بول موجود ہیں۔ انھوں نے اپنے عہد کے اکثر لکھنے والوں کے ادھورے نام لکھے ہیں۔ حسین یعنی حسین الحق، ساجد یعنی ساجد رشید، طارق یعنی طارق چھتاری، اشرف یعنی سید محمد اشرف؛ یہ طریقۂ کار بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا گیا ہے۔ غالب نے اپنے ایک خط میں مکتوب الیہ کو تفصیل سے پتا لکھنے کے لیے شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک مجھے میرے مرتبے سے گرا نہ دو، تمھیں چین کیوں کر آئے گا؟ شموئل احمد بھی اپنی کتاب میں اپنے ہم عصروں کو شناخت کا کیوں کر موقع دیں گے۔ گلی کوچے کے بچّوں کی طرح سے انھیں ہانک لگا کر یہاں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ صریحاً یہ احساسِ کمتری ہے۔ جمشید پور فساد کے بارے میں یہاں کچھ آنکھوں دیکھے احوال درج ہوئے ہیں، کاش بھاگل پور فسادات پر بھی شموئل احمد چند صفحات رقم کر دیتے جہاں کے وہ حقیقی باشندہ ہیں۔

دسویں باب کی ابتدا کرتے ہوئے شموئل احمد نے کیا خوب لکھا ہے: ’’ادیبوں کو بڑھاپے میں شہرت کی ہوس بڑھ جاتی ہے۔ ہارے ہوئے تخلیق کار کہانی چوری کرتے ہیں اور ہوس کے شکار مدیر مسوّدے۔‘‘ پتا نہیں، شموئل احمد خود کو بوڑھوں کے شمار میں لانا پسند کریں گے یا نہیں لیکن ان کی ملازمت سے سبک دوشی کے زمانے بیت گئے۔ انھیں بزرگ تو کہنا ہی چاہیے۔ ایک زمانے میں ہندی میں نصف درجن سے زیادہ کتابیں زیرِ طبع ہونے کا انھوں نے اپنی کسی کتاب کے فلیپ پر ذکر کیا تھا جو آج تک نہیں شائع ہو سکیں۔ اردو کی نفسیاتی کہانیاں منتخب کرتے ہوئے انھوں نے چلتے پھرتے انداز سے ہی اپنے ہم عصروں سے تاوان وصول کر لیا۔ اچانک ان کی کتاب ’پاکستان (ادب کے آئینے میں)‘ سامنے آئی تو ان کی خود نوشت کا وہ جملہ یاد آیا کہ ’بڑھاپے میں شہرت کی ہوس بڑھ جاتی ہے‘۔ شموئل احمد کی اس خود نوشت اور ادھر جلدی جلدی شائع ہونے والی ان کی کتابوں کو اسی انداز سے دیکھا جائے گا۔ کاش! انھیں اپنے بہترین افسانوں یا بعض سلیقے کے ساتھ پیش کردہ کرداروں پر مکمل بھروسہ ہوتا کیوں کہ ادب میں دائمی حیثیت معیار کی وجہ سے متعین ہوتی ہے نہ کہ مقدار یا ہوس کارانہ Book making سے۔ مجھے یقین ہے کہ اردو ادب کے قارئین شموئل احمد کی اس خودنوشت کو بہ نظرِ توجہ نہیں دیکھیں گے اور یہ کتاب اردو کی بہت ساری کتابوں میں گُم ہو کر رہ جائے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے