آہ پروفیسر ابن کنول! ۔۔۔ شمس کمال انجم

وہ خاک نشیں جس کو دنیا ناصر محمود کمال کے نام سے بالکل نہیں جانتی تھی خالد محمود کا آخری خاکہ لکھ کر اچانک خاک کے سپرد ہو کر اپنے چاہنے والوں کو حیران پریشان اور دنیا کو ویران کر گیا۔۔ سب کا خاکہ لکھنے والے خاکی کا خاکہ اب کون لکھے گا؟ شاید سہیل انجم لکھنے کی تیاری کر رہے ہوں کہ وہ ان کے عمرے سے آنے کے بعد ان سے ملاقات کا ارادہ کر رے تھے یا ہو سکتا ہے مرحوم خود کسی روز اپنے کسی محترم یا عزیز کے خواب میں آ کر اپنا خاکہ القا کر جائیں کہ جو سب کے خاکے تیار کرتا تھا اس نے اپنا خاکہ بھی ضرور قلمبند کیا ہو گا۔۔

دنیا کی نظر میں وہ بڑے قابل تعریف تھے مگر دنیا انھیں محمود کے نام سے نہیں جانتی تھی، انھوں نے اپنے ادبی کمالات کے جھنڈے بھی گاڑے تھے لیکن دنیا انھیں کمال کے نام سے نہیں جانتی تھی، وہ عزیزوں کا بڑا خیال بھی رکھتے تھے ان کی مدد بھی کرتے تھے لیکن وہ ناصر کے نام سے بھی نہیں جانے جاتے تھے اسی لیے وہ کنول کی طرح ہمیشہ شگفتگی اور خوشبو بکھیرتے تھے، سراپا کنول تھے بلکہ ابن کنول بھی ہاں محمود، ناصر اور کمال والے مسمیات سے انھیں فطری لگاؤ تھا اسی لیے جب میں ان سے پہلی بار ملا تو میں حیران ہو گیا کہ یہ شخص مجھ سے کیوں اتنی محبت سے مل رہا ہے جیسے مجھ سے خوب واقف ہو۔۔ پھر جب میں نے خالد محمود صاحب کا خاکہ سنا تب معلوم ہوا کہ جس نام کے ساتھ یہ تینوں الفاظ جڑے ہوتے تھے انھیں ان سے فطری لگاؤ ہوتا تھا۔۔ بعینہ ہم سب کو بھی ان سے لگاؤ تھا، محبت تھی، سب کو یقین تھا کہ وہ ابھی اور محبتیں بانٹیں گے لیکن وہ علی گڈھ میں محبتیں بانٹتے ہوئے اس آخری عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے بلا بتائے ٹیک آف کر گئے جہاں دیر سویر سب کو جانا ہے، بہت چلے گئے بہت باقی ہیں، نارنگ اور فاروقی بھی وہیں گئے ہیں، امجد بھی چلے گئے اور کل ضیاء بھی۔۔ وہاں جو پیپر اور خاکے لے کے جانا ہے سب کے سب وہاں پیش کیے جائیں گے اور پورے پورے پیش کیے جائیں گے نو خلاصہ نو ملخص! لیکن کس صاحب کا پیپر اور کس خاکی کا خاکہ "صاحب صدر” پاس کریں گے، سرٹیفکیٹ کے ساتھ مومنٹو، شال اور فردوس گارڈن میں داخلے کا پاس کس کس کو ملے گا اس کا کسی کو پتہ نہیں ہاں ہم اپنے پیپر اور خاکے کو پاس ہونے کے قابل بنانے کے لیے کتنی سنجیدہ محنت کر رہے ہیں اس کا سب کو خوب پتہ ہے۔۔ اللہ ابن کنول کو وہاں بھی شگفتہ رکھے، خوشبوؤں میں بسا ہوا رکھے، ان کا خاکہ وہاں بھی مہکتا رہے، کانفرنس کی باکمال اور عظیم الشان شخصیات کے ساتھ ان کو نشست ملے اور فردوس گارڈن میں اعلی مقام والسلام:

وہ خاک بسر خاک میں ملتا ہی کسی روز

کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور

(14 فروری 2023)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے